عورت آزادی مارچ، ٹاپ ٹرینڈ کیسے بنا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز یوم خواتین کے موقع پر عورت آزادی مارچ 2019 کے عنوان سے ٹوئٹر پر ایک ٹرینڈ دس گھنٹوں تک ٹاپ پر رہا۔ اس پر حقوق نسواں کے علمبرداروں نے ماہواری، حجاب نامنظور،میرا جسم میری مرضی، مردوں کو انکار کرو، ہم آزادی چاہتی ہیں اور – Say Yes To Vulgarity جیسے نعرے لگائے اور تصاویر شئیر کیں وہاں ایسے طبقے کے مخالفین نے بھی ٹویٹس کی۔

مثلاً انجینئر سمیرا امتیاز نے ٹویٹ کی کہ سب پلے کارڈز میں رنگ اور لکھائی ایک جیسی تھی۔ یہ پلے کارڈز ایک این جی او کے دفتر میں تیار کئے گئے اور پلے کارڈز لہرانے والی لڑکیوں کو پیسہ دے کر لایاگیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان لڑکیوں نے سوائے چند سو روپوں اور ایک لنچ باکس کے کیا حاصل کیا؟

پاکستان ڈیفنس کمانڈ کے نام سے ایک ٹوئٹر اکائونٹ سے ٹویٹ کی گئی کہ حقوق نسواں کے علمبرداروں نے ماہواری، حجاب نامنظور،میرا جسم میری مرضی، مردوں کو انکار کرو، ہم آزادی چاہتی ہیں اور – Say Yes To Vulgarity جیسے نعرے لگائے حالانکہ خواتین کی ضرورت محفوظ سفر اور محفوظ ورکنگ ماحول ہے۔

ایک ٹویٹ میں چارتصاویر شئیر کی گئی تھیں جن پر لکھاتھا:
تمہارا جسم پیسے والے کی مرضی۔
میرے گھر کے مرد میری حفاظت کے لئے اپنی جان بھی دے سکتے ہیں، لبرل آنٹی! تم شاید اتنی قدرواہمیت سے محروم ہو۔
شاید تمھاری سوسائٹی میں آگے بڑھنے کا واحد ذریعہ تمھارا جسم ہے۔
چادر اور چاردیواری میں رہنے والی عورتوں کو Me too اور Times upجیسی تحریکوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ثناامین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا:
کل کے مارچ کی کچھ تصاویر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ فیمنزم نہیں، بے غیرتی ہے۔
رابعہ مصور نے لکھا کہ یوم خواتین منانا بند کرو، ہر دن ہمارا ہے۔ پاکستان سے باہر چلی جائو اور وہاں حقوق کے نام پر استحصال کو بھگتو۔

ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے لکھا کہ عورت آزادی مارچ کرنے والی خواتین نہیں، جسم فروش ہیں۔ آزادی مارچ کرنے والوں کی مخالفت میں کی جانے والی ٹویٹس کی تعداد زیادہ نظر آئی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں