عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔
انسان سوچتا کچھ ہے لیکن ہوکچھ اور ہی جاتا ہے۔ کل سے سوچ رہاتھا کہ عمران خان حکومت کے تضادات اور بچگانہ حرکتوں پر کچھ لکھوں گا لیکن پھر اچانک عجیب و غریب پلے کارڈز اٹھائے ہوئے کچھ خواتین نظر سے گزریں جو یوم خواتین کے موقع پر گزشتہ روز ایک مارچ منعقد کررہی تھیں۔
پلے کارڈز کا رنگ، اس پر لکھے گئے جملوں کی ہینڈرائٹنگ دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ کسی ایک این جی او کے تیارکردہ ہیں، زیادہ تر پلے کارڈز کا رنگ گیروی ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی یا انتہاپسند ہندوئوں کا آفیشل رنگ ہے۔ مارچ میں شریک خواتین کی تعداد گزشتہ برس کی نسبت زیادہ تھی، مردوں کی بھی کافی تعداد موجود تھی۔
آج صبح ایک دوست نے چند ایسے پلے کارڈز کی تصاویربھیجیں جو کم ازکم میڈیا میں شائع ہونے کے قابل نہیں ہیں۔ اگرچہ خواتین مارچ کی شرکا کی خواہش ہوگی کہ یہ تصاویر زیاہ سے زیادہ عام ہوں تاہم تحریک انصاف کی حکومت ایسے مارچ منعقد کرنے کی اجازت تو دے سکتی ہے لیکن مارچ میں استعمال ہونے والے پلے کارڈز کی تصاویر کی میڈیا میں اشاعت برداشت نہیں کرسکتی۔
ایک پلے کارڈ پر لکھاتھا:” ناچ میری بلبل، تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا”
دوسرے پر لکھا تھا:”کھانا گرم کردوں گی، بسترخود گرم کرلو”
تیسرے پر لکھا تھا:”اکیلی،آوارہ،آزاد”، یہ پلے کارڈ اٹھانے والی لڑکی کھلے گلے کے ساتھ منہ چھپائے کھڑی تھی۔
ایک پلے کارڈ پر لکھاتھا:” اگردوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو”
ایک پلے کارڈ پر عورت کے مخصوص حصے کی تصویر بنائی گئی اور ساتھ لکھاتھا : Grow a Pair
ایک پر لکھاتھا: "مجھے کیا معلوم تمھارا موزہ کہاں ہے”
وسرے پرلکھا ہواتھا:”میری شرٹ نہیں، تمھاری سوچ چھوٹی ہے”
ایک لونڈے کے پلے کارڈ پر لکھاہواتھا
"She did not come from my rib,I came from her vagina”
مظاہرے میں جو نعرے لگ رہے تھے، جو پلے کارڈز دکھائے جارہے تھے، اسے دیکھتے ہوئے ایک شخص نے تبصرہ کیا کہ
آج حقوق نسواں کے علمبرداروں نے مارچ میں ماہواری، حجاب نامنظور،میرا جسم میری مرضی، مردوں کو انکار کرو، ہم آزادی چاہتی ہیں اور – Say Yes To Vulgarity جیسے نعرے لگائے حالانکہ محفوظ سفر اور محفوظ ورکنگ ماحول خواتین کی ضرورت ہے۔
کل کے عورت آزادی مارچ میں تحریک انصاف کے رہنما علی ترین ابن جہانگیر ترین بھی شریک تھے، انھوں نے لاہور کے مارچ میں شرکت کی، بی بی سی اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ نے اس مارچ کو نمایاں انداز میں نشر یا شائع کیا۔