وسعت اللہ خان۔۔۔۔۔۔۔
چھ اکتوبر دو ہزار سولہ کو موقر پاکستانی انگریزی اخبار ڈان میں سرل المیڈا کی سٹوری شائع ہوئی۔ جس میں دو اکتوبر کے اس اعلیٰ سطحی اجلاس کی روداد بیان کی گئی تھی جس کی صدارت وزیرِ اعظم نواز شریف نے کی تھی۔ اجلاس میں چند وفاقی وزیر و مشیر، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری، پنجاب کے وزیرِ اعلی شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق سیکرٹری خارجہ نے بریفنگ دی کہ پاکستان تیزی سے سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ اہم دارلحکومتوں میں پاکستان کے موقف کو غیر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی مطالبات ہیں کہ مولانا مسعود اظہر، جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ، حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کئے جائیں۔ چین نے اگرچہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے معاملے میں اقوامِ متحدہ میں ٹیکنیکل ہولڈ لگا رکھا ہے مگر چین اس کے پیچھے کی منطق جاننا چاہتا ہے۔
جیسے ہی یہ رپورٹ شائع ہوئی اسلام آباد کے مقتدر ایوانوں میں سراسمیگی پھیل گئی۔ کس نے اندر کی باتیں لیک کی ہیں اس کا پتہ چلایا جائے؟ ایک ہی دن میں وزیرِ اعظم ہاؤس، وزارتِ اطلاعات اور چیف منسٹر ہاؤس لاہور سے بیک وقت پانچ تردیدیں سامنے آئیں۔ ڈان کی رپورٹ من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔ ایک تحقیقی کمیٹی بنا دی گئی جس میں حساس اداروں کی بھی نمائندگی تھی۔ تین سویلینز یعنی پرنسپل انفارمیشن سیکرٹری راؤ تحسین، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید، مشیر خارجہ طارق فاطمی سے استعفے لے لیے گئے۔ نامہ نگار سرل المیڈا کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی۔
عمران خان نے سٹیج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈان لیکس کی تحقیقی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جائے۔ کون سا ملک ہے جو ایسے لوگوں کو غدار نہیں سمجھے گا۔ یہ بین الاقوامی سازش ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ڈان لیکس نے فوج کے دل میں نواز شریف کے بارے میں مستقل کھٹکا پیدا کر دیا اور ڈان کے گرد بھی سرخ دائرہ لگ گیا۔ اور پھر نواز شریف کو محبِ وطن حلقوں کی آہ لگ گئی۔ صرف نو ماہ بعد مکافاتِ عمل کے تحت عہدے سے ہٹنا پڑا۔ مگر نواز شریف پھر بھی باز نہ آئے اور عام انتخابات سے سوا دو ماہ پہلے بارہ مئی دو ہزار اٹھارہ کو سرل المیڈا کو ایک اور انٹرویو دے کر اپنے سر پر ایک اور سیاسی کلہاڑی مار لی۔
فرمایا کہ ’ہم نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ قربانیوں کے باوجود ہمارا موقف تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ شدت پسند تنظیمیں متحرک ہیں۔ کیا ہمیں نان سٹیٹ ایکٹرز کو اجازت دینی چاہئے کہ وہ سرحد پار کریں اور ممبئی میں ڈیڑھ سو افراد ہلاک کر دیں۔ مجھے بتائیے ہم اب تک مقدمے(بمبئی حملہ) کی کارروائی کیوں مکمل نہ کر سکے۔‘
اس انٹرویو کے بعد طے ہو گیا کہ نواز شریف کو چوتھی بار اقتدار میں آنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ یہ مودی کا یار ہے۔
آئیے کہانی فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ ڈان لیکس کی جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹ کے ڈھائی برس بعد چار مارچ دو ہزار انیس کو وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں جیشِ محمد اور جماعت الدعوۃ سمیت کالعدم تنظیموں کے خلاف نیشنل ایکشن پروگرام کی روشنی میں بلاامتیاز کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان تنظیموں کے دفاتر، فلاحی وسائل اور اثاثے تحویل میں لئے جا رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے تنبیہ کیا ہے کہ ریاست کو انتہا پسندوں کا یرغمال نہیں بننے دیا جا سکتا۔
پانچ مارچ کو وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور سیکرٹری داخلہ اعظم خان نے میڈیا کو جیشِ محمد اور جماعت الدعوۃ سمیت بلاامتیاز کریک ڈاؤن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جن چوالیس لوگوں کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ان میں مولانا مسعود اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر اور بھائی مفتی رؤف بھی شامل ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ان دونوں کے نام اس انڈین ڈوزئیر میں بھی شامل تھے جو پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ مگر یہ کریک ڈاؤن کسی کے دباؤ میں نہیں کیا جا رہا۔
اس موقع پر کچھ سوشل میڈیائی شرپسندوں نے دوبارہ وہ پرانی وڈیو ڈال دی جس میں شہریار آفریدی صاحب جماعت الدعوۃ کے کارکنوں کے ساتھ بیٹھے کہہ رہے ہیں کہ ’جب تک ہم اسمبلی میں ہیں کوئی مائی کا لال حافظ سعید کو تو چھوڑیں جو بھی حق کا ساتھ دے گا ہم اس کا ساتھ دیں گے۔‘
ایک وڈیو شیخ رشید صاحب کی بھی سوشل میڈیا کے جوہڑ میں تیر رہی ہےـ مگر یہ وزیرِ ریلوے بننے سے بہت پہلے کی ہے۔ شیخ صاحب دفاعِ پاکستان کونسل کے سٹیج سے فرما رہے ہیں ’اللہ کے بعد کشمیری حافظ سعید کی طرف دیکھ رہے ہیں کسی خارجہ پالیسی کی طرف نہیں دیکھ رہے۔‘
لیکن صاحب قسمت ہو تو پرویز مشرف جیسی ورنہ نہ ہو۔ ٹیکنیکلی وہ بھی اب سویلین ہیں مگر ان کا ہر بیان سن کے ایسے اڑا دیا جاتا ہے گویا مجذوب کی بڑ ہو۔
جس دن حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا اسی شام معروف ٹی وی اینکر ندیم ملک سے بات کرتے ہوئے آپ نے جیشِ محمد کے خلاف کریک ڈاؤن کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ میرے اوپر دو خود کش حملے انہی نے کئے تھے۔
پرویز مشرف سے سوال ہوا کہ جب آپ اس ملک کے سب سے بااختیار شخص تھے تو آپ نے ان کے خلاف سخت اقدامات کیوں نہیں کئے۔ جس پر پرویز مشرف نے کہا کہ ’اس سوال کا میرے پاس کوئی خاص جواب نہیں۔ وہ زمانے اور تھے جس میں ہمارے انٹیلی جنس والے انوالو تھے۔ ٹٹ فار ٹیٹ ہو رہا تھا۔ وہ پاکستان میں بم دھماکے کروا رہے تھے، ہم ادھر کروا رہے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کوئی خاص کارروائی نہیں کی تو میں نے بھی اصرار نہیں کیا۔‘
اگلے روز پرویز مشرف کے انٹرویو کا یہ حصہ اگر کسی نے نمایاں طور پر شائع کیا تو وہ کوئی پاکستانی اخبار نہیں بلکہ ہندوستان ٹائمز تھا۔
اس سے قبل اٹھائیس نومبر دو ہزار سترہ کو اے آر وائی کے وسیم بادامی کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز مشرف نے فرمایا ’میں لبرل اور اعتدال پسند ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تمام مذہبی لوگوں کے خلاف ہوں۔ لشکرِ طیبہ کا سب سے بڑا سپورٹر تو میں ہوں ۔مجھے معلوم ہے کہ لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ والے بھی مجھے پسند کرتے ہیں۔ میں حافظ سعید سے ملا ہوں۔ میں ہمیشہ کشمیر میں ایکشن کے حق میں رہا ہوں۔ کشمیر میں انڈین آرمی کو ہم نے دبانا ہے۔ انھیں دہشت گرد امریکہ اور انڈیا نے مل کر قرار دلوایا ہے۔‘
وسیم بادامی نے پوچھا تو پھر آپ نے بارہ جنوری دو ہزار دو کو لشکرِ طیبہ پر پابندی کیوں لگائی؟ فرمایا کہ ’اس وقت صورتِ حال اور تھی۔ میرا ویژن یہ تھا کہ کیونکہ وہ (انڈیا) امن کے لئے میرے چار نکاتی ایجنڈے کے کی طرف چل رہے ہیں لہذا مجاہدین کو کم کیا جائے اور سیاست کو بڑھایا جائے۔ اور فرینکلی اس وقت میں انھیں (لشکرِ طیبہ) کو اتنا زیادہ جانتا بھی نہیں تھا۔‘
اس انٹرویو کو بھی انڈین میڈیا نے مزے لے لے کر چھاپا۔ سیانے کہتے ہیں کہ قسمت اچھی ہو تو اونٹ سوئی کے ناکے سے بھی گذر جاتا ہے، خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ باقی آپ سمجھ دار ہیں۔