امریکی اخبار نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خطرات اس وقت تک موجود رہیں گےجب تک دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کرتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلواما میں حملے کے بعد دونوں ایٹمی طاقت کے حامل ہمسایہ ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی میں کمی آئی ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں تک ایک اور خطرناک کشیدگی کے خطرات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ‘مسئلے کے ساتھ مذہبی اور قومی پہلو جڑے ہوئے ہیں جس کا حل بھارت، پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے درمیان مذاکرات سے ہونا چاہیے، یہ ایک طویل عمل ہے جس کے لیے مرکزی فریقین نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی لیکن یہ حقیقت کے سوا کچھ نہیں ہے’۔
پاک-بھارت حالیہ کشیدگی کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کوامن کی خاطر خیر سگالی کے طور پر گرفتاری کے دو روز بعد ہی رہا نہیں کیا جاتا تو تنازع قابو سے باہر ہوسکتا تھا۔
یاد رہے کہ14 فروری کو بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقے پلواما میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی بس پر حملے میں 44 پیراملٹری اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اور بھارت کی جانب سے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا گیا تھا جبکہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
بھارت نے 26 فروری کو دعویٰ کیا تھا کہ اس کی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کی حدود میں در اندازی کرتے ہوئے دہشت گردوں کا مبینہ کیمپ کو تباہ کردیا ہے حالانکہ تباہی کے کوئی آثار نہیں ملے تھے۔
اگلے روز 27 فروری کو بھارتی فضائیہ نے کنٹرول لائن (ایل او سی) میں ایک مرتبہ پھر دراندازی کی کوشش کی تو پاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے دو بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور ایک پائلٹ کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔
گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں کہا تھا یہ فیصلہ خطے میں امن کی خاطر خیر سگالی کے طور کیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ‘وزیراعظم عمران خان نے پائلٹ کو بھارت واپس بھیج دیا جس کو خیرسگالی کے جذبے کے طور پر دیکھا گیا اور انہوں نے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہوئے حملے کی تحقیقات کا وعدہ کیا، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے موقع کو مزید جارحیت کے لیے استعمال کیا’۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ کو خیرسگالی کے طور پر واپس بھیجنے کے بعد بھی بھارتی جارحیت کا سلسلہ جاری رہا اور ایل او سی کے اطراف میں آزاد کشمیمر کے مختلف سیکٹرز کونشانہ بنایا گیا جہاں دو پاکستانی فوجیوں سمیت عام شہری بھی شہید ہوئے۔
بھارتی بحریہ نے 5 مارچ کو پاکستانی حدود میں داخلے کی کوشش کی تھی جس کو پاک بحریہ نے ناکام بنا دیا تھا۔
ترجمان پاک بحریہ کے جاری بیان میں بتایا گیا کہ بھارت کو فضائی محاذ کے بعد سمندری محاذ پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاک بحریہ نے گزشتہ روز اپنے سمندری زون میں موجود بھارتی آبدوز کا سراغ لگایا اور پاکستان کی سمندری حدود میں اس کے داخلے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ نے اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارتوں کے ساتھ ہر دم چوکنا رہتے ہوئے کامیابی سے بھارتی آبدوز کا سراغ لگا کر اُسے پاکستان کے پانیوں میں داخل ہونے سے روک دیا۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں کہا ہے کہ ‘دونوں ممالک خطرناک سرحد پر ہیں جہاں بھارت، پاکستان پر حملہ کرتا ہے اور دونوں ممالک فضائی طور پر بھی آمنے سامنے آتے ہیں، اگلی کشیدگی یا اس کے بعد مزید کچھ ناقابل تصور ہوسکتا ہے’۔
خیال رہے کہ پاک-بھارت کشیدگی پر چین اور امریکا سمیت عالمی طاقتوں نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تجویز دی تھی اور خطے میں سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔