سوال: کیا آپ لکھنے کے لیے کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں؟
ایشی گرو: میری دو میزیں ہیں۔ ایک لکھنے کا تختہ ہے اور دوسرے پر کمپیوٹر۔ یہ انیس سو چھیانوے کا کمپیوٹر ہے اور اس کے ساتھ انٹرنیٹ نہیں لگا ہوا۔ میں ابتدائی مسودوں پر قلم سے کام کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے علاوہ کسی کے لیے قابل فہم نہ ہوں۔ رف مسودہ ایک بےترتیبی کا شاہکار ہوتا ہے۔ میں اسلوب یا ربط کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ بس سب کچھ کاغذ پر اتارنا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے اچانک کوئی خیال سوجھے جو پچھلے کے ساتھ لگا نہ بھی کھاتا ہو تو بھی اسے فورآ لکھ لیتا ہوں۔
میں بعد میں ایک نوٹ بنا کر اس سب کو ترتیب دیتا ہوں۔ پھر اس میں سے پوری چیز کا منصوبہ بناتا ہوں۔ میں ابواب کے نمبر لگاتا ہوں اور انہیں آگے پیچھے کرتا ہوں۔ جب تک دوسرا ڈرافٹ لکھتا ہوں تب تک یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ اس کے بعد زیادہ احتیاط سے لکھتا ہوں۔
سوال: کتنے ڈرافٹ لکھتے ہیں؟
ایشی گرو: میں تیسرے ڈرافٹ سے آگے نہیں جاتا۔ اس کے باوجود کچھ حصے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو بار بار لکھنے پڑتے ہیں۔
سوال: آپ اپنے عنوانات کیسے منتخب کرتے ہیں؟
ایشی گرو: یہ ایک طرح سے بچے کا نام رکھنے جیسا معاملہ ہے۔ کئی بحثیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ میری ایجاد نہیں ہوتے۔ مثلآ ‘دن کی باقیات‘ (The Remains of the Day)۔ میں آسٹریلیا میں ایک مصنفین کے میلے میں ایک ساحل سمندر پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہم میرے آمدہ ناول کے عنوان کی تلاش کا ایک نیم سنجیدہ کھیل کھیل رہے تھے۔ مچل نے کہا A Juicy Tale۔ میں نے کہا یہ ایک بٹلر کے بارے میں ہے۔ پھر جوڈی نے فرائیڈ کا ایک جملہ سنایا جو وہ اپنے خوابوں کے حوالے سے کہا کرتا تھا “دن کا ملبہ“۔ جب اُس نے اس کا سر کے اوپر سے ترجمہ کیا تو یہ کچھ اس طرح تھا ‘دن کی باقیات‘ The Remains of the Day ۔ یہ مجھے پسند آیا۔
(ایشی گرو جاپان کے شہر ناگا ساکی میں پیدا ہوئے۔ جب پانچ برس کے ہوئے تو ان کا خاندان جنوبی برطانیہ منتقل ہو گیا۔ ایشی گرو کو سن بیس سو سترہ میں نوبل پرائز ملا)۔