افغانستان کے صوبے ہلمند میں افغان فوج کے کیمپ پر طالبان کے حملے میں 23 فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
صوبائی گورنر کے ترجمان عمر زواک نے کہا کہ جمعے کو شروع ہونے والے اس حملے میں کم از کم 20 فوجی اہلکار زخمی بھی ہوئے جہاں ضلع ویہسر میں ہفتے کو ختم ہونے والی یہ لڑائی تقریباً 40 گھنٹے تک جاری رہی۔
ترجمان نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب شوراب کیمپ میں ایک خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا، اس کے بعد مزید تین خود کش بمباروں نے خود کو اڑایا جس کے ساتھ ہی مسلح افراد نے دھاوا بول دیا۔
عمر زواک نے ہلاک افغان فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حملے میں 22 طالبان شدت پسند بھی مارے گئے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق صوبائی حکومت کے ایک آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے میں کم از کم 40اہلکار مارے گئے ہیں۔
زواک نے کہا کہ حملے میں دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فوجی گاڑیوں اور دفاتر کو نقصان پہنچا۔
طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمد نے اپنے بیان میں حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ کیمپ پر طالبان کے حملے میں افغان فورسز کے ساتھ ساتھ غیرملکی افواج کے نمائندے بھی بڑی تعداد میں مارے گئے۔
صوبائی گورنر کے ترجمان نے بتایا کہ اس فوجی اڈے پر امریکی مشیر بھی موجود تھے لیکن وہ ایک دوسرے حصے میں تھے جس کی وجہ سے محفوظ رہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ فوجی اڈے پر غیرملکی فوجی بھی موجود تھے لیکن طالبان کمپاؤنڈ کے اس حصے تک نہیں پہنچ سکے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب قطر میں امریکی نمائندے اور طالبان امن عمل کیے لیے جاری مذاکرات کے سلسلے میں ملاقات کر رہے ہیں۔
حالیہ عرصے میں جہاں مذاکراتی عمل میں تیزی آئی ہے وہیں طالبان اور داعش کی جانب سے افغانستان میں حملوں کا سلسلہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے جن میں عموماً فوجی اڈوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
صوبہ ہلمند کے اکثر اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے جو دنیا میں غیرقانونی افیم کی غیرقانونی ترسیل کا سب سے بڑا مرکز ہے.
دوسری جانب شمالی صوبے ساری پل میں طالبان نے ہفتے کو افغان سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 9اہلکار مارے گئے۔
صوبائی گورنر کے ترجمان زبیح اللہ امانی نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملے میں 12 افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ چار افراد لاپتہ ہیں جن کے بارے میں مانا جا رہا ہے کہ انہیں طالبان زندہ اپنے ہمراہ کے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حملے کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے جسے اس وقت انجام دیا گیا جب سیکیورٹی فورسز ایک آپریشن سے واپس لوٹ رہی تھیں۔