جب میں نے پہلی مرتبہ خبر سنی تو مجھے لگا کہ یہ اسرائیل کا غزہ پر حملہ ہوگا، ’عسکریت پسندوں کے کیمپ‘ پر فضائی حملہ سب سے پہلے الفاظ تھے، ہمیں بتایا گیا کہ ایک ’کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر‘ تباہ، کئی ’جگنجو‘ ہلاک ہوگئے، فوج اپنے اہلکاروں پر حملے کا بدلہ لے رہی ہے۔
ایک ’عسکری تربیتی کیمپ‘ کا بیس ختم کردیا گیا ہے، پھر میں نے سنا کہ یہ بالاکوٹ میں ہے اور مجھے احساس ہوا کہ یہ غزہ نہیں اور نہ ہی شام ہے اور نہ ہی لبنان بلکہ پاکستان ہے، حیرت انگیز بات ہے کہ کوئی اسرائیل اور بھارت کو کیسے ملا سکتا ہے۔
خیر اس بات کو ابھی بھولیے گا نہیں، تل ابیب میں قائم اسرائیلی وزارت دفاع اور نئی دہلی میں بھارتی وزارت دفاع میں فاصلہ 2 ہزار 500 میل کا ہے لیکن ایک وجہ ہے کہ یہ دونوں ادارے ایک جیسے لگتے ہیں۔
کئی مہینوں سے اسرائیل، بھارت کی قوم پرست بی جے پی کی حکومت سے سیاسی طور پر خطرناک اسلام مخالف اتحاد قائم کر رہا ہے جو غیر سرکاری، غیر اعتراف شدہ اتحاد ہے اور بھارت اسرائیل کے اسلحہ کی تجارت کے لیے سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔
اس لیے اس بات سے اتفاق نہیں کہ بھارتی میڈیا نے یہ حقیقت ظاہر کی کہ بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستان میں جیش محمد پر استعمال ہونے والا ’اسمارٹ بم‘ اسرائیلی ساختہ رافائیل اسپائس 2000 ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ اسرائیل ساختہ اور اسرائیل کے فراہم کردہ جی پی ایس کی رہنمائی سے چلنے والے بم سے ’300 سے 400 دہشت گردوں‘ کے مرنے کی بات شاید پتھروں اور درختوں کے ضائع ہونے کی شکل میں سامنے آجائے تاہم بھارتی فوجیوں پر بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں 14 فروری کو ہونے والا حملہ غیر حقیقی نہیں تھا جس کا دعویٰ جیش محمد نے کیا تھا اور اس میں 40 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بھارتی طیارے کا گرایا جانا بھی جھوٹ نہیں۔
2017 میں بھارت اسرائیل کا سب سے بڑا اسلحہ کا خریدار رہا اور اس نے اسرائیلی ایئر ڈیفنس، ریڈار سسٹم اور فضا سے زمین پر حملہ کرنے والے میزائل سمیت اسلحہ کے عوض 53 کروڑ یورو ادا کیے تھے۔ ان تمام میزائل کی ٹیسٹنگ اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطین اور شام پر کی جاچکی تھی۔
اسرائیل خود سے وضاحت دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنا ٹینک، اسلحہ اور پانی کے جہاز میانمار کے آمروں کو کیوں فروخت کر رہا ہے جبکہ مغربی ممالک نے اس حکومت پر پابندی لگا رکھی ہے کیونکہ یہ اپنی اقلیت کا خاتمہ کر رہی ہے اور وہاں بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کا خاتمہ سامنے آیا ہے لیکن اسرائیل کی بھارت کے ساتھ اسلحے کی تجارت قانونی ہے، جو جاری ہے اور دونوں اطراف سے اس کی تشہیر بھی کی جارہی ہے۔
اسرائیل اپنے خصوصی کمانڈو یونٹس اور بھارت کی جانب سے ٹریننگ کے لیے بھیجے گئے اہلکاروں کی صحراؤں میں مشترکہ مشقوں کی فلم بھی بنا چکا ہے۔
45 بھارتی فوجیوں کے وفد میں سے کم از کم 16 بھارتی ’گرود‘ کمانڈوز کچھ وقت کے لیے اسرائیل میں نیواتم اور پلماچھم ایئر بیس میں تھے۔ بھارتی قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد گزشتہ سال اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے بھارت کے اپنے پہلے دورے میں 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملے کو یاد دلایا جس میں 170 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے نریندر مودی سے کہا کہ ’ہمیں ممبئی میں ہونے والا ہولناک حملہ یاد ہے، ہم تحمل سے ہیں، ہم واپس لڑتے ہیں، ہم ہار نہیں مانتے‘۔ یہ بی جے پی کا بیانیہ بھی تھا۔
تاہم مختلف بھارتی اینکرز نے خبردار کیا ہے کہ دائیں بازو کی صہیونیت اور دائیں بازو کے مودی کی سربراہی میں قوم پرست کو دونوں ممالک میں تعلقات قائم کرنے کی بنیاد نہیں رکھنی چاہیے، دونوں مختلف انداز میں برطانوی راج کے خلاف لڑچکے ہیں۔
برسلز کی محقق شیری ملہوترا، جن کا کام اسرائیلی اخبار ’ہیرٹز‘ میں بھی سامنے آچکا ہے، نے نشاندہی کی کہ بھارت انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا کی تیسری بڑی مسلمانوں کی آبادی رکھتا ہے جس میں 18 کروڑ مسلمان ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال لکھا تھا کہ ’بھارت اور اسرائیل کے تعلقات بی جے پی اور لیکوڈ پارٹیز کے ہم خیال ہونے کی بنا پر ہمدردی کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں‘۔
ہندو قوم پرست نے ایک بیانیہ تیار کیا ہے کہ ’ماضی میں ہندو مسلمانوں کا نشانہ بنے‘، یہ ایک متاثر کن خیال ہے ان ہندوؤں کے لیے جو تقسیم کو یاد کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی چاہتے ہیں۔
بلکہ ملہوترا نے ہیرٹز میں نشاندہی کی کہ ’بھارت میں اسرائیل کے سب سے بڑے مداح ’انٹرنیٹ ہندوز‘ ہیں جو اندر سے اسرائیل کا فلسطین کے ساتھ رویہ رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر خوش ہوتے ہیں۔
ملہوترا نے کارلیٹن یونیورسٹی کے پروفیسر وویک دیہیجیا کا بھارت، اسرائیل اور امریکا کے ’3 طرفہ‘ اتحاد کے مطالبے کی مذمت کی، کیونکہ یہ تمام ممالک ’مذہبی دہشت گردی‘ سے متاثر ہوچکے ہیں۔
2016 میں بھارت سے صرف 23 افراد عرب دنیا میں داعش کے خلاف لڑنے کے لیے گئے جبکہ بیلجیئم، جس کی آبادی 5 لاکھ مسلمانوں پر ہے نے 500 جنگجو پیدا کیے ہیں۔
ملہوترا نے مؤقف اپنایا کہ بھارت-اسرائیل تعلقات نظریاتی کے بجائے حقیقت پسندانہ ہونے چاہیئں۔
تاہم ایسی صورتحال میں جب اسرائیل بھارت کو بہت زیادہ اسلحہ فراہم کر رہا ہے، یہ دیکھنا مشکل ہے کہ کس طرح صہیونی قوم پرست ہندو قوم پرست کی رہنمائی کر رہے ہیں جن کا ثبوت حال ہی میں پاکستان میں ’مذہبی دہشت گردوں‘ کے خلاف استعمال ہونے والے یہ بم ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت نے اسرائیل سے 1992 سے سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ بالخصوص ’مذہبی دہشت گردوں‘ کے خلاف ان 2 ریاستوں کا حصہ لینا بڑی بات نہیں کیونکہ دونوں ملک نو آبادیاتی تقسیم کا شکار تھے جن کی سیکیورٹی کو پڑوسیوں سے خطرہ تھا۔
دونوں کیسز میں ان کی جدو جہد ملکیت حاصل کرنا یا زمین پر قبضہ کرنا تھی، اسرائیل، بھارت اور پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ یہ ایک اور اہم وجہ ہے فلسطین اور کشمیر کو آپس میں الجھنے نہ دینے کی اور بھارت کے 18 کروڑ مسلمانوں کو تنہا چھوڑنے کی۔
(بشکریہ: دی انڈیپنڈنٹ)