خنّاس

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابومحمد مصعب۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا جی ایک بات پوچھوں؟
پوچھو!
جب مجھے اپنی مرضی سے مذہب اخیتار کرنے کا اختیار ہی نہیں دیا گیا تھا تو پھر کیوں مجھے زبردستی نماز پڑھنے کو کہا جاتا ہے؟

بیٹا جی! مانو نہ مانو، مذہب تو تم نے قبول کر لیا ہے۔
بابا جی! وہ کیسے؟
وہ ایسے کہ تم مسلمان گھر میں پیدا ہوائے، تم نے اپنے ماں باپ کو اسلام پر عمل کرتے دیکھا، انہیں نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور اللہ رسولﷺ کا نام لیتے دیکھا اور دل میں اس کام کو اچھا بھی جانا، لیکن پھر تم کچھ ایسے دوستوں کی صحبت میں آ گئے یا ایسی کتابیں پڑھ ڈالیں جن کو پڑھنے کے بعد تمہارے ذہن میں وہ سوال اُبھرا جو پہلے کبھی نہیں تھا اور آج وہی سوال تم مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ تم نہ صرف پیدائشی، بلکہ بائی ڈیفالٹ قدرتی، مسلم ہی ہو۔

بابا جی! یہ ’’پیدائشی مسلمان‘‘ والی بات تو ٹھیک ہے، لیکن ’’قدرتی مسلمان‘‘ اور ’’بائی ڈیفالٹ مسلمان‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟

“قدرتی مسلمان سے میری مراد یہ ہے کہ انسان فطرتاََ مسلمان ہی پیدا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک سکھ یہودی اور عیسائی کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ بھی شروع میں ’’مسلم‘‘ ہی ہوتا ہے۔ پھر، اپنے ماں باپ اور ماحول کو دیکھ کر وہ ویسا ہی بن جاتا ہے”۔

“بلکہ، بیٹا، تم یہ جان کر حیران رہ جاؤ گے کہ کائنات کے اندر ہر چیز ہی مسلمان ہے، سوائے انسان اور جنّوں کے۔۔۔ جنہیں اللہ نے اختیار دیا ہے کہ چاہیں تو شکر کریں، چاہیں تو کفر کریں، لیکن یہ اختیار عارضی ہے اور موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے”۔

“بابا جی، کائنات کی ہر چیز مسلم؟ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی!”

“بیٹا جی! بات اس لیے سمجھ میں نہیں آئی کہ تم ’’مسلم‘‘ کے معنی نہیں جانتے۔ معنی جان لو گے تو بات بھی سمجھ جاؤ گے۔ تم مسلم اسے سمجھتے ہو جسے کے ڈاڑھی ہو، نماز پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو، حج کرتا ہو، وغیرہ وغیرہ”۔

“دیکھو بیٹا! لفظ ’’مسلم‘‘ کے معنی ہیں: جس نے سرِتسلیم خم کر لیا ، جو مان کر جھک گیا ، جس نے اپنے آپ کو ’’سپرد‘‘ اور ’’حوالے‘‘ کردیا۔ اس تشریح کے لحاظ سے، مسلم اس شخص کو کہتے ہیں جس نے اپنا آپ اللہ کے حوالے کر دیا ہو، اپنی انا کو مار کر، اپنی گردن مالک کے سامنے جھکا دی ہو، اپنا لگام اپنے مالک کے حوالے کردیا ہو، جس طرح گھوڑا اپنا لگام اپنے مالک کے سپرد کردیتا ہے پھراس کا ہر ہر قدم مالک کے اشارے اور حکم کے مطابق اٹھتا ہے۔ جس طرف چلنے کو کہتا ہے چلتا ہے، جہاں روک دیتا ہے، رک جاتا ہے”۔

“بیٹا، اگر تم ذرا تدبر کرو اور اس کائنات کی تخلیق اور اس کی موجودات پرغور و فکر والی نگاہ ڈالو تو تم دیکھو گے کہ ہر ہر چیز نے اپنے آپ کو اللہ، اپنے مالکِ حقیقی کے سپرد کیا ہوا ہے اور اسی کے حکم کے مطابق کام کر رہی ہے۔ خدا کے منکر اس کو ’’فطرت‘‘ یا ’’نیچر‘‘ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں لیکن دراصل یہ ان کا دھوکہ کھانے اور دھوکہ دینے کا ایک انداز ہے۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں ’’مسلم‘‘ ہی ہیں۔ اپنے مالک کے تابع فرمان”۔

“بابا جی!، آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں اگر پوچھوں کہ سورج کس طرح ’’مسلمان‘‘ ہے تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گے؟”

“نہیں بیٹا! اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے؟ مجھے تو خوشی ہو رہی ہے کہ تم انے اپنے ذہن کی الجھن میرے سامنے رکھی ہے”۔

“دیکھو بیٹا،سورج، چاند، ستارے، زمین، ہوا پانی، دریا سمندر، درخت، پہاڑ ، چرند پرند سب مسلم ہیں کیوں کہ بنانے والے کے بنائے ہوئے قانون اور قاعدے کے مطابق کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جب تک انہیں ایسا کرنے کا حکم ہے۔ سورج کبھی تاخیر سے نہیں نکلا، چاند کبھی چھٹی پر نہیں گیا، ہوا میں آکسیجن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربان وغیرہ کا جو تناسب مقرر کر دیا گیا ہے وہی چل رہا ہے۔ پانی نے اوپر سے نیچے کی طرف ہی بہنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ اللہ نے کائنات کی تمام چیزوں کو جو جو حکم دے دیا ہے،جس جس طرح کام کرنے کا طریقہ مقرر فرما دیا ہے، وہ اسی طرح کام کر رہی ہے۔ اسی کو تو اطاعت و فرمانبرداری کہتےہیں۔ اسی چیز کو تو تسلیم کرنا کہتے ہیں اور جو تسلم کر لے اس کو مسلم کہتے ہیں۔ یوں کائنات کی ہر ہر چیز مسلم ہی ہے”۔

“بیٹا! ایک دلچسپ بات سنو، کافر چاہے دل سے رب کو نہ مانے لیکن اس کا جسم بھی مسلمان ہی ہوتا ہے۔ اس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کے ہاتھ، اس کے پاؤں، اس کا دل، اس کے پھیپھڑے، سب مسلم ہی ہوتے ہیں، بس اس کا ذہن مسلم نہیں ہوتا جسے اس نے خود ہی کافربنا دیا ہوتا ہے۔ مالک نے آنکھ کا کام دیکھنا رکھا ہے، کافر اس سے سن نہیں سکتا، کانوں کا کام سننا رکھا ہے، وہ ان سے دیکھ نہیں سکتا، زبان کا کام بولنا مقرر کیا ہے، وہ اس سے سونگھ نہیں سکتا، ناک کا کام سونگھنا طے کیا ہے، وہ اس سے بول نہیں سکتا۔ وغیرہ وغیرہ۔ مطلب کہ کافر کے جسم کا ایک ایک پرزہ بھی مسلم ہی ہوتا ہے۔ کافر اسے اس لیے کہتے ہیں کہ ان پرزوں کو وہ اصل مالک کی مرضی اور منشا کے بغیر استعمال کرتا ہے”۔

“لیکن بابا جی، میرا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ میں کیوں ان قوانین کی پابندی کروں جن کو میں نے قبول ہی نہیں کیا ہے؟”

“بیٹا جی، اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے اور میں تمہیں ایک مثال سے اس کا جواب دیتا ہوں”:

“فرض کرو کہ تم کسی ملک کے جدّی پشتی رہائشی ہو ، وہیں پلے بڑھےہو، تم سے نہیں کہا جائے گا کہ تم نیشنلٹی کے لیے اپلائی کرو یا جا کر حلف اُٹھاؤ۔ لیکن اگر تم باہر سے وہاں جاؤ گے تو تمہیں کہا جائے گا کہ تم حلف اٹھاؤ۔ وہاں کے اصل و پیدائشی اور رہائشی کے حیثیت سے تم پر خودبخود لازم ہوگا کہ تم وہاں کے آئین اور قانون کی پابندی کرو اور ریاست کے ساتھ وفادار رہو، اس کے لیے حلف کی ضرورت نہیں ہے لیکن باہر سے جا کر سٹیزن شپ اختیار کرنے والوں سے ان باتوں کا عہد لیا جائے گا کہ وہ ریاست کے ساتھ وفادار رہیں گے، وہاں کے آئین اور قانون کی پاسداری کریں گے”۔

“ایک بار سٹیزن شپ لینے کے بعد دونوں کی حیثیت برابر ہو جاتی ہے۔ اب دونوں کو ریاست کا وفادار رہنا ہے، دونوں کو قانون کی پابندی کرنی ہے اور روگردانی کے نتیجہ میں دونوں کو سزا بھی ایک جیسی ہی ملے گی”۔

“بیٹا جی! اب چلتا ہوں، بس تم ذرا ٹھنڈے دل سے ان باتوں پر غور کرو، بات اتنی مشکل بھی نہیں جتنی تم سمجھ رہے تھے”۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں