محمد عثمان جامعی
پولیس میں من مانی تبدیلیوں کا تو ہمیشہ سے سُنتے آئے ہیں مگر یہ خبر نہ تھی کہ من مانی مَنوں کے حساب سے بڑھ چکی ہے اور اب سپاہیوں سے بچوں کے ڈائپر بھی تبدیل کروائے جارہے ہیں!
’’ایکسپریس‘‘ کراچی میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق سندھ پولیس کے ایک ایس پی صاحب کے بنگلے پر تعینات کانسٹیبل نے ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ کے نام درخواست تحریر کی ہے جس میں بتایا گیا ہے وہ سیکیورٹی زون میں تعینات تھا، یہاں سے اس کا تبادلہ بدین بھیجے جانے والے ایس پی کے ساتھ بطور اردلی کردیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ بنگلے پر تعیناتی کے دوران ایس پی کی اہلیہ نے انتہائی درشت رویہ اپنایا ہوا ہے اور وہ دیگر گھریلو کام کاج کے علاوہ بچوں کے ڈائپر تک تبدیل کرواتی ہیں۔
اس سلسلے میں جب صدائے احتجاج بلند کی تو بیگم صاحبہ نے کوارٹر گارڈ کروادیا جب کہ ایک مرتبہ بہ طور سزا ڈنڈ بھی لگوائے، جس کی ویڈیو بناکر انھوں نے اپنے احباب کو بھیجی۔ اس نے الزام لگایا کہ دیگر پولیس اہل کاروں کے ساتھ بھی بیگم صاحبہ کا یہی رویہ ہے۔
ویسے تو ہم جنتا کو اس معاملے میں بولنے کا حق نہیں کیوں کہ یہ محکمۂ پولیس کا اندرونی ’’پولیس مقابلہ‘‘ ہے، مگر کیا کریں ہمیں اپنی پولیس سے پیار بہت ہے، اس لیے پولیس والوں کے معاملات سے خود کو لاتعلق بھی نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے خیال میں اس شاکی سپاہی نے بیگم صاحبہ کی نیت سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ بچوں کے ڈائپر تبدیل کرواکر دراصل وہ پولیس اہل کاروں کو معاشرے کی گند صاف کرنے کی تربیت دے رہی ہیں۔ ساتھ یہ بھی سکھا رہی ہیں کہ جس طرح گندا ڈائپر اتار کر صاف ڈائپر پہنا دیا جاتا ہے، اسی طرح ایک سمجھ دار پولیس والا تفتیش کے دوران مختلف حربوں سے کسی بھی دہشت گرد، ڈاکو اور قاتل کا گندا ڈائپر یوں تبدیل کرتا ہے کہ وہ صاف ستھرا ہوکر عدالت کے کٹہرے اور سزا سے صاف بچ نکلتا ہے۔
ظاہر ہے پولیس کوئی پیار کرنے والی پھپھو یا خالہ تو ہے نہیں کہ مفت میں ڈائپر تبدیل کردے، وہ تو پیشہ ور آیا کی طرح اس کام کی وصولی کرتی ہے۔ البتہ جب معاملہ پیٹی بند بھائیوں کا ہو تو غلاظت میں لتھڑے ڈائپر بدلنے کی خدمت بلامعاوضہ انجام دی جاتی ہے، کیوں کہ ’’یہی تو ہے وہ اپناپن۔‘‘ ڈائپر کی تبدیلیوں کا یہ عمل ہم سانحۂ ساہیوال اور راؤ انوار کے کیس میں دیکھ سکتے ہیں۔
ایک زمانے میں محکمۂ پولیس کا یہ نغمہ ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوا کرتا تھا، ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔‘‘ ممکن ہے ایس پی صاحب کی اہلیہ نے یہ نغمہ سُن کر فرض کرلیا ہو کہ ان کی ہر غرض پوری کرنا بھی پولیس کے فرائض میں شامل ہے۔ وہ تو پولیس والوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ملک کے عام شہریوں کو یہ نغمہ سُن کر ہنسی تو آئی یقین نہیں آیا، اور محکمے نے خود شرمندہ ہوکر یہ نغمہ چلانا چھوڑ دیا، ورنہ کسی کی بھی بیگم پولیس والوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہوئے پُکار لیتی،’’اے بھیا! مُنا رو رہا ہے، ذرا چُپ تو کرادو، جیسے گواہوں کو چُپ کرادیتے ہو۔‘‘
کبھی موبائل میں آرام کرتے پولیس اہل کاروں کے پاس آکر خاتون ان کی طرف سو کا نوٹ بڑھاتیں، جو وہ حسب عادت فوراً پکڑ لیتے، پھر خاتون کہتیں،’’بھائی! جلدی سے ایک کلو، پاؤ ٹماٹر، اور دھنیا پودینہ لے آؤ۔‘‘ کسی تھانے میں کوئی خاتون گود میں بچہ لیے وارد ہوتیں اور بچے کو ایس ایچ او کی گود میں ڈال کر کہتیں ’’ماموں پاچھ بیتھو، تنگ نہیں کرنا ماموں کو‘‘ پھر ہَکّابکّا ایس ایچ او کی طرف دیکھ کر فرماتیں’’بس دو تین گھنٹے اپنا فرض نبھائیے، میں شاپنگ کرکے آتی ہوں۔ اور ہاں، اسے بھوک لگے تو یہ فیڈر ہے، دودھ پلادیجیے گا۔‘‘
’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ کا نغمہ تو اب ماضی ہوا، البتہ کچھ عرصہ قبل محکمۂ پولیس کا ایک اشتہار لوگوں کو بتاتا تھا،’’پولیس کی وردی میں بھی انسان ہوتا ہے‘‘، ضروری ہے کہ اس حقیقت سے پولیس افسران اور ان کی بیگمات کو بھی آگاہ کردیا جائے، ورنہ سندھ کی پوری پولیس فورس کے ہاتھوں میں ڈائپر اور وائپر ہوں گے، اور عوام مزید اپنے حال پر چھوڑ دیے جائیں گے۔