مکان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔
رشید کی پیدائش پہ اماں جان کی بازی ہار گئی اور قیامت ٹوٹی تو رشید کی نانی اور دادی پر، جو آپس میں بہنیں بھی تھیں۔ اس سے بڑا حمید اور پھر مجید تین بچوں کو سنبھالنا معمولی کام نہ تھا لیکن پھر بھی تینوں بھائی نانی،دادی کے شفقت بھرے سائے تلے پرورش پانے لگے۔ ابا معمولی سا ٹھیکیدارتھا،آسانی سے گزر بسر ہورہی تھی۔

رشید چند ماہ کا تھا کہ اسے چیچک نے آن دبوچا۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے معصوم رشید کی صورت بگڑکے رہ گی۔ کچھ کسر گہرے رنگ نے پوری کردی، بچے جوان اور نانی، دادی بہت ضعیف ہوگئیں۔ پھرایک دن نانی نے بھی ساتھ چھوڑدیا، گزرتے وقت نے ٹھیکیدار کے بیٹے تو جوان کردیے لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کی۔ ایک رات ایسا سویا کہ پھر اسے کوئی جگا نہ سکا۔

پھردادی کو محسوس ہوا کہ اب لڑکوں کا گھر بسادینا چاہیے،یوں آنے والے دنوں میں گھر میں دو بہوئیں آ گئیں۔ دادی کو اب دن رات رشید کی فکرستارہی تھی جس کی بدصورتی کے سبب کوئی اسے رشتہ دینے کو تیار نہ تھا۔ بھابیوں نے بھی اپنے طور پر کافی کوشش کی لیکن کہیں بھی بات نہ بن سکی اسی فکر میں دادی بھی پریشان رہتی اور رات دن رشید کا گھر آباد ہونے کی دعائیں مانگتی۔ بھائیوں کی بھی کوشش تھی، وہ بھی سوچتے کہ لوگ ایسا نہ کہیں کہ بھائی کا گھر نہیں بسارہے ہیں۔

بیوی کی زندگی ہی میں ٹھیکیدار نے دس، دس مرلے کے تین پلاٹ لے رکھے تھے۔ ایک پلاٹ پر تعمیر مکمل کرکے وہ خود رہ رہے تھے، باقی دو ابھی تک خالی پڑے ہوئے تھے۔ کافی بھاگ دوڑ کا نتیجہ نکلا کہ ایک لڑکی والے مالی امداد کے عوض رشتہ دینے کو تیار ہوگئے۔ حمید اور مجید نے غنیمت جانا اور ایک ہفتے کے اندر صفیہ رشید کی دلہن بن گئی۔

دلہن کے گھر میں آنے سے جیسے سارا گھر چاندنی میں نہا گیا۔ ہرکوئی حیران ہورہا تھا، اتنی خوبصورت دلہَن!!! کہ رشید کی قسمت پہ اہل محلہ اور رشتےدار حیران ہوئے جارہے تھے ۔ گلابی رنگت اور سنہری آنکھوں والی، جیسے کوئی پری اُتر آئے بھولے سے زمیں پہ۔

جب رشید نے گھونگٹ الٹایا توجیسے دل دھڑکنا ہی بھول گیاہو۔ ایک نظر رضیہ نے رشید کو دیکھا اور بولی:”مجھے ہاتھ نہیں لگانا، مجھے واپس چھوڑ کے آؤ ، میں تمھارے پاس نہیں رہ سکتی۔ وہ رونے لگی۔ رشید بھی سمجھ گیا کہ اسے میری صورت پسند نہیں آئی۔

رشید شریف آدمی تھا، خاموشی سے تکیہ پکڑا اور پاس پڑے صوفے پہ سویا یا جاگا لیکن پھر رضیہ نے اس شرط پر واپس جانے کا مطالبہ نہیں کیا کہ مجھے ہاتھ نہیں لگاؤ گے۔ رشید نے بھی اس شرط کو منظور کرلیا، پھر بھی اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ رضیه کا گھر میں پورا خیال رکھتا۔ رضیہ کو کسی بھی چیز کی کمی نہ تھی، جلد ہی تینوں بھائیوں کے الگ الگ گھر بن گئے، رشید نے بھی اپنا گھر خوب سجا لیا۔

حمید اور مجید کے بچے دیکھ کردادی کو ہوکہ لگتا، اللہ‎! میرے رشید کو بھی اولاد دیدے۔ بھابیاں بھی نظروں ہی نظروں میں ٹٹولتیں۔ وقت گزرتا رہا۔ رشید اپنے وعدے پہ قائم تھا۔ ایک دن رشید کام سے جلدی آ گیا، اسے تیز بخارتھا، دوا کے باوجود بخار کم نہیں ہو رہا تھا، وہ شدید نڈھال تھا۔ رشید کی بھابیاں اس کی طبیعت پوچھنے آئیں ۔ رضیہ چاۓ بنانے باورچی خانے میں آئی ،اس کے کانوں نے سنا، بڑی بھابی چھوٹی والی سے کہہ رہی تھی۔

“دیکھو ننھی! یہ بہت بیمار ہے اور اولاد بھی نہیں۔ اس کے بعد یہ مکان میرا ہے، میں ابھی سے بتارہی ہوں”۔

یہ سنتے ہی ننھی بولی:” کیوں ! تم کیوں لو گی، یہ میرا ہوگا، میں نے تو بہت پہلے سے سوچا ہوا ہے۔ اولاد ہوتی تو کوئی بات بھی تھی، رشید کے بعد رضیہ یہاں کسی کونے میں پڑی رہے گی۔

یہ سب سن کے رضیہ کو بہت دکھ ہوا لیکن اس کی ذمہ دار وہ خود ہی تو تھی، وہ خود سے بہت شرمندہ ہوئی۔ اسی لمحے اُس کے دل نے ایک فیصلہ سنادیا۔

شام کو رشید کی طبیعت قدرے بہتر تھی۔ “رضیہ! میں ذرا باہر سے ہو کے آ تا ہوں۔ تم سو جانا”۔

رشید دروازے تک گیا، رضیہ سامنے آ گئی۔ آپ ذرا جلدی آ جانا، ایسا نہ ہو کہ دوستوں ہی میں دس بج جائیں۔ تھوڑی دیر بعد رشید گھرآ گیا۔ آج بھی رشید کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ رضیہ سجی سنوری رشید کے سامنے تھی۔ اور پھر جلد ہی گھر والوں نے خوش خبری سن لی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں