ھنادی ایمان، کالم نگار، بلاگر

“مصنوعیت والی دنیا سے بے زار ہوکر حجاب اختیار کیا”

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محترمہ ہنادی ایمان فہم قرآن کے سلسلہ میں لیکچرز میں مصروف رہتی ہیں۔ ماشااللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، ایک عرصہ تدریسی میدان میں گزارا تاہم بعدازاں اس میدان میں اپنی خدمات جاری نہ رکھ سکیں۔ کوئی وقت تھا جب وہ چہرے کا پردہ نہیں کرتی تھیں، تاہم پھر ان کے اندر حیران کن تبدیلی آئی، انھوں نے باحجاب زندگی کا آغاز کردیا۔ انھوں نے حجاب کیوں اور کیسے کیا؟ یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔

محترمہ ہنادی ایمان سے پہلا سوال تھا کہ انھوں نے حجاب کیوں کیا؟
کہنے لگیں:”دراصل میں نے اللہ تعالیٰ‌سے کچھ وعدے کئے ہوئے تھے یا منتیں کہہ لیں کہ وہ پوری ہوں تو میں پردہ کروں‌گی، میرے کچھ کام اٹکے ہوئے تھے۔ایک بڑی وجہ مصنوعی پن والی دنیا داری سے بے زاری بھی تھی۔ اس وقت میری عمر بیس،اکیس برس تھی لیکن حجاب 23 یا 24 برس کی عمر میں اختیار کیا۔ اگرچہ عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ‌ نے میرے کام کردئیے تھے لیکن میں نےلاپروائی برتی اور دیر سے حجاب کا اہتمام کیا۔ جس پر میں اللہ تعالی سے بہت معافی کی خواستگار ہوں “۔

“میرا بچپن، براٹ اَپ ، گرُومنگ اور سکولنگ سب سعودیہ میں ہوئی۔ وہاں کلاس چہارم سے ہی برقعہ و نقاب کرادیتے تھے اب کی صورتحال کا علم نہیں ، زیادہ سے پانچویں، چھٹی کلاس تک تو مکمل عبایا اور نقاب کا مطالبہ سکول کی جانب سے ہوتا تھا ، کفیل سعودی ہوتے تو وہ تقاضہ کرتے تھے۔ وہ لوگ اپنی پبلک کی فکر بھی کرتے، ان میں پیدا ہونے والے بگاڑ کے راستوں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ اُن لوگوں کا لائحہ عمل اور کلچر بہت مضبوط ہے اوروہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں”۔

“ہمارے ملک میں بھی ہمارے لوگوں کو اپنی اصل بنیاد جو قران و سنت سے ہم تک پہنچی ہے اس کو اختیار کرنے، اس سے اپنائیت رکھنے، اس سے پیار کرنے اور اس اساس پر فخر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے بہت تربیت چاہئیے اور تعلیمی نظام مضبوط بنیادوں پر تشکیل ہونا چاہئیے ۔ میڈیا کو بھی اپنا مثبت اور اینٹی اسلام کی بجائے پرو اسلام بن کے رول ادا کرنا چاہئیے ۔ اچھا! پھر میرے حجاب کا ہوا یہ کہ جب ہم پاکستان واپس آئے تو یہاں آکر حجاب چھوڑ دیا لیکن عبایا اور سر ڈھکنا نہیں چھوڑا”۔

ہمارا اگلا سوال تھا ، جب حجاب اختیار کیا تو گھر والوں نے کہا، رشتہ داروں اور سہیلیوں نے کیا کہا؟

محترمہ ہنادی ایمان کا کہنا تھا:” گھر والوں نے کچھ نہیں‌کہا، حالانکہ فیملی میں اور کوئی خاص پردہ نہیں تھا البتہ والدہ شرعی پردہ تو نہیں کرتی تھیں لیکن گھر سے باہر مکمل حجاب کرتی تھیں۔ والد صاحب نے بھی مجھے کبھی منع نہیں کیا ، اللہ ان کو غریق رحمت کرے، والد صاحب کی وجہ سے خاندان میں جو لوگ منع کرنے والے تھے انہیں کبھی بھی جرات نہیں ہوئی مجھے یا میرے پردے کو کچھ کہنے کی ، البتہ منع کرنے والوں کو سنا کہ کچھ اپنی بہنوں اور کچھ میری خالاؤں کو ہی کہتے تھے کہ یہ مکمل حجاب والا کام ٹھیک عورتیں نہیں کرتیں ۔ یہ ایک صریح گمراہی اور جہالت پر مبنی بہت سخت بات ہے۔ باقی کچھ رشتے داروں کو بتانا پڑتاتھا کہ یہ ایک منت تھی وہ پوری کرنی ہے اس لئے کوشش ہے کہ شرعی حجاب کروں “۔

“سہیلیوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا، ان کو معلوم تھا کہ جس کلچراور ماحول سے آئی ہے اسی کے مطابق چلتی ہے۔ بہرحال مجھے شریعت کے مطابق حجاب اختیار کرنابہت اچھا لگا،یہ بہت سوچ سمجھ کے ، ارادہ مضبوط کر کے ، کرنے والا کام ہےکیونکہ کبھی نفس بھی ساتھ نہیں ہوتا اور کبھی ماحول بھی ساتھ نہیں دیتا”۔

“ہاں! پردے کی بنیاد پر میں نے کبھی بہت نیک ہونے کا دعوٰی نہیں کیا۔ اور اللہ سے دعا ہے وہ فتنوں سے بچائے اور مرتے دم تک اپنے عہد پہ قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ بات بہت اہم ہے قران و حدیث سے بھی ثابت ہے اور میرا تجربہ بھی کہ اللہ سے باندھے عہد توڑنے یا پورے نہ کرنے کی سزا بہت شدید ہوتی ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ انسان ہو یا کوئی قوم ہو اگر اللہ سے باندھا عہد توڑے تو پھر اللہ توڑ ڈالتا ہے، چکنا چور کر دیتا ہے ایسے لوگوں کو اور وہ قوم اور وہ لوگ سکت ہی نہیں رکھتے کہ رب کی پکڑ سے نکل سکیں ۔ جب تک کہ وہ توبہ نہ کریں اور پلٹ نہ آئیں ۔اور اللہ ان کو معاف نہ کر دے “۔

“دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میں نے تعلیم مکمل کی تب میں نے پردہ بالکل چھوڑ دیا تھا صرف دوپٹہ رہ گیا تھا ۔ یہ بھی ایک زندگی کا فیز تھا، قدرے باغیانہ طرز عمل تھا ۔ لیکن اس پر بھی گھر والوں نے کچھ نہیں کہا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ دوبارہ اختیار کرلیا۔ پھر دوبارہ کچھ عرصے کے بعد احساس ہوا اللہ سے تعلق درست ہوا توجہ ہوئی اور رجحان ہوا تو آغاز میں گھر سے باہر نکلتے ہوئے صرف چادر لينی شروع کی، پھر نقاب شروع کردیا۔ عبایا نہیں پہنا ، دستانے بھی لئیے “۔

” دستانوں کے بارے میں میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتی ہوں۔ ایک بہت بزرگ اور شفیق سی جماعت کی آپا جان مجھے ساتھ لے جاتیں کسی قران کلاس میں اور سب کے سامنے بٹھا دیتیں ، وہاں کبھی حدیث، کبھی تلاوت، کبھی کچھ بھی وہ کہتے تو بولنا پڑتا تھا ۔ وہاں نہ میرا پردہ تھا اور ناخن بھی لمبے فیشن زدہ کچھ عرصہ تو ایسے چلا پھر ایک دن وہ میری نہایت شفیق اور بزرگ ساتھی کہنے لگیں، اگر اپ کے پاس وقت نہیں ہوتا تو میں آپ کی مدد کر دیتی ہوں، آپ میرا نیل کٹر لے لیں استعمال کر لیں ، انہوں نے بیگ سے نیل کٹر نکال کے مجھے دیا ۔ میں نے اسے لاپروائی سے دیکھا اور شکریہ کہہ کے واپس کر دیا کہ آپا جی! میرے پاس ہے۔ پھر ایک دن کلاس میں انہوں نے مجھے قرآن کا ایک رکوع پڑھانے کو کہا، ساتھ ہی میرے سامنے میز پر اپنا نیل کٹر رکھ دیا ۔ تب میرے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی” ۔

“سامنے کوئی 30-35 حاضرین بھی بیٹھے تھے، کچھ دیر تو میں نے نیل کٹر دیکھا، پھر آپا کا محبت بھرا چہرہ دیکھا، پھر قرآن پڑھایا، پھر آپا جی نے دعا کرائی اور نیل کٹر اپنے بیگ میں رکھ لیا ۔ اور میں نے شکر کیا کہ سامنے والوں میں کسی کو کچھ پتا نہیں چلا ۔ ناخن میں نے پھر بھی نہیں کاٹے۔ اگلی کلاس میں نے دستانے پہن کر لی ۔ لیکن یقین کریں آپا جان کی محبت میرے جیسے نافرمان باغی سے ذرا کم نہیں ہوئی ۔ ان نیک لوگوں کی بہت محنت ہے پتا نہیں شفقت اور محبت للہیت سے کتنے ہمارے جیسے نافرمان اور باغی لاپروا بھوتوں کو قابو کر لیتے ہیں۔ ایک اور اچھی استاد ملیں جن سے قرآن کلاس لی تو بہت اثر ہوا تقویٰ کا معیار اور بہتر ہوا “۔

“پھر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر مجھے زیادہ آسانی ہوگئی۔ پھر‌ دین کا راستہ بہت سیدھا اور آسان محسوس ہوا۔اب گھر میں بھابی تو کر رہی ہیں لیکن انہوں نے میری کوشش سے نہیں کیا۔قران سمجھنے کا موقع مل جائے ، دین سے انسان جڑ جائے اور گھر میں ماحول کو دیکھا تو کر لیا ورنہ اس کے شوہر یعنی میرے بھائی کی ہر گز یہ خواہش نہ تھی کہ وہ پردہ کریں۔ وہ تو قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کی فیملیز کے ساتھ مکس گیدرنگ کو برا نہیں سمجھتے۔۔”

اب باحجاب زندگی کیسی لگ رہی ہے؟
حجاب سے بہت اچھا محسوس ہوتا ہے ۔ پرسکون، پر وقار، محفوظ اور آرام دہ زندگی۔ عام مقامات یعنی پبلک پلیسز پرمسائل بھی کم ہوتے ہیں۔ لوگ کھڑے ہو کر سر سے پیر تک نہیں گھورتے ، ذاتی پرائیویسی میں بھی لوگوں کی دخل اندازی کم ہوتی ہے “۔

“حجاب سے پہلے کی آزمائشیں بہت سخت تھیں، زیادہ مسائل اوپن فیس ٹو فیس انٹرایکشن ، مکس گیدرنگز اور کو ایجوکیشن سے ہی پیدا ہورہے تھے ۔۔ شدید منفی نوعیت کا ذہنی دباؤ پیدا ہو جاتا ہے بعض اوقات۔ اس سب سے جان چھوٹ گئی ۔ بہت سکون ارام ہے” ۔

کیا حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے؟
محترمہ ہنادی ایمان کا کہنا ہے “نہیں، حجاب ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتا، آپ گھر کے باہر ہرکام کرسکتے ہیں۔ ڈرائیونگ، گروسری، شاپنگ، کوئی کلاس لینے جانا ہو تو کہیں‌کوئی مسئلہ پیدا نہیں‌ہوتا۔ لوگوں سے ضروری گفتگو بھی آرام سے کی جاسکتی ہے۔ جن کےگھر میں زیادہ پردہ نہیں ہوتا یا خواتین کے لئے الگ محافل نہیں ہوتیں، وہاں موجود مہمانوں میں بھی چادر اوڑھ کر، نقاب کر کے آرام سے بیٹھاجاسکتاہے، کھانے ،پینے کے وقت میزبانی بھی آرام وسکون سے کی جاسکتی ہے۔ یوں‌سارے کام بھی ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی قائم رہ جاتا۔ کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی”۔

“سمجھ دار لوگ حجاب پر کبھی اعتراض نہیں کرتے، باقی رہے نا سمجھ لوگ تو ناسمجھ لوگوں کے اعتراضات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ یا تو احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ، یا انھیں قران و سنت کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی اہمیت و افادیت کا اندازہ نہیں‌ہوتا”۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں