"سینیئرز نے کہا، گلیشئیر پر سائیکلنگ نہیں ہوسکتی”

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

یہ اس خاتون کے پہلے سفر کا قصہ ہے۔ انھوں نے اپنے گھر والوں کو ایبٹ آباد جانے کا بتایاتھا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ سائیکل پر جارہی ہیں،ایک ایسی سائیکل جو سپورٹس گئیرز والی بھی نہ تھی۔ سر پر دوپٹہ اوڑھے، پاؤں میں سادہ سلیپرز پہنے ثمر خان نے ایبٹ آباد کی طرف سائیکل بھگا دی۔ راستے میں بارش برسنے لگی لیکن انھوں نے کہیں پناہ لینے کے بجائے سفر جاری رہا، موسم بھی سرد تھا لیکن سائیکل پر سفر کا جنون انھیں رکنے نہیں دے رہاتھا۔ وہ سردی اور بارش میں اس سفر سے خوب لطف اندوز ہورہی تھیں۔ وہ ایبٹ آباد پہنچیں، دیکھنے والے حیران اور گھر والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہ پہلا سفرتھا، اس کے بعد انھوں نے پاکستان بھر کے لوگوں کو اپنے کارناموں سے مسحور کردیا۔

چھبیس سالہ ثمرخان دنیا کی پہلی خاتون ہیں جنھوں نے دنیا کے تیسرے طویل گلیشئیر ’بیافو‘(واقع گلگت بلتستان) کو سائیکل پر سوار ہوکر سَر کیا۔ فیڈرل اردو یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم ایس سی فزکس کی طالبہ پیراگلائیڈنگ بھی کرتی ہیں، ٹریکنگ بھی اور کوہ پیمائی بھی۔ صرف یہی نہیں، وہ مارشل آرٹس کی اچھی فائیٹر بھی ہیں۔ لوئر دیر سے تعلق رکھنے والی پٹھان خاتون نے سطح سمندر سے 4500 میٹر بلند بیافو کا سفر جولائی 2016ء میں کیا۔

ایک ہزار کلومیٹر کے اس سفر کاحیران کن لیکن افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ انھیں وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا چنانچہ وہ کسی کمپنی کی مدد نہ لے سکیں۔ انھوں نے سفر کا سارا انتظام اپنی ہی جیب سے کیا، ایک پیشہ ور کوہ پیما اصغر حسین سے رابطہ کیا اور ایک ماہ کے طویل سفر پر 24جولائی کو روانہ ہوئیں۔ ثمرخان جانتی تھیں کہ اس قسم کے سفر میں چڑھائی ہی سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے چنانچہ انھوں نے اس سفر کی چھ ماہ تک تیاری کی، ہرہفتہ کے اختتام پر ٹریکنگ کرتی تھیں، باقاعدگی سے ’جم‘ جاتی تھیں، اسی طرح وہ اپنے ڈائیٹ پلان پر بھی سختی سے پابند تھیں۔ پوچھا کہ ڈائیٹ پلان کیا تھا؟ کہنے لگیں:’’ سادہ خوراک، زیادہ سے زیادہ پانی پینا اور بس!‘‘

ثمرخان کی سائیکلنگ میں دلچسپی دو برس قبل یونیورسٹی لائف میں پیدا ہوئی۔ ان کا ایک بڑا سفر اسلام آباد سے درہ خنجراب تک تھا جو گزشتہ برس کیا۔ اس سے قبل وہ دیگر سائیکلسٹوں کے ہمراہ مینارپاکستان سے واہگہ بارڈر لاہور تک کا سفر بھی کرچکی تھیں۔ پوچھا کہ کس نے انسپائر کیا؟ کہنے لگیں :’’سائیکلنگ میں میرے لئے کوئی بھی انسپائریشن نہیں تھی، میں خود چاہتی تھی کہ میں کچھ ایسا کروں جس سے لوگ انسپائر ہوں۔اس کے لئے میں نے بڑے بڑے سائیکلنگ ٹورز بھی کئے۔ پچھلے سال اسلام آباد سے پاک چائنا بارڈر تک قریباً ایک ہزار کلومیٹر کا ٹور اور اس کے بعد ابھی یہ بیافو گلیشئرز والا ٹور‘‘۔

سب سے پہلا ٹور کون ساتھا؟ ثمرخان نے بتایا:’’سب سے پہلا وہی ’ روڈ ٹور‘ تھا جب میں راولپنڈی سے ایبٹ آباد گئی تھی، اس وقت مجھے روڈ کا خوف بہت تھا کہ گاڑیوں اور ٹریفک کے درمیان سے سائیکل کیسے چلاؤں گی کیونکہ سائیکل والوں کو روڈ پر آسانی سے جگہ نہیں ملتی۔ اس سفر کے دوران میں میرے ایک دو دفعہ ایکسیڈنٹ بھی ہوئے تاہم اس کے بعد روڈ اور رش کا خوف دل سے نکل گیا۔ اب میں آرام سے ٹریولنگ کرسکتی ہوں‘‘۔

کہساروں کی اس بیٹی سے پوچھا کہ دوسروں سے بڑھ کر کچھ کرنے کے اور بھی میدان ہیں، آپ نے سائیکلنگ کا انتخاب کیوں کیا؟ کہنے لگیں:’’ سائیکلنگ دیگر کھیلوں کی نسبت زیادہ آسانی سے اختیار کی جاسکتی ہے۔ آپ کو کسی ٹرینر کی ضرورت نہیں ہوتی، بہت مہنگے سازوسامان کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ بارش یا برف باری میں بھی سفر کرسکتے ہیں۔ یہ ایک خوشگوار، صحت مند اور ماحول دوست کھیل ہے۔

سائیکلنگ سے آپ اپنے ملک کو آسانی سے ایکسپلور کرسکتے ہیں باقی سارے کھیل جیسے پیراگلائیڈنگ ، بھی ایک محدود علاقے ہی میں ہوسکتی ہے اور مارشل آرٹس بھی آپ جم ہی میں جا کر کرتے ہیں لیکن اگر آپ نے اپنا ملک دیکھنا یا گھومنا ہے تو گاڑی اور موٹرسائیکل سے بہتر سائیکل ہی ہے، اس سے بہتر کوئی سواری نہیں۔ اس پر سفر بھی محفوظ ہے اور اس سے صحت بھی ٹھیک رہتی ہے۔ دوسرا یہ کہ سٹریٹ ٹورازم یورپی ممالک میں ہوسکتاہے تو یہاں کیوں نہیں ہوسکتا‘‘۔ ثمر خان پورے تیقن سے کہتی ہیں کہ سائیکلنگ کوئی غیرمحفوظ کھیل نہیں ہے جیساکہ ایک عام تاثر ہے۔ دوسروں سے پوچھنے کے بجائے بذات خود اس کا تجربہ کرکے دیکھیں۔

’’ پھر یہ سائیکلنگ ٹورز کے تجربات کیسے رہے؟‘‘

کہنے لگیں :’’مائینڈ سیٹ لوگوں کا بنا ہوا ہے کہ ہونہیں سکتا، میری کوشش ہے کہ یہ تبدیل ہوجائے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میرے ان ریکارڈز اور سرگرمیوں سے لوگوںکا مائینڈ سیٹ تبدیل ہوسکتاہے۔ جیسے میرے اس ٹور کے بعد دیر اور سوات سے بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ میں اُدھر جاکر ریلی کراؤں، دیر والوں کی بھی خواہش ہے کہ وہاں سے ایک ریلی نکلے۔ ان کی خواہش ہے لیکن انھیں طریقہ نہیں آتا یا اس قدر شعور نہیں ہے۔ بہت سے لوگ سفر کے دوران میں میرے ساتھ شامل ہوتے رہے۔ان میں سے کچھ ’ایبٹ آباد‘ کے تھے اور کچھ ’بابوسر‘ کے۔ لوگ ہمیشہ میرے ساتھ متعلق رہے، وہ مجھ سے پوچھتے رہے کہ وہ کیسے اس بائیکنگ ٹور میں شامل ہوسکتے ہیں‘‘۔

’’پنجاب والے ٹورز کے بعد میں نے کافی سائیکل ریلیاں کیں،لاہور، ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں بھی۔ ان میں بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کو ہمارے ساتھ شامل کیا، بعض جگہوں پر پورے خاندانوں نے ہمارے ساتھ سائیکلنگ کی۔ یہ بڑی کامیابی تھی۔ اب بھی بہت سے لوگ مجھے تجاویز دیتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ کا ٹور کرلیں، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھی آپ کا اگلا سفرہو تو ہمیں ضرور بتائیے گا، ہم بھی جوائن کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایکسرسائزنگ شاپس نہیں ہیں کہ جہاں سے کرائے پر سائیکل مل سکے یا خریدسکیں‘‘۔

میں نے پوچھا کہ بیافوگلیشئیر جانے کا خیال کیسے آیا؟ ثمرخان نے بتایا:’’گلیشئیر پر جانے سے پہلے میں کافی کوہ پیماؤں اور سینئرز سے ملی تھی،ان میں سے کافی لوگوں نے کہاتھا کہ میں گلیشئیر پر سائیکلنگ نہیں کرسکتی، ٹریکنگ تو ہوجاتی ہے، کہیں نہ کہیں سے راستہ بن جاتاہے لیکن سائیکلنگ نہیں ہوسکتی۔تاہم میں خود کوشش کرکے دیکھناچاہتی تھی کہ یہ تجربہ کیسا رہے گا۔اسی کوشش کے دوران میں سائیکل آگے گلیشئیر تک لے گئی‘‘۔

’’والدین نے کتنا سپورٹ کیا؟‘‘

ثمرخان اپنی والدہ کی سپورٹ کا بہت فخر سے ذکر کرتی ہیں۔ کہتی ہے :’’میری والدہ نے میرا بہت ساتھ دیا حالانکہ انھیں پتہ تھا کہ ٹور بھی طویل ہوگا اور یہ اکیلی بھی ہوگی۔ میں ٹور کے دوران گھر والوں سے رابطے میں رہتی ہوں۔ اس ٹور کے دوران میں بھی مسلسل انھیں بتا رہی تھی کہ اس وقت کہاں ہوں۔ جب میں کسی بھی ٹور کا سارا منصوبہ بنالیتی ہوں تو اپنے گھروالوں کے ساتھ ضرور ڈسکس کرتی ہوں‘‘۔

’’آپ بیافو گلیشر کے ٹور میں تنہا تھیں؟‘‘ پہاڑوں سے بھی بلند ہمت وحوصلہ رکھنے والی ثمرخان نے بتایا:’’ کسی بھی ٹور میں اپنا سفر مغرب سے پہلے ہی ختم کرلیتی ہوں۔اس سفر کے دوران میں نے راستے میں کافی سائیکلسٹس کو دعوت بھی دی جنھیں میں جانتی تھی کہ وہ مجھے جوائن کرسکتے ہیں۔ ایبٹ آباد سے بابو سر ٹاپ کے درمیان گروپس کے ساتھ سفر کرنے کا موقع بھی ملا۔ اس ٹور میں زیادہ تر سفر گروپ کے ساتھ کیا، میرے ساتھ ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کی ٹیم بھی تھی‘‘۔

دوران سفر مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ثمرخان نے بتایا کہ جب شمالی علاقہ جات میں سفر کررہی تھی تو موبائل کمپنیوں کے کمزور بلکہ خراب نیٹ ورک کے سبب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہتی تھیں۔ٹمپریچر کی مشکلات بھی پیش آئیں، مثلاً چلاس بہت گرم علاقہ تھا اور سارا ٹور گرمیوں ہی میں تھا یعنی جولائی کے اختتام پر۔ سارے راستے میں بہت زیادہ گرمی محسوس ہوئی۔ مجھے کافی دفعہ ہیٹ سٹروک بھی ہوا، ناک سے خون بھی آیا اور ایکسیڈنٹس بھی ایک دو دفعہ ہوئے۔ یہ گلیشئیر بھی سب سے زیادہ مشکل تھا۔

ثمر خان کے والد واپڈا میں ملازمت کرتے تھے، عرصہ پہلے ان کا انتقال ہوگیا، بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہونے کے ناتے گھر کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے راولپنڈی میں ایک پرائیویٹ جاب کرتی ہے، اس نے بتایاکہ سفر کے دوران پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) نے تعاون کیا، میرے لئے یہی کافی تھا کہ انھوں نے مجھے مفت رہائش کی سہولت فراہم کی۔

’’اب تک آپ کی کس نے حوصلہ افزائی کی؟‘‘ کہا:’’جب میں گلیشئر سر کرکے واپس آئی تو سب سے پہلے گلگت بلتستان سپورٹس بورڈ نے استقبالیہ دیا تھا، سرٹیفکیٹس دئیے گئے، گلگت بلتستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے بھی مدعو کیاتھا، اس کے بعد اسلام آْباد سپورٹس کمپلیکس میں بھی استقبالیہ دیاگیا۔ خنجراب پر میری ڈاکومنٹری دیکھ کر امریکہ، آسٹریلیا، کوریا اور کینیڈا سے بہت سے لوگوں نے فیڈ بیک دیا اور کہا کہ اس ڈاکومنٹری نے ان کے پاکستان کے بارے میں خیالات تبدیل کردئیے ہیں‘‘۔

ثمرخان جلد ہی قومی ٹیم میں شامل ہونے والی ہیں، ان کا کہناہے : ’’مجھے خیبرپختونخوا کی سائیکلنگ ٹیم نے بلایاتھا، پھر انھوں نے کہا کہ ہمارا نیشنل کیمپ لگا ہواہے، آپ عید کے بعد جوائن کرلیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے پاس ماؤنٹین بائیک ہے لیکن ریسنگ بائیک نہیں ہے۔ ‘‘ وہ ملک میں مزید مشکل اور پرخطر سفر کرنے کے منصوبے بنائے ہوئے ہے، ایک بار پھر بیافو جانا چاہتی ہے، بالخصوص ان علاقوں میں جائے گی جہاں وہ اس سے قبل نہیں جاسکی۔ کہتی ہیں:’’اکتوبر، نومبر میں منعقد ہونے والی چمپئین شپس میں شریک ہونے کی کوشش کروں گی، میرا سب سے بڑا مقصد اولمپکس میں شریک ہونا ہے، اس کی تیاری کررہی ہوں۔‘‘

تربیت یافتہ مکس مارشل آرٹ کی فائیٹر، نیشنل یوتھ اسمبلی کی رکن اور سوشل ایکٹوسٹ ثمرخان کہتی ہیں کہ حکومت کو پورے ملک میں سائیکلنگ کے کلچر کو پروان چڑھانے کے لئے معاون اقدامات کرنے چاہیں، بالخصوص بڑے شہروں میں ایسی سائیکل شاپس کھولنی چاہیں جہاں سے ہر کسی کو سستی اور اچھی سپورٹس سائیکل مل سکے۔کیونکہ ابھی تک ایسی سائیکلیں بلیک میں ملتی ہیں۔ یہ اس قدر مہنگی ہوتی ہیں کہ صرف امیرطبقہ ہی استطاعت رکھتاہے۔ حکومت کو یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر سائیکلنگ کے ایونٹس منعقد کرنے چاہیں، سپورٹس میں بہتر کارکردگی دکھانے والوں کو سکالرشپس دینے چاہیں، ہر شہر میں سپورٹس کمپلیکس تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، بالخصوص چھوٹے شہروں میں۔ پاکستان میں سائیکلنگ کا کوئی گلوبل ایونٹ منعقد ہونے سے ہمارے ہاں اس کلچر کو فروغ ملے گا۔

ثمر خان غیرنصابی کتابیں اور ناول بھی خوب پڑھتی ہیں، تاہم سفرنامے زیادہ شوق سے پڑھتی ہیں۔ سب سے زیادہ مستنصرحسین تارڑ کے سفرنامے پسند ہیں کیونکہ بقول ثمرخان:’’ ان کے توسط سے اپنے ملک کے دیگر حصوں میں جانے کے آئیڈیاز اور ٹورپلان کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کون سی جگہ یہاں سے کتنے کلومیٹر ہے اور موسم کیسا ہوگا اور اپنے ملک کے بارے میں بھی پتہ چل جاتاہے‘‘۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں