وزیراعظم عمران خان نے وزیر ریلوے شیخ رشید کو ہدایت کی ہے کہ محکمے میں ہونے والی کرپشن کے کیسز قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھجوا دیں اور کہا کہ گزشتہ دس سال میں این آر او ون اور این آر او ٹو کی وجہ سے بدعنوانوں میں خوف ختم ہوگیا تھا۔
وزیراعظم ہاؤس میں ریلوے ٹریکنگ سسٹم اور تھل ایکسپریس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ریل عام آدمی کے سفر کے لیے ہے اور ہمیں پاکستان میں ترجیحات دیکھنا ہے تو یہ دیکھیں کہ ساری دنیا میں ریل کا سفر آسان ہے’۔
عمران خان نے کہا کہ ‘نئے پاکستان کی سوچ یہ ہے کہ عام آدمی کا فائدہ کیا ہے اور لوگوں کو غربت سے کیسے باہر نکالنا ہے، اسی میں ریلوے بھی شامل ہے، اس کو بہتر کریں گے اور ریلوے کے نظام کو آگے لے کر جائیں گے’۔
چین سے ریلوے میں مدد حاصل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہم بیرونی سرمایہ کاروں سے شراکت میں اس نظام کو آگے لے کر جائیں گے اور چین اس وقت ریلوے نظام میں دنیا میں سب سے آگے ہے’۔
پاک-چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم سی پیک کو ہر فیلڈ کے اندر زرعی، ٹیکنالوجی، فشنگ، معلومات کا تبادلہ اور خصوصی اکنامک زون پر مدد لے رہے ہیں جس سے ملک میں معاشی حالات بہتر ہوں گے اور برآمدات میں اضافہ ہوگا’۔
وزیراعظم نے ریلوے میں چین کے تعاون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم ریل کے نظام ایم ایل ون میں ان سے ضرور مدد مانگنا ہے اس سے ٹرانسپورٹ کا سارا نظام جدید ہوگا اور کراچی سے پشاور 8 گھنٹوں میں سفر مکمل ہوجائے گا’۔
وزیرریلوے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ریلوے میں جس طرح کی کرپشن ہوئی ہے اس پر پوری طرح نیب کو مقدمات پیش کرنے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر ایریا میں کس طرح کی چوری اور کرپشن ہوئی ہے’۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘یہ مقدمات نیب کو اس لیے دینا ہے کہ لوگ کرپشن کرتے ہوئے ڈریں، پچھلے دس سال میں این آر او ون اور این آر ٹو کے بعد کسی کو خوف ہی نہیں تھا اس لیے کہ کسی نے پکڑنا نہیں ہے’۔
عمران خان نے گزشتہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنتے ہوئے کہا کہ ‘ان دس برسوں میں پاکستان کا قرضہ 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب تک پہنچ گیا یعنی پاکستان کی تاریخ میں 60 سال میں 6 ہزار ارب قرض تھا اور 10 سال میں 30 ہزار ارب میں لے کر گئے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ پیسہ کہاں گیا، یہ پیسہ لوگوں کے جیب میں اس لیے گیا کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہاں پکڑا نہیں جانا اسی لیے ہمارا ملک مقروض ہے اور ہم مشکل حالات سے گزر رہے ہیں’۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ حکومتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘انہوں نے جو قرضے لیے تھے اس پر دن میں 6 ارب روپے سود دے رہے ہیں اور ان لوگوں سے پوچھیں کہ آپ ملک کو ان حالات پر چھوڑ کر نہ جاتے اور اگر ہمارے اوپر اتنے قرضے نہ چڑھے ہوتے تو ہم حاجیوں کو مفت بھیجیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک طرف سے ہم قرضے لے رہے ہیں اور ان کے قرضوں پر 6 ارب روپے (600کروڑ) سود دے رہے ہیں اور دوسری طرف ہم کہہ رہے ہیں کہ حاجیوں کو سبسڈی دیتے ہیں تو یہاں کینسر کے مریض ہیں ان کو کیوں نہیں سبسڈی دیتے، یہاں ہیپاٹائٹس سے لوگ مر رہے ہیں ان کو کیوں نہیں، یہاں بچے اسکولوں میں نہیں جاتے ان کو کیوں نہیں سبسڈی دیتے، آدمی پر جب قرضے چڑھے ہوں تو سوچتا ہے کہ میں کس پر پیسہ خرچ کروں’۔
ریلوے میں خرچے مزید کم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیراعظم ہاؤس میں اب تک میں نے 30 فیصد خرچ کم کیا ہے، یہاں پہلے کوئی 43 کروڑ روپے خرچ تھا مزید اب ہم نے ایک آڈیٹر کو رکھا ہے کہ ہرقسم کا خرچ کم کریں، یہاں بڑے بڑے کھانے ہوتے تھے نہاری چلتی تھی لیکن ہم چائے اور بسکٹ کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں دیتے’۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں نے تمام وزاتوں کو ہدایت کی ہے کہ خرچ کم کریں، میں 30 فیصد خرچ کم کرسکتا ہوں، اس لیے آپ کم ازکم 10 فیصد خرچ سب کم کریں’۔
گیس کے زائد بلوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘گیس کے شعبے پر 157 ارب روپے کے قرضے ہیں اور بینکوں نے بھی قرض دینے سے انکار کردیا اور گیس کی سالانہ 50 ارب روپے کی چوری ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘گیس کی قیمت نہ بڑھاتے تو یہ گیس کمپنیاں بند ہوجائیں گی اور گیس بھی بند ہوجائے گی اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے خرچے کم کرنے ہیں اور دوسری ہم نے چوری ختم کرنی ہے’۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘مشکل وقت ہے لیکن میں اپنے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ان شااللہ آگے اس ملک کا مستقبل روشن ہے’۔