مشہور سوئس سائیکاٹرسٹ اور سائیکواینالسٹ، اینالاٹیکل سائیکالوجی کے بانی کارل جنگ نے کہاتھا: “شرم روح کو کھاجانے والا جذبہ ہے۔”
متین صاحب بہت جلدی میں تھے انہیں آفس سے دیر ہو رہی تھی اور گلی کے کونے والی دکان سے سودا پکڑ کر گھر دینا بھی ضروری تھا۔ اسی جلدی میں تیز تیز چلتے ہوئے وہ سامنے پڑے پتھر سے ٹکرا کر نیچے گر پڑے۔ انھوں نے ایک دم کھڑے ہوکر کپڑے جھاڑتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کسی نے مجھے دیکھا تو نہیں، جب انھیں یقین ہوگیا کہ کسی نے انہیں گرتے ہوئے نہیں دیکھا تو ان کی گرنے کی75 فی صد تکلیف ختم ہوگئی حالانکہ ان کا گھٹنا اور کہنی بُری طرح چھل گئی تھی۔ گویا جسمانی چوٹ سے زیادہ ان کے لئے یہ پریشان کن بات تھی کہ کسی کو پتا نہ چل جائے کہ وہ گرے ہیں۔ یہ احساس شرم یا خفت ہم سب ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیڑھ سے تین سال کی عمر کے دوران جب بچوں میں اپنے وجود کا شعور پیدا ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی احساس شرم بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ بچے یہ نہیں پسند کرتے کہ وہ دوسروں کی نظروں میں کمتر ہوں یا کوئی انہیں شرمندہ کرے۔
ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ احساس شرمندگی میں بچوں کا دماغ بند ہوجاتا ہے، سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ گویا ایک ایسا بچہ جسے ڈسلیکسیا ہو یعنی لفظوں کا اندھا پن یا لفظ واضح نظر نہ آنا، ان کو نہ پڑھ سکنے کی شرمندگی ضرب ہوکر بہت ساری شرمندگیوں کا ایک طوفان لاتی ہے جس سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح ایک ہنستاکھیلتا بچہ شرمندگی کی وجہ سے دبو، افسردہ اور احساس کمتری کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر ڈونالڈ ناتھنسن مشہور ماہر نفسیات، جیفرسن یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے انسانی رویوں اور جذبات پر بہت تجزیاتی کام کیا ہے۔ ان کی بچوں کے اندر جذبات اور خصوصاً احساسِ شرم پر بہت گہری تحقیق ہے۔ ان کی وجہ شہرت ان کا مشہور نظریہ” کمپاس آف شیم” ہے جس میں شرم کے چار ردعوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر ڈونالڈ کا اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بچہ جسے الفاظ پڑھنا مشکل ہوں جب وہ کلاس کے سامنے پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ میں پڑھ نہیں پا رہا ہوں تو پہلا شرم کا حملہ اس پر یہ جان کر ہوتا ہے کہ ایک کام جو مجھ سے کئے جانے کی توقع تھی میں وہ نہیں کر پا رہا ہوں۔ دوسرا یہ کہ میں پبلک میں یعنی کلاس کے سامنے ہوں، اور پھر یہ احساس شرم ضرب ہوکر بہت پھیل جاتا ہے۔ جب یہ خیال آتا ہے کہ میں اپنے کلاس فیلوز سے کمتر ہوں اور وہ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر اسی بچے کو تنہائی میں بہت محبت سے والدین، استاد، یا ٹیوشن پڑھانے والا پڑھنے کا کہے گا تو اس کو شرم کا اتنا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور اس کے سیکھنے کا زیادہ امکان ہے۔
بہت سے بچوں سے ایک سروے میں پوچھا گیا کہ آپ استاد کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے جواب یہ تھے:
نرمی سے پیش آنے والا، جو ہمیں پڑھانا چاہتا ہو، زیادہ وقت دے، ہوم ورک ختم کرنے کے لئے آہستہ بولے، کلاس کے سامنے غلطیاں نہ نکالے، میری امی کو میری شکایت نہ لگائے، جیسے میں پڑھنا چاہتا ہوں ویسے پڑھائے، کلاس کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرے، میری گندی لکھائی کو نظر انداز کردے۔
ان میں سے اکثر جوابات میں ایک بات مشترک ہے “احساس شرم” گویا بچے غلطی نکالنے پر شکایت لگنے اور سزا ملنے پر شرم محسوس کرتے ہیں۔ احساس شرمندگی اگر بڑوں کے لئے تکلیف دہ ہوسکتا ہے تو بچوں کے لئے کہیں زیادہ ذلت کا باعث بن سکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرمندگیاں بڑے بڑے ذہنی مسائل پیدا کردیتی ہیں۔ ذہنی مسائل کے حامل بچوں کا تو شرمندہ ہونا روز کا معمول بن جاتا ہے۔ کلاس میں سبق نہ سنا سکنا، کھیلنے کے لئے رد کئے جانا، جلدی کام نہ کر سکنا، بات صحیح نہ سننا اور غلط جواب دے دینا ، بغیرسوچے کچھ ایسا کہہ دینا جو نامناسب ہو۔ شرمندگی کا بوجھ نارمل اور ذہین بچوں کے لئے بھی اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ شاید اسی بوجھ کو محسوس کرتے ہوئے جرمن مصنف ‘اینڈریاز ایسکابا’ نے کہا تھا کہ ’’شرم ایک زخم ہوتا ہے جو نہ تو دکھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ بھر پاتاہے”۔
ڈارون نے کہا تھا کہ شرمندگی ایک احساس ہے جس میں انسان کے سوچنے کی صلاحیت دھندلاجاتی ہے۔ جبکہ سارتر کا کہنا ہے کہ شرمندہ ہونا میرے لئے ایک اندرونی ہیمرج ہوتا جب میں شرمندگی کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے لوگوں کی ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شرمندگی کس قدر ناخوشگوار تجربہ ہے۔ بچوں کا شرمندہ ہونا بڑوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھی جاسکتی ہے کہ بیس کلو وزن ایک چالیس سالہ شخص کو اٹھانے کا کہا جائے تو وہ آرام سے اٹھا لے گا جبکہ اتنا ہی وزن ایک دس سالہ لڑکے کو اٹھانے کو کہا جائے تو اس کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ اسی طرح احساس شرمندگی بچوں کے لئے بہت تکلیف دہ مسئلہ ہوتا ہے جس کا اکثر بڑوں کو ادراک نہیں ہوتا۔ بڑے اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ یہ تو بچہ ہے اسے کیا کھیل میں یا سو کر یا اگلے دن بھول جائے گا لیکن یہ محض ایک خیال ہے شرمندگی بچوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی ہے۔
آج سے کوئی دس بارہ سال پہلے کینیڈین ٹی وی نے نوجوانوں کے مسائل پر ایک ڈاکومنٹری تیار کی تھی، اس میں ایک پاکستانی لڑکے کی خود کشی کا بھی ذکر تھا جو دوسرے بچوں کے کسی مذاق پر اپارٹمنٹ بلڈنگ سے کود کر چھلانگ لگا لیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں شرمندگی کی وجہ سے اپنے والدین سے نظریں نہیں ملا سکوں گا۔ اسی نوعیت کا واقعہ اگر کسی بڑے لڑکے یا آدمی کے ساتھ پیش آتا تو وہ اس کا سامنا کرتا اور اپنی جان نہ لیتا۔ بچے دوسرے بچوں کے سامنے اپنی عزت اور بھرم قائم رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں اس کا اندازہ ڈاکٹر ‘لیوائے کے’ کے بیان کردہ ان دو سچے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے:
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ “میں بہت ساری جگہوں پر لیکچر دینے اور ورکشاپس کے سلسلے میں جاتا رہتا ہوں۔ ریاست میساچیوسٹ کے کمیونٹی کالج میں ایک لیکچر کے آخر میں ایک نوجوان لڑکا مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے کچھ بات چیت کرنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ وقت دیجئے۔ ہم نے ایک ٹائم طے کرلیا اور وہ ایک ہفتے بعد مجھ سے ملنے آگیا۔ میرا نام ڈینیل (یا دانیال) ہے، میں کمیونٹی کالج کا طلب علم ہوں، میں نے پڑھائی میں بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ہے، ایک ایک کلاس میں کئی کئی سال لگا کر کالج تک پہنچا ہوں اور اپنے مستقبل کے لئے آپ سے مشورہ اور مدد چاہتا ہوں۔ مشورہ تو میں نے اسے دیدیا لیکن جو اپنے بچپن کی کہانی اس نے سنائی وہ والدین اور اساتذہ کے لئے سننا ضروری ہے”۔
“میں کیپ کاڈ میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ میرا والد لابسٹرز پکڑنے اور بیچنے کا کام کرتا تھا ۔ وہ قصبے کا سب سے محنتی آدمی تھا۔ صبح سے رات تک بغیر رکے کام کرنے والا جو اپنے کام کے معاملے میں بہت سنجیدہ اور ان تھک تھا۔ میری ماں گھریلو عورت تھی جو سارا دن مشین کی طرح کام کرتی گھر کے سارے کام ختم کرنے کے بعد میرے باپ کے آنے پر بغیر کسی شکایت یا تھکن کے کھانا میز پر لگا دیتی ، میرے گھر میں کسی کے کام نہ کرنے کو بہانہ سازی اور کاہلی سمجھا جاتا تھا جس کی جو ڈیوٹی تھی اسے وہ پوری کرنا ہے اور بس۔
میں پہلی کلاس میں داخل ہوا تو مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا، دوسرے بچے کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے، کہانیوں کی باتیں کرتے، وہ کتاب اٹھاتے تو لفظ ان کے لئے بولنے لگتے اور میرے لیے وہی الفاظ ٹیڑھی میڑھی لائنیں، دائرے اور دھبے ہوتے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آتی کہ لفظ کہاں ہیں جو ان کو نظر آتے ہیں۔ جب میں سترہ سال کا ہوا تو مجھے سمجھ آئی کہ مجھے ڈسلیکسیا ( پڑھنے میں مشکل پیش آنا) ہے لیکن اس وقت جب میں چھ سال کا تھا تو مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ میں اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کر رہا۔ اکتوبر کے درمیان میں( امریکا اور کینیڈا میں سکول ستمبر میں شروع ہوتے ہیں) میرے نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے میری استانی نے مجھ سے چڑنا شروع کردیا اور اکتوبر کے آخر تک بچوں نے میرا مذاق بنانا شروع کردیا۔ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اب وہ وقت دور نہیں جب میرے والدین کو پتا لگ جائے گا کہ میں پڑھ نہیں رہا۔ اس بات سے میں بہت خوفزدہ تھا، بہت زیادہ خوفزدہ۔ لیکن میں ایک سمجھدار لڑکا تھا ، میں نے کلاس کے سب بچوں پر غور کیا تو مجھے پتا چلا کہ ایک اور لڑکا بھی ایسا ہے جو پڑھ نہیں سکتا لیکن اس کا کوئی مذاق نہیں اڑاتا تھا اس لئے کہ وہ بہرا تھا۔ حتیٰ کہ ٹیچر بھی اسے کچھ نہیں کہتی تھی۔ وہ سننے کا آلہ لگاتا تھا چونکہ اس کی سماعت خراب تھی اس لئے کوئی اس سے یہ توقع نہیں کرتا تھا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔
چنانچہ میرے چھ سالہ دماغ نے مسئلے کا یہ حل سوچا کہ سب کو یقین دلا دوں کہ میں بہرا ہوں۔ اگر سب کو یقین ہو جائے گا کہ میں سن نہیں سکتا تو کوئی مجھے نہ پڑھنے پر تنگ نہیں کرے گا۔ میں نے ایک ایک بندے کو اپنے بہرے ہونے کا یقین دلانے کی مہم کا آغاز کردیا۔ کلاس میں ٹیچر کے بلانے پر میں جواب نہ دیتا یہاں تک کہ وہ آکر میرے کندھے کو ہلاتی۔ میں کہتا کیا ہوا؟ وہ کہتی میں تمھیں بلا رہی تھی۔ میں کہتا’’میں نے سنا نہیں‘‘۔ میں نے اپنی ٹریننگ کرلی کہ پرشور آوازوں پر توجہ نہ دوں۔ کسی بڑے شور پر سب بچے بھاگ کر کلاس سے باہر جاتے تو میں ایسے بیٹھا رہتا جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ آدھی چھٹی کے بعد گھنٹی بجنے پر سب بچے واپس کلاس میں چلے جاتے، میں جم میں رہ جاتا حتیٰ کہ پرنسپل مجھے کہتا کہ ڈینیل! گھنٹی نہیں سنی؟ کلاس میں جاؤ، میں کہتا مجھے نہیں سنی۔ گھر میں ڈنر پر میری والدہ مجھے آوازیں دیتی کہ ڈینیل! ذرا نمک دانی تو پکڑا دو، میں سنی ان سنی کر دیتا، وہ میرا کندھا ہلاتی اور کہتی: ڈینی! میں نے تم سے نمک مانگا ہے، “میں نے سنا نہیں امی”: میں جواب دیتا۔
جب ہم گھر سے باہر کھیل رہے ہوتے تو میرا باپ گھر واپس آنے کے لئے آوازیں دیتا، میں باہر ہی رہتا، یہاں تک کہ میرا باپ باہر آکر مجھے اندر لے جاتا اور کہتا: ڈینی! میں دس منٹ سے تمھیں آوازیں دے رہا تھا، میں کہتا:’’میں نے نہیں سنا ڈیڈ‘‘۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے والدین گھر پر نہیں تھے ، جب مجھے ان کی گاڑی کی آواز آئی تو میں نے ٹی وی کی آواز بہت اونچی کر کے بہت پاس جاکر ایسا ظاہر کیا کہ بڑی مشکل سے سن رہا ہوں۔ میرے والدین مجھے قصبے کے کانوں کے ڈاکٹرز کے پاس لے جاتے رہے جب وہ آلات لگا کر مجھے پوچھتے کہ سنائی دے رہا ہے؟ تو میں کہتا کہ نہیں، حالانکہ مجھے سن رہا ہوتا۔ یہاں تک کہ سب کو یقین ہوگیا کہ میں سن نہیں سکتا۔ حالات بالکل ٹھیک جارہے تھے کہ جون کا مہینہ آگیا۔
میں نے کہا کہ جون میں کیا ہوا ڈینیل؟ اگرچہ یہ سترہ سال پرانی بات تھی پھر بھی اس کی رنگت پیلی پڑ گئی، اس نے کالر سیدھا کیا، کرسی پر بے چینی سے پہلو بدلا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا:”میں کبھی نہیں بھول سکتا”۔
جون میں پہلی کلاس کے آخری دن میرے والدین میرے سامنے بیٹھ کر کہنے لگے: “ڈینی! ہم تمھارے نہ سن سکنے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، تمھاری سماعت میں کوئی خرابی ہے۔ ہم نے تمھیں قصبے کے ہر ڈاکٹر کو چیک کروایا ہے۔ کسی کو تمھارا مسئلہ سمجھ نہیں آیا۔ اب ہم نے تمھاری اپوانٹمنٹ بوسٹن کے بچوں کے اسپتال میں بنوائی ہے۔ تم وہاں اگلے ہفتے جاؤ گے اور چار دن تین رات وہاں رہو گے۔ وہ تمہارے کان کا آپریشن کریں گے اور ٹانسل نکالیں گے۔”
ایک چھے سال کے بچے کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے شرمندگی سے بچنے کے لئے کان کا آپریشن کروا لیا۔ اس عمر میں جب بچے کے لیے ایک معمولی سا ٹیکہ لگوانا بھی قیامت سے گزرنا ہوتا ہے۔ گویا شرمندہ ہونا بچوں کے لئے ناقابل برداشت ذہنی اذیت ہوتی ہے جو عمر بھر ان کی یاد میں تازہ رہتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مڈ ویسٹ میں ایک جگہ لیکچر کے لئے مدعو تھا۔ آڈیٹوریم لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے وہاں یہ کان کے آپریشن والا واقعہ سنایا۔ اس پورے واقعے کے دوران بائیں طرف کی تیسری لائن میں بیٹھا تقریباً پچیس سالہ لڑکا مسلسل خاموش ہچکیوں سے رو رہا تھا، اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپایا ہوا تھا اور کبھی آگے ہوتا کبھی پیچھے ، کسی کا دھیان اس کی طرف نہیں تھا کیونکہ سب لوگ میری طرف متوجہ تھے اور میں چونکہ سٹیج پر کھڑا تھا اس لئے اس کو دیکھ سکتا تھا۔ یہ مانا کہ کہانی بہت پر اثر تھی پھر بھی مجھے اس نوجوان کے اس طرح بے آواز رونے پر حیرت ہو رہی تھی۔ لوگ بے خبر تھے لیکن میں جان گیا تھا لڑکا سخت ذہنی اذیت میں ہے۔
جونہی میرا لیکچر ختم ہوا، وہ دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا:”کیا میں آپ کے کچھ منٹ لے سکتا ہوں۔ میں نے کہا:”ہاں لیکن تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ اس نے کہا کہ ابھی ابھی آپ نے جو کان کے آپریشن والے چھوٹے لڑکے کی کہانی سنائی ہے، اس نے مجھے وہ دن یاد کروا دیے ہیں جن کو میں تقریباً بھول چکا تھا۔ کیا میں آپ کو کچھ بتاسکتا ہوں؟ میں نے کہا ہاں ضرور۔ چنانچہ ہم بیٹھ گئے اور اس نے کہنا شروع کیا:’’میرا باپ مجھے اس وقت چھوڑ گیا تھا جب میں تیسری کلاس میں تھا۔ ایک صبح میں اُٹھا سیڑھیاں اتر کر نیچے گیا تو وہ اپنا سامان باندھ کر جاچکا تھا گھر والوں کو چھوڑ کر۔ اب جب میں پچیس سال پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ وہ میری زندگی کا بہترین دن تھا۔ وہ ایک ظالم شخص تھا، میری ماں کے لئے، میرے اور میرے بھائیوں کے لئے انتہا سے زیادہ بے حس اور ظالم تھا۔ اس کا ہمیں چھوڑ کر جانا ہمارے لئے زندگی کی سب سے اچھی بات تھی۔ اب سترہ سال بعد مجھے نہیں علم کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں اور نہ مجھے اس کی پرواہ ہے۔
میں اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اور پہلی کلاس سے ہی میرا باپ مجھے مارا کرتا تھا۔ وہ مجھے مارا کرتا تھا کیونکہ اسے مارنا اچھا لگتا تھا۔ مجھے مارنے کے لئے اسے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ہم کچن ٹیبل پر بیٹھے ہوتے وہ گھوم کر مجھ تک پہنچتا اور میرے منہ پر تھپڑ لگاتا۔ وہ ضرورت سے زیادہ ظالم تھا اور مجھے بلا کسی قصور کے مارا کرتا تھا۔ عام طور پر جب وہ مجھے کچن یا ڈرائنگ روم میں مارتا تو میں اس سے بچنے کے لئے بھاگتا اور کہیں چھپ جاتا اور تب تک چھپا رہتا جب تک کہ وہ سو نہ جاتا۔ لیکن جب مجھ سے کوئی غلطی ہوجاتی تو مجھے ’’غسل خانہ مار‘‘ پڑتی۔ یہ نام میرے بھائیوں نے رکھا تھا اس مار کا۔ ’’غسل خانہ مار‘‘ کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ میرا باپ مجھے پکڑ کر غسل خانے میں لے جاتا اور پیچھے سے دروازہ بند کردیتا، اور مجھے اس وقت تک مارتا جب تک کہ وہ مار مار کر خود نہ تھک جاتا۔ غسل خانہ مار کا یہ نقصان تھا کہ اس میں کہیں کوئی چھپنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، اگر الماری کے پیچھے چھپتا تو وہاں سے پکڑا جاتا، ٹوائلٹ کے پیچھے، یہاں تک کے شاور کے ساتھ لٹکنے کی کوشش بھی بیکار جاتی۔ تو یہ غسل خانہ مار تب پڑتی جب مجھ سے کوئی نقصان یا غلطی ہوجاتی۔
پہلی کلاس میں مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا، میں بالکل بھی پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔اور اس بات کی مجھے حد سے زیادہ شرمندگی تھی۔ ہمارے سکول میں ان دنوں بچوں کو پڑھنا سکھانے کا جو طریقہ تھا وہ اس طرح تھا کہ ضلعی سطح پر ایک ماہر استانی ہر دوسری جمعرات کو سکول بلائی جاتی اور سارے فرسٹ گریڈ کے بچے جنھیں پڑھنا نہیں آتا تھا ان کو کلاس میں باہر نکال سامنے کھڑا کیا جاتا اور ساری کلاس کے سامنے بہ آواز بلند پڑھنے کا کہا جاتا۔ میرے لئے یہ اس قدر ذلت آمیز اور شرمناک ہوتا تھا کہ میں ہر دوسری جمعرات کو ’’مس ڈونووین‘‘ (ریڈنگ سپیشلسٹ) کے آنے سے پہلے لڑکوں کے واش روم جاتا اور اپنی نظر کی عینک اتارتا اور اس کو اتنے زور سے مروڑتا کہ وہ ٹوٹ جائے ، یا ایک شیشہ توڑ لیتا یا ویسے شیشہ باہر نکال لیتا۔ جب مس ڈونو وین آتی تو میں اس کے پاس جا کر اپنے ٹوٹی ہوئی عینک دکھا کر کہتا کہ ’’ مس ڈونووین! میں آج نہیں پڑھ سکوں گا کیونکہ میری عینک ٹوٹ گئی ہے۔ اور میں نے ایسا ہر جمعرات پورا ایک سال کیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ جب میں گھر جاؤں گا تو میرا باپ میری ٹوٹی ہوئی عینک دیکھ کر مجھے غسل خانہ مار مارے گا۔
ان دو کہانیوں کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی بچہ شرمندگی سے بچنے کے لئے بہت مشکلات سے گزر رہا ہوگا، بہانوں کی دیوار کے پیچھے یا ڈھٹائی کا لبادہ اوڑھ کر۔ اس پر اعتبار کرکے اسے اعتبار دے کر اس کی زندگی کو آسان کردیں۔ پڑھنا نہ آنا کوئی ایسا جرم نہیں کہ زندگی سزا بنادی جائے، ہاں! محبت اور توجہ سے بغیر شرمندگی کے چابک مارے ذلیل کئے پڑھنا سکھایا جاسکتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچے بد تمیز، لڑاکا، شرارتی کہلوانا پسند کر لیتے ہیں لیکن نالائق کہلوانا ان کے لئے زیادہ شرمناک ہوتا ہے۔ ان کی شرارتوں، آوارہ گردیوں، بے جا لڑائی جھگڑے اور ڈھٹائی والے رویے کے پیچھے پڑھنے میں مشکل پیش آنا بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘
[email protected]