دہائیوں سے ذیابیطس کے بیشتر مریضوں کو دن بھر میں اپنے بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے انسولین کے انجیکشن استعمال کرنا پڑتے ہیں۔
مگر مستقبل قریب میں ایک گولی انجیکشن کی ضرورت کو ختم کردے گی۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
برگھم اینڈ ویمن ہاسپٹل اور میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کی مشترکہ تحقیق میں ایسا کیپسول جس میں ایک ننھی سوئی موجود ہوگی جو کہ مکمل طور پر منجمد خشک انسولین پر مشتمل ہوگی اور معدے میں جاکر جب وہ پانی پگھلے گا تو اس میں ایک اسپرنگ حرکت میں آئے گا جو کہ سوئی کو معدے میں انسولین لگانے میں مدد دے گا۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار بہت آسان اور روایتی انجیکشن کے مقابلے میں کم قیمت ہوگا۔
ذیابیطس کے مرض میں لبلبہ انسولین بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے یا ناکافی مقدار بناتا ہے، یہ وہ ہارمون ہے جو کہ دوران خون میں موجود خلیات سے گلوکوز کی سطح کم کرتا ہے۔
اگر علاج نہ کرایا جائے تو ذیابیطس سنگین طبی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے جیسے گردوں کو نقصان، بینائی متاثر ہونا، امراض قلب اور فالج وغیرہ۔
اب اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معدہ جسم کا وہ حصہ ہے جو کہ انجیکشن کے حوالے سے زیادہ قوت برداشت رکھتا ہے اور غذائی نالی میں تیز دھار چیز کے حوالے سے برداشت بہت زیادہ ہے۔
محققین نے اس حوالے سے ایسے کیپسول تیار کیے جو کہ مٹر کے دانے کے حجم کے تھے جو کہ گھل جانے والے پولیمر سے بنتے ہیں اور ان میں معمولی مقدار میں اسٹیل ہوتا ہے۔
اس میں ننھی سوئی کو استعمال کرنے کے لیے ایک شوگر ڈسک کی مدد لی گئی جو کہ اسپرنگ سے جڑی ہوتی ہے۔
جب مریض کیپسول نگلتا ہے تو شوگر ڈسک گھل کر اسپرنگ کو حرکت میں لاتی ہے۔
اس حوالے سے تحقیقی ٹیم نے جانوروں پر ابتدائی تجربات کیے اور 300 مائیکرو گرام انسولین جسم کا حصہ بنانے میں کامیاب رہے۔
حالیہ تجربات میں اس مقدار میں 5 ملی گرام کا اضافہ کردیا گیا اور یہ مقدار اتنی زیادہ ہوگئی جو کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریض عام طور پر انجیکٹ کرتے ہیں۔
اب محققین ایک کمپنی کے ساتھ مل کر انسانوں پر تجربات کے لیے گولی کی تیاری میں مصروف ہیں اور اگلے 3 سال میں تجربات کے لیے پرامید ہیں۔