آدھی بیوی،آدھی بیوہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برِ صغیر جنوب ایشیا کی آزادی کے نصف صدی گزر جانے باوجود ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان ابھی تک آزادی کے لئے تڑپ رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی مختلف مراحل میں مختلف انداز اور حکمت ِ عملی کے ساتھ چل رہی ہے، بھارت کے ظلم و ستم نے کشمیریوں کی زندگی میں زہر بھر دیا ہے، عسکری جد وجہد کے دوران بھی اور آج بھی سب سے زیادہ وہاں کی خواتین اور بچے متاثر ہو رہے ہیں۔

جنوری 1989 سے اب تک93712 سے زائدمرد شہید ہو چکے ہیں، جن میں6989 افراد کو زیر ِ حراست قتل گیا گیا ہے، 119727لوگ گرفتار کئے جا چکے ہیں،22727 خواتین بیوہ ہو چکی ہیں اور434107 بچے یتیم ہو چکے ہیں، دس ہزار سے زائد خواتین کی عزت پامال کی جاچکی ہے ۔

درحقیقت تحریک ِ آزادی کو کچلنے کے لئے بھارت نے خواتین پر ظلم و ستم کو حربے اور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، انہیں مردوں کے سامنے ٹارچر کیا جاتا، ان کی عصمت دری کی جاتی، تاکہ کشمیری مرد مجبور ہو کر خاموش ہو جائیں، لیکن خواتین کے عزم کو داد دینا پڑتی ہے کہ ان حالات میں بھی وہ سینہ سپر رہیں، اور مردوں کو جہاد پر آمادہ کرتی رہیں، اور ان میں کمزوری اور اضمحلال پیدا نہ ہونے دیا۔

اگرچہ آج مقبوضہ کشمیر کی خاتون مصائب کا شکار ہے، طویل غلامی نے اس پر اپنے اثرات ڈالے ہیں، گھر کے سربراہ یا کمانے والے فرد کے متاثر ہونے سے پورا گھرانا مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے، اور سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں، حالیہ رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ مقبوضہ علاقے کے باشندے ان پریشانیوں سے ذہنی دبائو کا شکار ہو رہے ہیں، اور خواتین سب سے زیادہ ذہنی امراض کا شکار ہو رہی ہیں، ان حالات میں تمام آبادی کا مستقبل غیر یقینی ہو چکا ہے۔

ان حالات میں کشمیری سول سوسائٹی نے کشمیری عورت کے مسائل کو مہم کے طور پر اجاگر کرنا شروع کیا ہے، ایسی ہی ایک کوشش ”ہاف ویڈو، ہاف وائف“ رپورٹ میں کی گئی ہے، یہ ایک ایسی رپورٹ ہے جو کشمیر کی بیوائوں، کنواریوں اور شادی شدہ خواتین کے مسائل پر بات کرتی ہے، اس رپورٹ میں عمومی خواتین سے رائے لی گئی ہے اور کسی بھی مقامی، قومی یا بین الاقوامی شہرت کے سیاست دان سے رائے نہیں لی گئی۔

یہ رپورٹ ”ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز“ نے مرتب کی ہے، جو ”جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی“ کا ممبر ہے، ہارورڈ یونیورسٹی فیلو نے اس کی تیاری میں خصوصی مدد دی ہے اس میں ”ہاف ویڈو، ہاف وائف“ کی اصطلاح ان خواتین کے لئے استعمال کی گئی ہے، جن کے شوہر خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لا پتہ ہو چکے ہیں، اور ابھی تک ان کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

لا پتہ کشمیریوں کی مائیں، بہنیں اور بیویاں ایک غیر سیاسی تنظیم ”اے پی ڈی پی“ کے تحت منظم ہو رہی ہیں، تاکہ امن اور انصاف کے لئے جدو جہد کر سکیںاس تنظیم نے مقبوضہ کشمیر میں کئی مقامات پر اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی ہے، اسی طرح کئی گمنام قبروں بھی نشان زد کی ہیں، یہ تنظیم اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتی ہے، اور وہ خواتین جو شوہروں کی گمشدگی کے برسہا برس گزرنے کے بعد بھی انکی پنشن حاصل نہیں کر سکتیں کیوںکہ وہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پیش نہیں کر سکتیں کے معاملات عدالتوں میں اٹھائے ہیں، اسی طرح ایسی خواتین کی دوبارہ شادی یا معاش کے مسائل حل کرنے کی جانب بھی توجہ دی ہے۔

رپورٹ میں مختلف خواتین کے حالات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ان میں سے چند پیش ِ خدمت ہیں:
”سری نگر کی زارا نے بتایا کہ نومبر ۰۱۰۲ءمیں وہ شوہر کی گمشدگی کے آٹھ برس انتظار کے بعد پولیس سٹیشن جا پہنچی، اور فریاد کی کہ اسے صرف ایک مرتبہ اسکے شوہر سے ملا دیا جائے، اگر وہ زندہ ہے تو صرف اسے دکھا ہی دیں ۔۔ اور اگر وہ مر چکا ہے تو اسکی قبر کا پتہ ہی بتا دیں، میں جب بھی کسی پولیس سٹیشن گئی یا فوج کے اہلکار کے پاس، اس نے میری جانب بھوکی نگاہوں سے دیکھا، گویا میں اسکے لئے تر نوالہ ہوں، یا شاید میں اسے یہ بتانے آئی ہوں کہ میرا شوہر لاپتہ ہے، اور اس بات کو آٹھ برس بیت چکے ہیں! آئی جی پولیس کا رویہ مشفقانہ تھا، وہ بولا کل اسکے کپڑے لے آنا ملاقات کروا دوں گا، اور اس کل کے آنے میں بھی پورا سال بیت گیا، اور جب میں نے اسے یاد دلایا تو وہ دھاڑ کر بولا:
”میں اسے کہاں سے لائوں، آسمان سے؟؟“

سری نگر کے ایک اور لاپتا شخص کی نیم بیوہ ”زینہ“ بتاتی ہے کہ ”میں نے اپنی تقریبا تمام بچتیں اپنے لاپتہ شوہر کو ڈھونڈنے میں لگا دیں، ہمیں دلاسے دینے والے ایک شخص نے آدھی رات کو ہمارے گھر کے چکر لگانے شروع کر دیے، وہ اصرار کرتا کہ وہ میری سولہ سالہ بیٹی سے بات کرے گا، تبھی میں نے قبول کر لیا کہ اب اس معاملہ کا باب بند ہو گیا ہے، میں شوہر کے بعد بیٹی کو کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی“

پالھالن کی روبینہ اپنے شوہر کی گمشدگی کے بعد اپنی مشکلات کے حل کے لئے کیا چاہتی ہے:
”ہر کوئی ہماری داستان سننے آجاتا ہے، میں نے آٹھ برس قبل شوہر کے کھو جانے پر ان بیٹیوں کی پرورش کی، اب مجھے پرسہ نہیں ان بیٹیوں کے لئے ملازمت چاہیے، میں نے تنہا ہو کر بھی اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تاکہ وہ کما کر کھائیں، ہمیں بھیک نہیں ملازمت چاہیے“

سرینگر ہی سے گل کہتی ہیں:
سری نگر کی سڑکوں پر آپکو برقع پہنے بھیک مانگتی خواتین نظر آئیں گی، انہوں نے مذہب کی خاطر برقع نہیں پہنا، ان میں سے کتنی ہی نیم بیوہ خواتین ہیںجو پہچانے جانے کے خوف سے برقع پہن کر نکلتی ہیں، وہ مجبور ہیں، مانگیں نہ تو بچوں کی کفالت کیسے کریں؟؟کتنی ہی خواتین کو سسرال کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں کہ انکی نحوست کی وجہ سے انکا بیٹا کھو گیا۔

لولاب، کپواڑہ کی ثمینہ کہتی ہے کہ میں سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگتی ہوں اور شام کو پڑوس میں برتن دھوتی ہوں، تب کہیں اس قابل ہوتی ہوں کہ کرایہءمکان ادا کر سکوں، میں نے اپنے مالک مکان تک کو نہیں بتایا کہ میرا شوہر لاپتہ ہے، میں یہی کہتی ہوں کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں جموں گیا ہوا ہے۔

مجبور خواتین کے لئے ریلیف فنڈ کا بھی اہتمام ہے مگر جب زارا فنڈ لینے گئی تو ڈی سی آفیسر نے اسکی قیمت لگانے کی کوشش کی، زارا فائل اسی کے منہ پر مار کر بھاگ آئی
سروں کی چادر چھن جانے کے بعد گھر بسانا بھی ایک مشکل امر ہے، اوڑی کی سلمی خوش قسمت تھی کہ اسے دوبارہ ایک نیک شوہر مل گیا اور کپواڑہ کی روبینہ کی ساس اسکی جوانی سے اس قدر خوفزدہ ہوئیں اپنے بارہ برس کے بیٹے سے نکاح ثانی کی پیش کش کرنے لگیں
اس خوف کی فضا نے معصوم بچوں سے انکا بچپن چھین لیا ہے، دروازے پر اجنبی دستک سنتے ہی وہ بستر میں چھپ جاتے ہیں، جب نا معلوم ہاتھ انکے باپ کو چھین کر لے گئے تو انہیں بھی تو لے جا سکتے ہیں۔

ایک بیٹی افروزہ بتاتی ہے کہ کتنے برس بیت گئے میری ماں نہیں سوئی، رات کو جب بھی میری آنکھ کھلے ، وہ جاگ رہی ہوتی ہے، میری بہن کا بھی یہی مشاہدہ ہے، اور صبح سویرے وہ ناشتا بنانے میں مصروف ہو جاتی ہے، شاید وہ نہیں چاہتی کہ ہمیں ان کے رت جگے کا علم ہو۔

جن بچوں کے باپ چھن جائیں کونسا بچپن انکے پاس رہ جاتا ہے؟ جن کی لاشیں مل جائیں انکے بال بچے پنشن تو پاتے ہیں مگر نیم بیوائیں ڈیتھ سرٹیفکیٹ پیش نہ کر سکنے کے سبب اس سے بھی محروم رہتی ہیں
یہ مقبوضہ کشمیر میں آج کی خاتون کی حالات ِ زار کا ہلکا سا عکس ہے

دوم۔ خواتین کا مستقبل:
مقبوضہ کشمیر میں طوق ِ غلامی سے نجات پانے کے لئے مرد سر پر کفن باندھ کر نکلے، تو خواتین بھی ہر مرحلے میں ساتھ رہیں، بلکہ اس کے سب سے بڑھ کر اثرات بھی انہیں پر پڑے، اس جدو جہد میں خواتین کبھی بھی مردوں کے پائوں کی زنجیر نہیں بنیں، اس تحریک کی کامیابی کا دارومدار بھی انہیں پر ہے، اگر انہوں نے ہمت ہار دی تو اس کے اثرات صرف انہیں کے گھر پر نہیں پڑیں گے بلکہ تحریک کمزور ہو گی۔

اسی وجہ سے غاصب دشمن نے ان خواتین کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، انہیں ایذا دی گئی، گھر کے مردوں کی آنکھوں کے سامنے انکی بے حرمتی کی گئی تاکہ مرد کمزور پڑ جائیں، مگر داد دینی پڑے کی کہ کشمیر کی خواتین نے ظلم تو سہا مگر مردوں کو آمادہ کیا کہ وہ جدوجہد جاری رکھیں، اور ہماری قربانیوں پر کسی کمزوری اور اضمحلال کو اپنی صفوں میں نہ آنے دیں ہم بلا خوف ِتردید کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مستقبل شاندار ہے، ہماری نسل ایسی ماو ¿ں کے ہاتھ میں ہے جو پر عزم مائیں ہیں۔

آج سیاسی جدو جہد کے دور میں نہتے کشمیری اپنے حقوق کے حصول کے لئے سڑکوں پر ہیں، مصر اور لیبیا اور یمن میں لوگوں کے سڑکوں پر آنے سے دو برس قبل کشمیری سڑکوں پر پر امن مظاہرے کے لئے نکل آئے تھے تحریک ِ آزادی کو بظاہر کچل دینے کے بعد آج پوری قوم کھڑی ہے، سیاسی محاذ پر سید علی گیلانی کھڑے ہےں تو داخلی محاذ پر خواتین سرگرم ہیں، اور اعلان کر رہی ہیں کہ مستقبل ہمارا ہی ہے، بالآخر ظلم کی نیا ڈوب جائے گی
سوم۔ امت مسلمہ کیا کردار ادا کرے؟

مقبوضہ کشمیر میں خواتین مسائل اور مصائب کا شکار ہیں، سب سے بڑا مسئلہ شہدائ، زخمیوں، معذوروں اور لاپتہ افراد کی کثرت نے معاشرے کے توازن کو بگاڑ دیا ہے، مقبوضہ کشمیر کی خواتین نے اپنی مدد آپ کے تحت مسائل کے حل کی کوشش شروع کی ہے، کئی سوشل ورکر اور این جی اوز بھی میدان میں اتری ہیں بھارتی صحافی مس چیترجی اور ارندھتی رائے اور کئی دوسرے صحافی مقبوضہ کشمیر پہنچے اور وہاں کے مسائل اور لوگوں کی آواز دنیا کے کانوں کو سنوائی، ارندھتی رائے نے غیر مسلم ہونے کے باوجود اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی، اور کشمیری عوام اور کشمیری خواتین کا کیس اٹھایا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا میں عورت کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین، کشمیری خواتین کے دکھ اور الم کا احساس کریں، دنیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر انکو حقوق دلانے کی کوشش کریں، ”او آئی سی“ میں ان کے لئے بات کی جائے، اسی طرح آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا کی دیگر مسلمان خواتین کو بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات جاننے کے لئے مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے، جہاں وہ ان خواتین سے بالمشافہ طور پر انکے مسائل سنیں اور انہیں حل کرنے کے لئے کوشش کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں