پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سنہ 2017 میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
تحریکِ لبیک نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم کے خلاف نومبر 2017 میں دھرنا دیا تھا جس کا اختتام وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد ہوا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج جاری کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو کسی دوسرے کے خلاف فتوی دیتا ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچے یا اس کی راہ میں رکاوٹ آئے، اس کے خلاف انسداد دہشت گردی یا سائبر کرائم کے قوانین کے تحت مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔
فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ ’احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق اس وقت تک تسلیم کیا جانا چاہیے جب تک اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔‘
عدالت نے آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا ہے کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے‘۔
یاد رہے کہ فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے فوج کے کردار پر اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت عدالت نے کہا تھا کہ فیض آباد دھرنے میں آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر جنرل فیض حمید نے کیسے معاہدہ کر لیا؟
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہا گیا ہے کہ’تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے‘۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ نجی ٹی وی چینلز جن میں ڈان اور جیو شامل ہیں اور جو کہ لائسنس یافتہ چینلز ہیں، کی نشریات کو چھاؤنی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے علاقوں میں بند کر دیا گیا لیکن پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اصغر خان کیس فیصلے کے بعد مسلح افواج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سیاسی مداخلت کا معاملہ رک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
ریمارکس دیتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ وردی میں ملبوس اہلکاروں نے فیض آباد دھرنے کے شرکا میں رقوم تقسیم کیں اور یہ کوئی اچھا منظر نہیں ہے۔
نامہ نگار کے مطابق عدالت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے بھی ’اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات پر رائے زنی کی‘۔
اس فیصلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس سیاسی بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات غیر جانبدارانہ تھے۔
واضح رہے کہ متعدد سیاسی جماعتوں نے گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلح افواج، فوج کے خفیہ اداروں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کام کرنے والے افسران اور اہلکاروں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کر رہی ہیں۔
عدالت نے آئی ایس آئی کی اس رپورٹ کو بھی اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے جو وزارت دفاع کے حکام نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات نے بھی فیض آباد دھرنے کی حمایت کی اور ان شخصیات میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے شیخ حمید اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا علما ونگ بھی شامل ہے۔
اس عدالتی فیصلے میں مقامی نجی ٹی وی چینل 92 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس چینل کے ذمہ داران فیض آباد دھرنے کے شرکا کو کھانا فراہم کرتے تھے۔ فیصلے میں پیمرا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اُنھوں نے مذکورہ چینل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
عدالت کا کہنا تھا ’ہر شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے لیکن ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو اپنے ذرائع آمدن کے بارے میں بتائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ ایسی جماعتوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔‘
فیصلے میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت تحریک لبیک کے ذرائع آمدن کا پتہ لگانا اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل سے جب ان قوانین اور قواعد و ضوابط کے بارے میں پوچھا جس کے مطابق آئی ایس ائی کام کرتی ہے تو اس بارے میں اٹارنی جنرل کی طرف سے ایک بند لفافہ عدالت میں پیش کیا گیا اور ساتھ یہ بھی استدعا کی گئی کہ آئی ایس آئی کے دائرہ اختیار کو پبلک نہ کیا جائے۔
عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی حکم دیا کہ نفرت، شدت پسندی اور نفرت کو ہوا دینے والوں کی نگرانی کریں اور قصور واروں کو قانون کے مطابق سزا دیں۔
عدالت نے خفیہ اداروں سے بھی کہا کہ وہ ایسے ان افراد کی نگرانی کریں جو سکیورٹی ہاتھ میں لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں۔
عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ ایسی نشریات اداروں کے خلاف بھی پیمرا کارروائی کرے جو کسی بھی حملے کی ترغیب دینے والاپیغام نشر کرے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے دھرنے کا آغاز نومبر 2017 کے اوائل میں ہوا تھا۔
یہ دھرنا انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے معاملے پر متنازع ترمیم کے خلاف دیا گیا تھا اور تقریباً تین ہفتے تک جاری رہا تھا جس سے دارالحکومت میں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا تھا۔
حکومت نے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور عدالتِ عالیہ کے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد مظاہرین کے خلاف آپریشن بھی کیا تھا، جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے تاہم دھرنا جاری رہا تھا۔
بعدازاں 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت دھرنے کے شرکا کے مطالبات تسلیم کر لیے تھے اور یہ دھرنا اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔