ابومحمد مصعب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دوست نے 5 فروری، یوم یکجہتی کشمیر کی چھٹی ختم کرنے کی بات کی ہے جس پر کچھ یوں عرض کیا:
پھر تو 14 اگست کی چھٹی بھی ختم کر دینی چاہئیے اور قائداعظم کے فرمان “کام، کام اور کام” پر عمل کرنا چاہئیے۔ 😊
اسی طرح یومِ دفاع، جس پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اسے بھی ختم ہو جانا چاہئیے۔
مسلمانوں کے ہاں جذبات نامی پروڈکٹ کی واقعی بڑی مانگ ہے، لیکن ذرا سوچیئے کہ یہ سب کیوں ہوا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ اچانک اور یکایک ہوا ہے؟
اگر کوئی تھوڑا سا غور و فکر کرے تو اندازہ ہوگا کہ جب حکمران اپنے حصے کا کام نہ کریں بلکہ استعمار کے ایجنڈے کی تکمیل میں لگ جائیں۔ جب وہ اپنے عوام کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، بڑی طاقتوں کی غلامی میں دے دیں تو عوام کو کم از کم اتنا حق تو ملنا چاہئیے کہ وہ روئیں دھوئیں، چیخیں چلائیں۔ عمل تو کب کا چھوٹ چکا، اب احساس کو بھی کفنانے دفنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
پانچ فروری کو یوم کشمیر پر بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ پوری قوم اور خاص کر کے نوجوان نسل کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔ ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے بڑے جلسے اور پرامن مظاہرے ہوتے ہیں جن میں کشمیر کے مسئلے پر عوام کو آگاہی دی جاتی ہے۔ بھارت، جس نے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں، کو پتہ چلتا ہے کہ کشمیر کا کانٹا نگلنا اتنا آسان نہیں۔
کشمیر کے عوام کو ایک میسج جاتا ہے کہ آپ حوصلہ رکھیں، آپ تنہا نہیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہیں۔ عالمی فورمز پر اور اقوام متحدہ جیسے اداروں پر ہماری حکومت کو بات کرنا آسان رہتی ہے کہ یہ مسئلہ پہلے ہی ان کے علم میں ہوتا ہے۔
یوم یکجہتی کشمیر پر یہی کچھ ہوتا ہے، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا تو کبھی نہیں سنا۔
سچ یہ ہے کہ یوم کشمیر ہمارے اندر بحیثیت قوم، اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد و نصرت، ان کی تائید و اشک شوئی سکھاتا ہے۔ یہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات کو جِلا بخشتا ہے۔
اگر ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پھر ہمارے اور پیٹ پوجا کے لیے جینے والے حیوانِ ناطق کے درمیان کیا فرق باقی رہا گیا؟