حزیفہ رحمان۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیراعظم نوازشریف گرمجوشی سے جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کا استقبال کررہے تھے،جبکہ چیئرمین نیب چوہدری قمر الزمان ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔پی اے ایس آفیسر چوہدری قمر الزمان کے ڈرائیونگ روم میں لگی یہ تصویر تقریباََ بیس سال پرانی معلوم ہورہی تھی۔
یہ شاید اس وقت کی تصویر تھی جب چوہدری قمرالزمان چیف کمشنر اسلام آباد تھے اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ عظیم نیلسن منڈیلا کو اسلام آباد آمد پر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ابھی تصویر کا بغور مشاہدہ کرہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک جانی پہچانی آواز نے مڑنے پر مجبور کردیا ۔
دیکھا تو نوازشریف کے داماد کیپٹن(ر) صفدر ،سعید مہدی،پرویز راٹھور ،میاں ناصر جنجوعہ اور چوہدری مشاہد رضا کے ہمراہ ڈرائیونگ روم میں داخل ہوچکے تھے۔یہ سب دوست سابق چیئر مین نیب چوہدری قمر الزمان کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے لئے جمع ہوئے تھے ۔
مجھے تصویر میں محو دیکھ کر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما چوہدری مشاہد رضا چیلانوالہ کہنے لگے کہ نوازشریف بھی نیلسن منڈیلا کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں لوٹیں گے۔چوہدری مشاہد رضا کی بات سن کر ڈرائنگ روم میں سیاسی بحث شروع ہوگئی۔نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی سے استفسار کیا کہ آپکی کتاب کہاں تک پہنچی؟
وہ روایتی انداز میں کہنے لگے کہ کتاب تو مکمل ہوگئی ہے مگر ابھی اسے چھاپنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔کیونکہ ابھی سابق وزیراعظم نوازشریف آزمائش میں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کتاب میں بیان کئے گئے کسی واقعے سے تاثر جائے کہ مشکل وقت میں دوستوں پر تنقید کی ہے۔بہر حال بیوروکریسی اور سیاست کے بڑے بڑے نام چوہدری قمر الزمان کے آنگن میں موجود تھے اور سب اس بات سے متفق تھے کہ نوازشریف کی سیاست ختم نہیں ہوئی بلکہ نوازشریف کی اصل سیاست شروع ہی جولائی 2018کے بعد ہوئی ہے۔
آج سابق وزیراعظم نوازشریف جیل میں قید ہیں اور انتہائی علیل ہیں۔اللہ ان کو صحت دے۔شاید آئندہ ہفتے کے دوران ان کی ضمانت ہوجائے ۔مگر سول سروس اور سیاست کے زرخیز دماغ سمجھتے ہیںکہ رائیونڈ میں بیٹھا ہوا نوازشریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے نوازشریف سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوگا۔
پنجاب کی سیاست کے ماہر سمجھے جانے والے نوازشریف رائیونڈ میں بیٹھ کر جب چاہے پنجاب میں اقتدار کا مرکز تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نوازشریف بہت مضبوط اعصاب کا مالک انسان ہے۔سابق ایڈیشنل آئی جی پرویز راٹھور واقعہ سناتے ہیں کہ 2009میں جب پنجاب میں گورنر راج لگااور پوری مسلم لیگ ن پریشان تھی۔نوازشریف کی اگلے روزشہباز شریف سے رائیونڈ میں ملاقات ہوئی تو نوازشریف انتہائی اطمینان سے کہنے لگے کہ “شہباز فکر نی کرنی ،بس تسی ٹیک اوور کرن دی تیاری کرو”۔مگر کچھ غلطیاں اور چند ناعاقبت اندیش مشیران کے غلط مشورے نوازشریف کے لئے آزمائشی حالات پیدا کرتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں جن لوگوں نے نوازشریف اور راولپنڈی کے درمیان معاملات کو ڈیل کیا ،وہ سب سے بڑے قصور وار ہیں۔ایسے لوگ غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور معاملات کو بند گلی کی طرف لے جاتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ شریف خاندان کے درمیان دراڑ پیدا کردی جائے۔شہباز شریف کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرکے دونوں بھائیوں کے درمیان فاصلے پیدا کئے جائیں۔جان بوجھ کر خود کو راولپنڈی کے قریب ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور ایسی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ،جس سے یہ تاثر شدت اختیار کرجائے کہ شاید شہباز شریف اور ان کے بچے اپنے تایا جان کی سوچ کے خلاف چل رہے ہیں۔نوازشریف کے ساتھ شہباز شریف سے زیادہ مخلص کوئی نہیں ہوسکتا۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن میں صرف ایک ہی لیڈر ہے ،جس کا نام نوازشریف ہے اور نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہی ہے۔کیونکہ لیڈر کا متبادل ہمیشہ اس کا نظریہ ہوتا ہے۔
نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔اگر نوازشریف ہارا تو مسلم لیگ ن کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔نوازشریف کی بقا میں ہی مسلم لیگ ن کی بقاہے۔اکثر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اقتدار کے آخری سال میں نوازشریف نے بعض اداروں سے متعلق اہم معاملات شہباز شریف کے بجائے ایک وفاقی وزیر،ایک مشیر اور ایک عزیز بزنس مین کے سپرد کئے۔یہی لوگ معاملات میں گارینٹر تھے اور سب کچھ ٹھیک ہونے کی اطلاع دیتے تھے۔
ٹوئٹ کی واپسی،ڈرافٹ کیا ہونا چاہئے،حساس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی اور پھر ڈان لیکس تک ۔سب کچھ یہی لوگ ڈیل کرتے رہے اور جب معاملات خراب ہوئے تو ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ یہی تنقید کی جاتی ہے کہ میاں صاحب کے انہی فیصلوں کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔مگر میری رائے ہے کہ پارٹی نوازشریف کی ہے،سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر نوازشریف ہے۔اگر کچھ غلط فیصلے ہوئے بھی ہیں تو ان کے ردعمل کا سامنا بھی تو نوازشریف ہی کررہا ہے۔
مگر نوازشریف کو تصویر کا دوسرا رخ بھی ضرو ر دیکھنا چاہئےاور یہ سوچنا چائیے کہ کچھ معاملات بہت حساس ہوتے ہیں۔اس کو ڈیل کرنے کے لئے ایسا شخص ہونا چاہئے،جو نہ صرف میاں نوازشریف سے مخلص ہو بلکہ اچھے برے وقت میں کرائے گئے فیصلوں پر پہرہ دے سکے۔دونوں فریقین کے درمیان برف کو پگھلائے ،کیونکہ قدر ت کا اصول ہے کہ بڑا آدمی کبھی بھی معاملات کو براہ راست خود ڈیل نہیں کرسکتا۔اسے درمیان میں negotiatorکی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ معاملات میں کسی بھی موڑ پر ڈیڈ لاک پیدا نہ ہو۔سابق وزیراعظم نوازشریف کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ دانشمندی اور حکمت کا مظاہرہ کرکے آزمائشوں کو کم کیا جاسکتا ہے ،وگرنہ نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔