ھنادی ایمان۔۔۔۔۔۔۔
اب کوئی اس فیملی کے سٹائل دیکھے جس نے اپنی کم عمر گھریلو ملازمہ کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا۔۔
کوئی ان خواتین کے فیشن دیکھے ،
اور پھر کرتوت دیکھے ۔
اس خاندان میں رہتے ہوئے یہ بد حال لڑکی ملازمہ عظمیٰ اس لئیے قتل ہوئی کہ اس نے ایک نوالہ مالک کی بیٹی کی پلیٹ سے کھایا، ملازمہ کے سر میں ضرب لگائی گئی ،
کرنٹ لگایا،
مردہ حالت میں گٹر میں پھینک دیا گیا ۔۔
اور کہانی ختم !! ایک پہلو تو یہ ہے ۔۔
یہ ہے ظاہر داری ، یہ ہے دنیا داری ،
یہ ایسے انداز اور ادائیں دکھانا سرِ عام ۔۔
انہی اداؤں اور ظاہری چیزوں کو دیکھ
کر ہماری اکثریت متاثر ہوتی ہے ۔۔
اور صحیح کہا گیا کہ چہرے نقاب ہوتے ہیں
اور اس کے چہرے کےپیچھے اصلی چہرہ ہوتا ہے ۔۔
اور وہ اصلی چہرہ دراصل
آپ کی وہ اخلاقی حالت ہوتی ہے
جو دنیا کو نظروں سے اوجھل ہوتی ہے ۔۔
لیکن آپ کے قریب کے لوگوں پر عیاں ہوتی ہے ۔۔
پھر بھی ہم زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہیں تو کسی کے ظاہر داری دیکھ کر ۔۔
۔۔ کسی کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں تو یہے دنیا داری دیکھ کر ۔۔
اور حتی کہ کسی سے متاثر
بھی اس کی یہی ظاہرداری دیکھ کر ہوتے ہیں۔۔
نتیجہ ۔۔؟ فائدہ ؟
کوئی کمی بظاہر نظر نہیں آ رہی ۔۔
اتنی سٹائلو ں سے سیلفیاں بنانے والی خواتین میں ۔۔
بظاہر حسین بھی بہت ہیں، بے عیب چہرے ، میک اپ سے مزین۔۔
لمبے سنورنے بال ۔۔ شکن سے پاک لباس ۔۔ واہ واہ واہ ۔
۔ یہ بچی ہیں اخلاقیات اور قدریں۔
اس واقعے کا ایک دوسرا پہلو بھی غور طلب ہے ۔۔
درست کہا گیا کہ قوم اپنے حاکموں کے مذہب پر ہوتی ہے۔۔تاریخ گواہ ہے کہ جب حجاج بن یوسف اقتدار میں تھا تو لوگ روز صبح یہی پوچھتے تھے کہ آج کس کو پھانسی ہوئی، کس کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، کس کی پشت ہر کوڑے لگے ؟؟
اور جب عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا تو لوگ یہ پوچھا کرتے تھے ،، کس نے کتنا قرآن یاد کیا ، کس کی رات شب بیداری میں گزری اور کس نے ذکر کی کتنی منزلیں طے کرلیں۔ انفاق کیسے کیسے ہو ؟؟
فلاں نرم مزاج رحم دل ہے ۔۔
بے کسوں کا سہارا کون بنا ؟؟
اب اس دور کا ریاستی میڈیا ہی دیکھ لیں ، تذکرے عیاشی اور عیاشوں کے۔۔سٹیٹس ، اور سٹیٹس سمبل کیسے بنناُ ہے؟ سٹیٹس کیا ہے ،؟ سٹیٹس کو۔ میں کون کون ہے ؟
کیسے بننا ہے ۔۔ ریاستی میڈیا بھی یہی دکھاتا ۔۔ ریاستی میڈیا پر یہی کچھ ہے ۔۔ پھر لوگوں میں بھی یہی کچھ ہے ۔۔
تعلیم سے نابلد میڈیا ۔۔ تعلیم سے نا آشنا لوگ ۔۔
اخلاقیات سے بے بہرہ میڈیا ۔۔اخلاقیات سے عاری لوگ
اب اس دور میں اپنے اہل اقتدار کا چہرہ ان واقعات میں دیکھیں۔۔
آئے روز تذکرہ لڑکیوں کی عصمت دری کا، ۔
تذکرے لڑکوں کے
جبری اغوا کے،
لڑکیوں کا اغوا ۔۔
بچوں پر ظلم ، کمزور ترین طبقے کا ظلم پر سکوت ،
خوف اور دہشت زدگی ۔۔
اٹھائی گیری سر عام ۔۔تذکرے ٹارگٹ کلنگ کے۔ ،
بے گناہ پر ظلم ۔۔
تذکرے حق تلفیوں کے۔۔تذکرے انصاف کی عدم فراہمی ۔۔ عبادات میں سہولت کے بجائے رکاوٹ۔۔
یہ ہے جو اس طرز حکمرانی اور ریاست کا چہرہ بنتا نظر آتا ہے ۔۔
الحکم للہ