محمد عثمان جامعی
ٹشو پیپر 2 طرح کے ہوتے ہیں، ایک تو ہوتے ہیں نِرے ٹشو پیپر جو ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں اور دوسرے ہیں وہ ٹشو پیپر جو ہر طرح کے ہوتے ہیں بس ٹشو پیپر کی طرح کے نہیں ہوتے۔
یوں سمجھ لیں کہ ہوتے تو وہ کچھ اور ہیں مگر انہیں ٹشو پیپر سمجھ اور بنادیا جاتا ہے۔ چلیے آپ کے لیے بات اور آسان کردیں۔ ہم ’ٹشو پیپر یُگ‘ میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں افراد سے اقوام اور سیاسی جماعتوں سے ٹیکنالوجی کی جدتوں تک سب ٹشوپیپر ہیں، استعمال کیا اور پھینکا۔
کارِ سیاست اور معاملاتِ ریاست تو اکثر چلتے ہی ٹشو پیپر پر ہیں۔ سیاست کے ٹشو پیپروں کا مقدر بیلٹ پیپروں پر منحصر ہوتا ہے، اگر ان کے ٹھپوں والے بیلٹ پیپر بہت ہی کم ہوں تو ان کی کم بختی آجاتی ہے، پھر انہیں انتخابات کی مشقت میں آنے والا پسینہ پونچھ کر پھینک دیا جاتا ہے اور یہ بے چارے پوچھتے ہی رہ جاتے ہیں،’پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو۔‘
جو کچھ ہمیں کہنا ہے یہ اس کی تمہید تھی، جو ذرا طویل ہوگئی۔ خیر تمہید اور کمر بند طویل ہی باندھنا چاہیے۔ ٹشو پیپر کے بارے میں خیالات کا یہ سلسلہ ایک خبر پڑھ کر بندھا۔ اس خبر کے مطابق ایک امریکی کمپنی نے لوگوں کو بیمار کرنے والے ٹشو پیپر بنائے ہیں جن میں چھینکوں اور زکام والے جراثیم شامل ہیں۔ ان کے ایک پیکٹ کی قیمت 80 ڈالر یعنی 11 ہزار پاکستانی روپے ہے۔
لاس اینجلس میں واقع کمپنی کے مطابق ٹشو پیپر کا نام ’وائیو‘ (Vaev) رکھا گیا ہے۔ کمپنی کے مطابق اب تک وہ ٹشو پیپر کے ایک ہزار پیکٹ فروخت کرچکی ہے۔ انہیں سونگھنے والے جلد یا بدیر چھینکتے، کھانستے اور بخار میں مبتلا نظر آئیں گے۔ کمپنی نے اپنی اس ایجاد کی توجیح یہ کی ہے کہ بعض لوگ نفسیاتی طور پر بیمار ہونا چاہتے ہیں اور خود کو لوگوں سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہیں، اسی لیے یہ ٹشو پیپر بنایا گیا ہے تاکہ جب بھی کوئی بیمار ہونا چاہے تو ان ٹشو پیپرز کو خریدے اور ان سے ناک صاف کرتے ہوئے گہرے سانس لے اور پھر بیماری کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوجائے۔
بات تو ٹھیک ہے، زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ اس مصروفیت سے بیماری ہی نجات دلاتی ہے۔ ہم تو خود سوچتے ہیں کہ بیمار ہوکر ’لیٹے‘ رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر بیگم کو پتہ چل گیا کہ حضرت تصورِ جاناں کیے لیٹے ہیں تو ممکن ہے کہ بیماری کا لیٹنا زخموں کے باعث لیٹنے میں بدل جائے۔
بیمار ہونے کی خواہش کے پیچھے صرف فرصت کی فکر ہی کارفرما نہیں ہوتی اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں فراغت کے سوا۔ بعض طلبا اسکول کے ناغے کا بہانہ بیماری میں ڈھونڈتے ہیں، شادی شدہ حضرات سسرال میں ہونے والی کسی شادی کا کارڈ ملتے ہی دعا مانگنے بیٹھ جاتے ہیں کہ عین شادی کی تاریخ پر تو کھانسی کو سینے میں بیدار کردے، ذرا اپنے بندے کو بیمار کردے۔
بیماری کی سب سے زیادہ ضرورت ان سیاست دانوں کو پڑتی ہے جنہیں جیل جانا پڑتا ہے۔ گرفتاری کا دن آتے ہی ان کے دل، جگر، کمر میں کوئی نہ کوئی مرض جاگ اُٹھتا ہے۔ بات یوں ہے کہ سیاست دانوں کے امراض بھی ان کی طرح ملک و قوم کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ جب تک یہ رہنما ملک و قوم کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں، امراض اپنی پہنچ سے انہیں دُور رکھتے ہیں، لیکن جوں ہی بیماری کو پتہ چلتا ہے کہ ’صاحب‘ فارغ ہیں، وہ ان سے کہتی ہے ’مہرباں ہو بُلا لو مجھے چاہے جس وقت‘ یوں فوراً بُلاوا آجاتا ہے اور بیماری آکر سیاست دان کو جیل سے اسپتال لے جاتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ ٹشو پیپر کا دائرہ کار نزلے، زکام، کھانسی اور بخار تک محدود ہے، دل، جگر، کمر اس کے جراثیم کی پہنچ سے دُور ہیں، چنانچہ یہ سیاست دانوں کے لیے ان کے استعمال شدہ ٹشو پیپروں کی طرح بے کار ہے۔
جہاں تک محض فرصت و فراغت کے لیے بیمار پڑنے کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں یہ مشق کارلاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ اِدھر آپ ٹشو پیپر سونگھ کر بیمار پڑیں گے اور فارغ ہوکر بستر پر دراز ہوں گے، اُدھر فیس بُک پر اسٹیٹس دینے کا عارضہ آپ میں عود کر آئے گا۔ بیماری کا اسٹیٹس ڈالتے ہی دعائے خیر کے کمنٹس آنا شروع ہوجائیں گے اور آپ کی فراغت ان کا شکریہ ادا کرنے میں مشغول ہوجائے گی۔ کچھ لمحوں بعد آپ کو واٹس ایپ پر کالیں موصول ہونے لگیں گی۔ بات کا آغاز ’کیا ہوا‘ سے ہوگا، پھر مفید مشورے دیے جانے لگیں گے، دوائیں تجویز کی جائیں گی، ڈاکٹروں، حکیموں اور ہومیوپیتھک کے نام پتے ان سے علاج میں 100 فی صد شفا کی ضمانت کے ساتھ بتائے جانے لگیں گے۔ اس سب سے جان چُھٹے گی تو بیگم ’ڈاکٹر کے پاس چلیے‘ کا حکم صادر کرتی آجائیں گی۔ یوں آپ کا باقی کا دن ڈاکٹر کے کلینک آنے جانے، وہاں انتظار گاہ میں بور ہونے اور ڈاکٹر کی فیس سے دواوں تک پیسے ڈبونے میں صرف ہوجائے گا۔
ہم حیران ہیں کہ امریکی 11 ہزار پاکستانی روپے کی مالیت کے ٹشو پیپروں کا ڈبہ صرف بیمار ہونے کے لیے خرید رہے ہیں! بیماری کی خریداری پر اتنا خرچہ! اتنی رقم تو ہم اپنے علاج پر خرچ نہیں کرتے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کے لیے بیمار پڑنا کتنا مشکل ہے۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کے ذہنی بیمار ہونے پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔
امریکیوں کے مقابلے میں ہم پاکستانی کتنے خوش نصیب ہیں کہ جب بیمار پڑنے کا دل چاہا گلی کے نُکڑ تک گئے اور وہاں پڑے کوڑے کے ڈھیر کے پاس کھڑے ہوکر کچھ دیر گہری سانس لیتے رہے، اُبالنے کے بجائے سیدھا نل کا پانی پی لیا، شہر کی کسی مصروف سڑک پر جاکر دھواں پھیپھڑوں میں بھرلیا اور ایک ٹکا خرچ کیے بغیر بیمار پڑگئے۔ گویا ہمارے ملک میں علاج کے لیے کتنا بھی دُور جانا پڑے ’بیماری آپ کی دہلیز پر‘ موجود ہے۔