حامدمیر۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے مجموعے ’’پیامِ مشرق‘‘ کو افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا تو ناقدین نے اقبالؒ پر ایک بادشاہ کی خوشامد کا الزام لگا دیا۔ یہ غازی امان اللہ کون تھا؟ یہ وہ شخص تھا جس نے 1919ءمیں اُس زمانے کی سپرپاور برطانیہ کو شکست دی اور افغانستان کو سلطنت برطانیہ کی شان و شوکت کا قبرستان بنا دیا۔
ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے علامہ اقبالؒ سے سوال کیا کہ آپ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ کا انتساب امان اللہ خان کے نام کیوں کیا تو اُنہوں نے جواب میں کہا کہ میں اپنی اس کتاب کو کسی آزاد مسلمان کے نام کرنا چاہتا تھا اور اس ضمن میں امیر امان اللہ خان سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا نہیں تھا۔ امان اللہ خان نے جن لوگوں کی مدد سے تاج برطانیہ کا غرور خاک میں ملایا تھا اُن میں مجددی سلسلے کے روحانی پیشوا ملا شوربازار نور المشائخ بھی شامل تھے۔ لیکن جب امان اللہ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں اصلاحات کا آغاز کیا تو ملا شور بازار اُن سے ناراض ہو گئے۔ 1929ء میں امان اللہ خان غیرملکی دورے پر تھے، اس دوران اُن کے خلاف بغاوت ہو گئی اور افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔
امان اللہ خان کے ایک ساتھی نادر شاہ نے انگریزوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ وہ فرانس میں افغانستان کا سفیر تھا۔ وہ پیرس سے لاہور آیا اور علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی۔ اُس نے علامہ اقبالؒ کو بتایا کہ وہ سازشی عناصر کے خلاف مزاحمت کرے گا۔ علامہ اقبالؒ نے اُسے اپنی طرف سے دس ہزار روپے بطور امداد پیش کئے لیکن نادر شاہ نے شکریہ کے ساتھ یہ رقم واپس کر دی اور شمالی وزیرستان کے علاقے علی خیل روانہ ہو گیا۔ یہاںپر اُس نے وزیر اور محسود قبائل کے ساتھ مل کر ایک لشکر تشکیل دیا اور کابل پر حملہ کر دیا۔ علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی مدد کے لئے ایک فنڈ بنایا اور کچھ ہی عرصے کے بعد نادر شاہ نے حبیب اللہ (بچہ سقہ) کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کر لیا۔
کچھ سال کے بعد علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا دورہ کیا تو وہاں ملا شور بازار اور حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ حاجی صاحب کا تعلق شب قدر کے علاقے سے تھا۔ اُنہوں نے 1919ء کی جنگ میں امان اللہ خان کا ساتھ دیا تھا،اب وہ برصغیر کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا چاہتے تھے اور نادر شاہ کی مدد سے مزاحمت کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ علامہ اقبالؒ نے امان اللہ خان اور نادر شاہ جیسے بادشاہوں کی عزت افزائی اُن کی حریت پسندی کی وجہ سے کی۔ اقبالؒ کو افغانوں سے بہت محبت تھی کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ افغان کبھی کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اسی لئے اقبالؒ نے کہا
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم للہ، الملک للہ
یعنی تاریخی عمل اور تاریخی جدل میں صرف افغان سرخرو ہوں گے۔ اقبالؒ کی شاعری میں ہمیں صرف کابل، غزنی اور قندھار کا ذکر نہیں ملتا بلکہ احمد شاہ ابدالی اور خوشحال خان خٹک کے ساتھ باقاعدہ اظہارِ محبت ملتا ہے۔ خوشحال خان خٹک ایک جنگجو شاعر تھے جنہوں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے خلاف مزاحمت کی۔ اقبالؒ نے اورنگ زیب کے خلاف تلوار اٹھانے والے خوشحال خان خٹک کے بارے میں کہا
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ستاروں پہ کمند ڈالنے والے جوانوں سے اقبالؒ کی محبت بلاجواز نہ تھی۔ اقبالؒ کی زندگی میں افغانوں نے سلطنت برطانیہ کو شکست دی اور ہماری زندگی میں افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دی۔ یہ 1989ء تھا جب روسی فوج کا افغانستان سے انخلاء شروع ہوا اور اب 2019ء میں امریکی فوج افغانستان سے نکلنا چاہتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن برطانیہ اور روس کے بعد امریکہ کو بھی افغانستان میں شکست ہو چکی ہے۔ افغانستان ایک اور سپرپاور کی شان و شوکت کا قبرستان بن چکا ہے لیکن افغانستان کی پہچان صرف قبرستان نہیں ہونی چاہئے۔ اقبالؒ نے کہا تھا
آسیا یک پیکر آب و گِل است
ملت ِ افغاں در آں پیکر ِ دل است
از فساد او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
ایشیا ایک جسم ہے اور اس جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کا نام افغان قوم ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ افغانوں میں فساد کا مطلب ایشیا میں فساد ہے اور افغانوں کی ترقی کا مطلب ایشیا کی ترقی ہے۔ اقبالؒ نے افغانستان کو ایک سپرپاور کے قبرستان کے بجائے ایشیا کا دل قرار دیا اور یہ وہ پہچان ہے جسے حقیقت بنا کر ہم صرف افغانستان کو نہیں بلکہ پورے خطے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
اس وقت ہم سب کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد وہاں خانہ جنگی شروع نہ ہو۔ 1989ء میں افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کے بعد جو خانہ جنگی شروع ہوئی اُسی نے تحریک طالبان کو جنم دیا تھا۔ ابتداء میں امریکہ نے طالبان کی مدد کی، بعد میں انہیں دہشت گرد قرار دے دیا۔ آج امریکہ انہی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنا تھوکا چاٹ رہا ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے باعزت واپسی کا راستہ چاہئے۔ وہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان اُن سب کے ساتھ مل کر پاور شیئرنگ کریں جو ماضی میں امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے تھے۔
امریکہ اس مقصد کے لئے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے طالبان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ بھی مذاکرات کریں۔ اس صورتحال کا ایران کو بہت فائدہ ہوا اور وہ افغان طالبان کے قریب ہو گیا ہے کیونکہ افغان طالبان اور ایران کو داعش کی صورت میں ایک مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔
صورتحال بہت نازک ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی افغان طالبان کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن افغان طالبان نے فی الحال اسلام آباد آنے کا ارادہ ملتوی کر دیا کیونکہ وہ اشرف غنی کو دور جدید کا بچہ سقہ سمجھتے ہیں اور جو بھی انہیں بچہ سقہ کے ساتھ مل بیٹھنے کا مشورہ دیتا ہے وہ اسے شکست خوردہ سپرپاور کا خوشامدی سمجھنے پر مجبور ہیں لیکن وہ یہ مت بھولیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز افغانوں کے لئے ایک نئی مصیبت بن سکتا ہے۔
یہ خانہ جنگی افغانستان میں فساد برپا کرے گی اور پاکستان اس سے محفوظ نہ رہ سکے گا اس لئے پاکستان کو امریکہ کا نہیں اپنا مفاد دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ وہ غیرجانبدار رہے اور کسی فریق پر امریکہ کی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پاکستان کو صرف سہولت کار بننا ہے۔ سہولت کاری کے نام پر شکست خوردہ سپرپاور اور اس کی باقیات کو رسوائی سے بچانے کی کوشش پاکستان کو بھی رسوا کرے گی لہٰذا اس اہم تاریخی مرحلے پر ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں علامہ اقبالؒ کی افغانوں سے محبت کا بھرم قائم رکھنا ہو گا۔