عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں صحت مند زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کو متحرک کرنے میں بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے اور زیادہ آمدن والے ممالک کے عوام سست اور آرام طلب ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی یعنی ایک ارب 40 کروڑ افراد ضرورت کے مطابق جسمانی ورزش نہیں کرتے۔ جسمانی ورزش نہ کرنے کے سبب انھیں امراض قلب، ذیابیطس اور مختلف نوعیت کے سرطان(کینسر) لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ سن 2001 کے مقابلے میں اب صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے لیکن اب بھی عوام کو ورزش کی جانب مائل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق زیادہ آمدن والے دنیا کے امیر ممالک کے عوام زیادہ سست ہیں جبکہ ایشیا کے دو خطوں کے علاوہ دنیا بھر کی خواتین بہت کاہل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے 168 ممالک میں سے 358 افراد کو اپنے سروے میں شامل کیا۔
سروے کے مطابق زیادہ آمدن والے ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ میں سنہ 2001 میں غیر متحرک افراد کی تعداد 32 فیصد سے بڑھ کر اب 37 فیصد ہو گئی ہے جبکہ کم آمدن والے ممالک میں یہ شرح 16 فیصد پر برقرار ہے۔ اس جائزے میں اْن افراد کو غیر متحرک قرار دیا گیا ہے جو ہفتے میں75 منٹ سخت یا تقریباً ڈھائی گھنٹہ متعدل ورزش نہیں کرتے ہیں۔جرمنی اور نیوزی لینڈ میں ورزش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ سست ہیں لیکن مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کی خواتین دیگر ایشیائی اور امیر مغربی ممالک کے مقابلے میں متحرک ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان خواتین کے زیادہ متحرک ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جیسے بچوں کی نگہداشت کی زیادہ ذمہ داریاں اور سماجی رویے جن کی وجہ سے وہ زیادہ متحرک ہوتی ہیں۔
برطانیہ میں سنہ 2016 میں ورزش نہ کرنے کی شرح 36 فیصد تھی جن میں 32 فیصد مرد اور 40 فیصد خواتین ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ آمدن والے ممالک میں آرام دہ نوکریاں، مشاغل اور گاڑیوں پر آمدورفت کی وجہ سے آرام طلبی بڑھی ہے۔
کم آمدن والے ممالک میں مشکل نوکریاں اور ملازمت پر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی وجہ سے لوگ زیادہ متحرک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وہ ممالک جہاں عوام سب سے کم ورزش کرتے ہیں، ان میں کویت (67 فیصد)، سعودی عرب( 53 فیصد)، عراق( 52 فیصد) شامل ہیں جبکہ وہ ممالک جہاں کے عوام سب سے کم سہل ہیں، ان میں موزمبیق اور یوگینڈا (چھ فیصد) شامل ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ جسمانی فعالیت ہرعمر کے لوگوں کے مفید ہے۔ یہ انھیں صحت مندانہ زندگی گزارنے میں بھرپور مدد دیتی ہے۔ جسمانی فعالیت چاہے کم ہی کیوں نہ ہو، بہرحال نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اس کے لئے آپ کو باقاعدہ ورزش کے کسی مرکز میں بھی جانے کی ضرورت نہیں، آپ نہایت سادہ اندازمیں سارا دن متحرک گزارسکتے ہیں۔
٭پانچ سے 17برس کی عمر کے لوگوں کے لئے
اس عمر کے بچوں اور بڑوں کو روزانہ کم ازکم 60 منٹ کے لئے عام یا پھر کسی قدر مشکل جسمانی سرگرمی سرانجام دینی چاہئے۔ اس سے فرد کو صحت سے متعلق اضافی فوائد ملیں گے۔ اس سرگرمی میں پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط کرنے والی ورزش بھی شامل ہو۔ یہ ورزش ہفتے میں کم ازکم تین بار ہونی چاہئے۔
٭19 سے 64 سال کی عمر کے افراد کے لیے ورزش کی ہدایات
صحت مند رہنے کے لیے عمر کے اس گروپ کے لوگوں کو ہر ہفتے کم ازکم 150منٹ معتدل ورزش کرنی چاہئے یاپھر75منٹ کے لئے سخت ورزش۔ ہفتے میں کم سے کم دو دن ایسی ورزش کرنی چاہیے جس سے جسم کے تمام پٹھوں میں کھچاؤ ہو۔ زیادہ دیر بیٹھنے رہنے کے دوران ہلکی پھلکی ورزش کریں۔ اس گروپ کے لوگوں کو مزید فوائد حاصل کرنے ہوں تو وہ اپنی جسمانی سرگرمی کو 300منٹ(فی ہفتہ) تک بڑھا سکتے ہیں۔
٭65 سال یا اس سے زائد عمرلوگوں کے لئے ہدایات
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے 65 سال یا اس سے زائد عمرلوگوں سے کہاہے کہ وہ ہرہفتے کم ازکم 150منٹ تک معتدل قسم کی جسمانی ورزش کرنی چاہئے یاپھر75منٹ کی نسبتاً سخت جسمانی سرگرمیاں، یاپھر ملی جلی متعدل اور سخت ورزشیں۔ اگر وہ زیادہ بہتر فوائد حاصل کرناچاہیں تو انھیں جسمانی سرگرمیوں کا دورانیہ 300منٹ تک بڑھاناچاہئے۔ پٹھوں بالخصوص اہم پٹھوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہفتے میں دو یا اس سے زائد بار ورزشیں کرنا ہوں گی۔
یادرہے کہ معتدل ورزشوں میں تیز بھاگنا، تیراکی، ہموار یا پھر اونچائی کی جانب سائیکل چلانا، ٹینس کھیلنا، باغ میں گھاس کاٹنا، ہائیکنگ کرنا، والی بال اور باسکٹ بال کھلینا وغیرہ شامل ہیں۔ سخت ورزشوں میں جاکنگ یا تیز دوڑنا، تیزسوئمنگ کرنا، تیز سائیکل چلانا، فٹبال، رگبی، رسی کودنا، ہاکی کھیلنا اور مارشل آرٹس وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ پٹھوں کو مضبوط بنانے والی ورزشوں میں وزن اٹھانا، ایسی ورزش جس سے جسم کے وزن کو اٹھایا جاتا ہو جیسے ڈنڈ نکالنا، اٹھک بیٹھک، باغبانی کرنا، یوگا وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں عوام کی بڑی تعداد صحت کے مختلف مسائل کا شکار ہے، بدقسمتی سے یہاں کی حکومتیں ایک صحت مند قوم بنانے کے بجائے انھیں زیادہ سے زیادہ بیماریوں کا شکار کرنے کے اقدامات کررہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ملیریا، تپ دق، ڈینگی بخار، کینسر، دل کے امراض، سٹروک، ذیابیطس، ہیپاٹائٹس، ایچ آئی وی، ایڈز، ہائپرٹینشن، استھما، ہیضہ اور ذہنی امراض بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حکومتیں ایک طرف ان اسباب پر قابوپانے کی کوشش نہیں کرتیں جو مذکورہ بالا امراض کو پیدا کرتے ہیں، دوسری طرف ان امراض کے علاج کو ہرگزرتے دن کے ساتھ مہنگا کررہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثالیں گزشتہ ایک ماہ کے دوران میں چھپنے والی خبروں سے مل جائیں گی۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں عوام کیا کریں؟
بیماریوں سے محفوظ رہنا ہی اس سنگین مسئلے کا حل ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شعور صحت کو بہتر سے بہترین کیاجائے، ایسی غذاؤں سے پرہیز کیا جائے جو بیماریوں میں مبتلا کرتی ہیں، صحت مند غذاؤں ہی کا استعمال کیاجائے، ایسے اقدامات اور سرگرمیاں سرانجام دی جائیں جو بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں، ان میں سب سے اہم جسمانی سرگرمیاں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ورزش یا جسمانی سرگرمیوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ وزن کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ متوازن غذا بھی ضروری ہوتی ہے۔
جسمانی سرگرمیاں امراض قلب کے خطرات سے بھی محفوظ کرتی ہیں، آج کل پاکستان میں امراض قلب میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ورزشیں دل کو مضبوط کرتی ہیں اور دوران خون کو بہتربناتی ہیں یعنی خون مناسب رفتار اور انداز سے رگوں میں دوڑتاہے۔ اس سے جسم میں آکسیجن کی سطح بہتر رہتی ہے۔ اس سے امراض قلب کے خطرات کم سے کم ترہوتے چلے جاتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش کرنے سے بلڈپریشر بھی معمول پر رہتاہے جبکہ خون میں چربی کی مقدار بھی نہیں بڑھتی۔
جسمانی سرگرمیوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے خون میں شوگر کی مقدار کو کم رکھتی ہے جبکہ انسولین کی کارکردگی بھی بہتر رہتی ہے۔ اس سے ٹاپ ٹو کی ذیابیطس کے خطرات کم رہتے ہیں۔ اگرخدانخواستہ آپ اس مرض کا پہلے ہی شکار ہیں تو جسمانی ورزش شوگر کی مقدار معمول پرآجاتی ہے۔آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے کہ ورزش تمباکونوشی سے جان چھڑانے میں مددگارثابت ہوتی ہے ۔ سموکنگ ختم کرنے کے بعد بعض لوگوں کا وزن بڑھنا شروع ہوجاتاہے، ورزش اسے بڑھنے نہیں دیتی۔
ورزش کے دوران جسم میں ایسے کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جو آپ کے موڈ کو بہتر کرتے ہیں اور وہ ریلیکس محسوس کرتاہے، سٹریس سے نمٹنے میں غیرمعمولی طور پر مدد ملتی ہے، ڈپریشن کے خطرات بھی کم سے کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر بھی خوشگوار حیرت ہوگی کہ ورزش سے آپ کی سوچنے، سیکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہترہوتی ہے۔ اس سے پٹھے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں، انسان مختلف قسم کے سرطان( کینسر) سے محفوظ رہتاہے، نیند بہتر ہوتی ہے، انسان کی جنسی صحت برقرار رہتی ہے۔ جو لوگ جنسی کمزوری محسوس کرتے ہیں، وہ فی الفور ورزش شروع کردیں ، کچھ عرصہ میں ہی ان کی جنسی صحت بحال ہوجائے گی۔خواتین کو بھی اس باب میں خوب فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جسمانی ورزش سے انسان کے زیادہ طویل عرصہ تک جینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ظاہرہے کہ جب موت کا سبب بنے والی بیماریاں انسان کے قریب نہیں پھٹکیں گی تو انسان مرنے سے پہلے کیسے مر سکتاہے۔ یقیناً انسان کی موت کا ایک وقت متعین ہے لیکن انسان اپنی غلطیوں سے بیماریوں مثلاً امراض قلب اور مختلف اقسام کے کینسرز کاشکار ہوکر وقت سے پہلے موت کے منہ میں چلاجاتاہے۔
مذکورہ بالا سب اقدامات انسان کی انفرادی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ جب بیماریاں ہرطرف سے یلغار کررہی ہوں، علاج کرنے والے لوٹ مار میں مصروف ہوں، حکومتیں قوم کی صحت سے لاپروا ہوں بلکہ وہ بیماریاں پیدا کرنے والی فیکٹریوں اور کمپنیوں کو کھلی چھٹی دیں تو پھر ایک فرد کے لئے زیادہ ضروری ہوجاتاہے کہ وہ بیماریوں کے خلاف دفاع کو مضبوط کرے۔ اس کا ایک اضافی فائدہ ذاتی اور گھریلو معیشت کی بہتری کی صورت میں بھی سامنے آئے گا۔
وزیراعظم عمران خان ایک بڑی تبدیلی کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے ہیں، وہ کھلاڑی رہے ہیں، اب بھی اپنے روزانہ معمولات کا آغاز جاگنگ اور ورزش سے کرتے ہیں۔ ان سے امید ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں سے مختلف روش اختیار کریں گے ، پاکستانی قوم کو ایک صحت مند قوم بنانے کے لئے فی الفور ایک جامع پروگرام تیار کرکے اس پر عمل شروع کرائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے انفراسٹکچر کو فروغ دینا چاہیے جس میں کھیل، سائیکلنگ جیسی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔بدقسمتی سے پاکستان میں حکومت ایسی تفریحات کو فروغ دینے کے لئے کوشش کررہی ہے جو کم ازکم صحت مند جسمانی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر میلوڈی ڈینگ کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی سے رہن سہن میں تبدیلی آئی ہے اور ایسے میں حکومت کو زیادہ ایسے مواقع پیدا کرنے چاہیں جس سے لوگوں میں ورزش کے رجحان کو فروغ ملے۔