گردش، سید عنایت اللہ جان

کیا معاشرے میں قیام امن کے لیے سزائے موت ضروری ہے؟ 

انسان کے پاس سب سے بڑی نعمت زندگی ہے اور زندگی میں ہی سب کچھ پنہاں ہے، اس سے باہر کچھ بھی نہیں۔ اس لیے سب سے زیادہ تحفظ کی مستحق اگر کوئی چیز دنیا میں ہو سکتی ہے تو وہ زندگی ہی ہے۔ دنیا میں تمام مذاہب، قوانین، تعلیمات، اہتمام و انتظام اور نظم و ضبط کا بنیادی مقصد انسانی زندگی کو تحفظ کی فراہمی ہے۔

اسلامی تناظر میں بھی مقاصد شریعت پانچ ہیں اور یہ سب کے سب انسانی تحفظ سے متعلق ہیں اور ان میں سب سے پہلے نمبر پر جو مقصد پیش نظر ہے وہ زندگی کی حفاظت ہے۔

انسانی زندگی وہ عظیم ترین جوہر ہے جس کی حفاظت پہ کہیں بھی، کسی بھی صورت میں کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دنیا بھر کے مختلف اقوام اور ممالک میں مختلف قوانین، تجربات، ضابطوں اور مذہبی تعلیمات کا سہارا لے کر اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ زندگی زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو اور اسے کوئی بھی خطرہ لاحق نہ رہے۔

زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسلام نے سزائے موت کا حکم دیا ہے یعنی اگر کوئی قصداً کسی کو قتل کرے تو سزا کے طور پر قاتل کو قانون کے مطابق قتل کیا جائے گا تاکہ کوئی بھی قتل جیسے انتہائی اقدام کی جسارت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں موت بطور سزا نافذ ہے۔ اس حکم سے کوئی بھی ملک، ادارہ یا فرد اختلاف تو کر سکتا ہے لیکن انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسلامی ممالک سے اس سزا کو ختم کرنے کا مطالبہ کریں۔ ہر ملک کے اپنے حالات، ضروریات، ماحول، عقائد، ثقافت اور سماجی اقدار ہوتے ہیں جو کہ قانون اور انصاف کے عمل کو مکمل کر رہے ہیں۔

ہم آسانی سے بعض سطحی اندازوں پر یہ رائے قائم نہیں کر سکتے کہ فلاں جگہ، فلاں حکم یا ضابطہ انصاف یا انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ ماضی اور حال دونوں کے احوال سے بخوبی یہ ثابت ہے کہ موت بطور سزا لاگو کرنے سے انسانی زندگی کو زبردست تحفظ میسر آیا ہے۔ خود اسلام نے سزائے موت کے حکم کا جو بنیادی فائدہ بیان کیا ہے وہ ‘زندگی‘یعنی موت کی سزا میں تمہارے لیے زندگی ہے۔ سخت ترین سزا کے نفاذ سے ہی قتل جیسی بڑی جسارت روکا جا سکتا ہے اور سخت ترین سزا موت کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟

حال ہی میں افغان حکام نے چار افراد کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دی جس کے بعد بعض بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے تنقید پر افغان رہنما نے اپنے موقف کا برملا اظہار کیا۔ رہنما نے گزشتہ جمعے کو افغانستان میں چار افراد کو دی گئی سزائے موت کو اسلامی شریعت کا لازمی حصہ قرار دے دیا۔

قبل ازیں جرمن نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق انسانی حقوق کے مختلف گروپوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے ان چار افراد کو سر عام  سزائے موت دینے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ سزائیں سن 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد، ایک ہی دن میں دی جانے والی موت کی سب سے زیادہ سزاؤں میں سے ایک ہے۔

تفصیلات کے مطابق افغانستان کی سپریم کورٹ نے چار افراد کو قتل کے’ جرم میں مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مقتولین کے اہل خانہ نے ملزمان کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا۔ یہ سزائیں گزشتہ جمعے کو تین مختلف صوبوں نمروز، فراہ اور بادغیس کے اسٹیڈیمز میں ہزاروں ناظرین کے سامنے دی گئیں۔ حکومتی اہلکاروں نے بندوقوں سے فائرنگ کر کے ان سزاؤں پر عمل درآمد کیا‘۔

"اتوار کو افغان ترجمان نے اپنے لیڈر کا سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر ایک آڈیو پیغام جاری کیا، جو انہوں نے جنوبی صوبے قندھار میں حج انسٹرکٹرز کے ایک سیمینار کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے جاری کر دیا تھا۔ سپریم لیڈر نے مزید کہا تھا، ‘ہمیں نظم و ضبط کے لیے اقدامات کرنے، نمازیں پڑھنے اور عبادات کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام صرف چند رسومات تک محدود نہیں، یہ الہٰی احکام کا ایک مکمل نظام ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ خدا نے لوگوں کو نماز کے ساتھ ساتھ سزاؤں پر عملدرآمد کا بھی حکم دیا ہے۔ سربراہ نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اقتدار یا دولت کے لیے جنگ نہیں لڑی، بلکہ ان کا مقصد ‘اسلامی قانون کا نفاذ‘ ہے۔ انہوں نے ان سزاؤں پر عالمی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مغربی قوانین کی افغانستان میں کوئی ضرورت نہیں‘۔

اقوام متحدہ کی امدادی مشن برائے افغانستان نے ان سزاؤں کو انسانی حقوق کی ‘واضح خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر موت کی تمام سزاؤں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے مختلف گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوامی سطح پر سزائیں خوف پھیلانے اور طالبان کے سخت گیر نظریے کو مسلط کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یو این اے ایم اے نے ان سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے شفاف عدالتی کارروائی، منصفانہ مقدمات اور ملزمان کے لیے قانونی نمائندگی کے حق کی ضرورت پر زور دیا۔ اس طرح گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان سزاؤں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ‘یہ انسانی وقار اور حق حیات سے بنیادی طور پر متصادم سزا ہے۔‘

‘ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کو ‘شدید پریشان کن‘ اور ‘بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا۔ اس تنظیم کی افغانستان ریسرچر فرشتہ عباسی نے کہا کہ یہ واقعات عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک آزاد احتسابی نظام قائم کرے تاکہ ‘ان غیر قانونی اقدامات کے ذمہ داروں‘ کو جواب دہ بنایا جا سکے‘۔

افغان سپریم لیڈر کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا جب طالبان مغربی ممالک سمیت عالمی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکا نے طالبان کے تین سینئر رہنماؤں بشمول وزیر داخلہ، جو کہ ایک طاقتور نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، کے سروں کے لیے رکھی گئی انعامی رقوم ختم کر دی تھیں۔ اس طرح رواں سال افغان حکام نے چار آمریکی شہریوں کو رہا کیا، جنہیں وہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی ‘نارملائزیشن‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی سطح پر ان سزاؤں نے طالبان کی ممکنہ بین الاقوامی قبولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے‘۔

افغانستان ایک اسلامی ملک ہے اس لیے وہاں حکام قانون سازی کے عمل میں اگر قرآن کریم سے رجوع کرتے ہیں تو اس میں غیر معمولی یا ناقابلِ قبول کچھ نہیں۔ قرآن کریم کے مطابق سزائے موت کا حکم خاص جرائم کے لیے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ قتل عمد (جان بوجھ کر قتل) یا فساد فی الارض (زمین میں فساد پھیلانا)۔ اس سزا کے بارے میں قرآن کریم کی آیات اور ان کی حکمت کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:

 قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

اور تمہارے لیے قصاص (یعنی بدلہ) میں زندگی ہے، اے عقل والو! (البقرہ: 179) 

اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ قاتل کو سزائے موت دینے سے معاشرے میں زندگی محفوظ ہوتی ہے، کیونکہ موت کا خوف دوسروں کو قتل سے روکتا ہے۔

اس طرح فساد فی الارض کی سزا یوں بیان ہوئی ہے

’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیے جائیں یا وہ جلاوطن کر دیے جائیں۔‘ (المائدہ: 33) 

یہ آیت دہشت گردی، بغاوت اور اجتماعی فساد پھیلانے والوں کے لیے سخت سزا بیان کرتی ہے۔

اب آتے ہیں سزائے موت کی حکمت کی طرف، قرآن کریم نے قرار دیا ہے کہ ’اس میں زندگی ہے’ یہاں قرآن نے سزائے موت کو باقاعدہ ’زندگی‘ سے تعبیر کیا ہے، آئیے اس سزا کی چند حکمتیں ملاحظہ کرتے ہیں۔

سزائے موت کا مقصد معاشرے کو خطرناک مجرموں سے پاک کرنا ہے، تاکہ بے گناہ لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں۔ 

 اگر قاتل یا فسادی کو سزا نہ دی جائے تو وہ دوبارہ جرائم کر سکتا ہے، جس سے امن عامہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

جب مجرموں کو سخت سزا ملنے کا یقین ہوگا تو دوسرے لوگ ایسے جرائم سے باز آئیں گے۔ سزائے موت قتل کے ارتکاب کو روکنے کے ایک پورے نظام کا حصہ ہے۔

مقتول کے ورثاء کا حق ہے کہ قاتل کو سزا ملے، قاتل دندناتا پھرے گا تو اس سے معاشرے میں انتقامی کارروائیاں بڑھیں گی۔ یہ بات یاد رکھنے کی قابل ہے کہ اسلامی قانون میں قصاص صرف حکومت ہی دے سکتی ہے، نہ کہ افراد خود قانون ہاتھ میں لے کر انصاف کرنا شروع کریں۔

بظاہر سزائے موت بہت سخت لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ پورے معاشرے کے لیے رحمت ہے، کیونکہ اس سے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں بچتی ہیں۔

یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے کہ اسلام نے سزائے موت کو کڑے قواعد و ضوابط کے تحت رکھا ہے۔ یہ صرف اور صرف ثبوت قطعی (گواہی یا اقبال جرم) پر لاگو ہوتی ہے۔ اس طرح اگر مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کر دیں تو سزائے موت معاف ہو سکتی ہے (البقرہ: 178)۔ اس طرح اسلامی سزا حکومت یا عدالت ہی دے سکتی ہے، کوئی فرد خود سے یہ حق نہیں رکھتا۔

قرآن کریم کے احکام کی روشنی میں سزائے موت کا مقصد ’زندگی کو تحفظ دینا‘ ہے، نہ کہ ظلم کرنا۔ یہ سزا معاشرے کے امن، انصاف اور سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے ایک حکیمانہ اور منصفانہ قانون ہے، جس کی شرائط اور حدود بالکل واضح اور قابلِ فہم ہیں۔

اگر چہ عصری تناظر میں سزائے موت دنیا کے اندر نظری، قانونی اور اخلاقی سطح پر متنازعہ موضوع ہے۔ کچھ ممالک اسے انصاف کا حتمی ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ دیگر اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ اس سزا کے حامیوں اور مخالفین کے اپنے اپنے دلائل ہیں، اور ان کے اثرات و ثمرات معاشرے، عدالتی نظام اور انسانی نفسیات پر انتہائی گہرائی سے مرتب ہو رہے ہیں۔ ناچیز خود کو سزائے موت کے حامیوں میں شمار کرتا ہے۔

آئیے، ذرا سزائے موت کے مثبت، انسانی تحفظ کے لیے ضروری اور الہامی بصیرت جیسے پہلوؤں کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔

سزائے موت کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ سنگین جرائم کے ارتکاب کو روکنے میں مؤثر ترین حربہ ہے۔ جب مجرموں کو معلوم ہوگا کہ ان کے سرکشانہ اعمال کی سزا موت ہے، تو وہ قتل، دہشتگردی یا دیگر شدید جرائم سے لازماً گریز کریں گے۔ مثال کے طور پر، سنگاپور جیسے ممالک میں سزائے موت کی وجہ سے تشدد اور منشیات کے جرائم کی شرح کم ترین سطح پر ہے۔ 

کچھ معاملات میں، عوام کا یہ احساس ہوتا ہے کہ قاتل یا شدید مجرم کو زندہ رکھنا مظلوم کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ سزائے موت کو ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘، ’کان کے بدلے کان‘ اور’جان کے بدلے جان‘ کے اصول کی تکمیل سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر ایسے مقدمات میں جہاں جرم انتہائی وحشیانہ قسم کا ہو۔ 

سزائے موت یہ یقینی بناتی ہے کہ خطرناک مجرم دوبارہ معاشرے کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔ قید کی سزا کے بعد بھی بعض مجرم جیل سے رہا ہو کر دوبارہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، لیکن موت کی سزا اس امکان کو مکمل طور پر ختم کر دیتی ہے۔ 

سخت سزائیں عوام کا اعتماد بڑھاتی ہیں اور یہ پیغام دیتی ہیں کہ قانون مجرموں کے ساتھ نرمی نہیں برتے گا۔ اس سے قانون کا احترام بڑھتا ہے اور لوگوں میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ سنگین جرائم کی سزا بھی سنگین ہوگی۔ 

کوئی مانے یا نہ مانے سزائے موت کے فوائد اتنے گہرے اور موثر ہیں کہ اس کے مصالح ذرا بھی سوچنے سمجھنے پر عقل سے باہر نہیں۔ سزائے موت سنگین جرائم کی روک تھام اور انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے، تاہم اس کے نفاذ میں حد درجہ احتیاط لازم ہے بہتر یہ ہوگا کہ سزائے موت کو صرف اور صرف انتہائی واضح اور سنگین ترین مقدمات تک محدود رکھا جائے، جبکہ عدالتی نظام کو اس قدر مضبوط، مربوط اور موثر بنایا جائے کہ کسی معصوم کو سزا نہ ملے۔ یہ بحث صرف قانونی ہی نہیں، بلکہ یہ اخلاقی، نظریاتی اور انسانی اقدار سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ہر معاشرے کو اپنے مخصوص حالات کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے