دی کائٹ رنر فیمان علی

’دی کائٹ رنر‘،  ہم سب کی کہانی

·

زندگی ایک پتنگ کی مانند ہے۔ کبھی بلندیوں کو چھوتی ہے تو کبھی بے رحم ہاتھ کی جنبش سے کٹ کر گر جاتی ہے۔ ’دی کائٹ رنر‘ ایک کہانی ہے جو محبت، دوستی، دھوکہ، پچھتاوے اور نجات کے گرد گھومتی ہے۔ مگر یہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں خود سے ملواتا ہے۔

عامر اور حسن کی کہانی صرف دو دوستوں کی کہانی نہیں یہ ایک انسانی فطرت کے پیچیدہ تضادات  کی عکاسی ہے۔ حسن محبت کی علامت ہے۔ ایک ایسا کردار جو مکمل وفاداری کا پیکر ہے اس کی خاموشی میں بھی عامر کے لیے ایک عہد ہوتا ہے: ” for you, thousand times over” یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ محبت، وفاداری، ایثار کی معراج ہے۔ میرے منہ سے ان چند الفاظ میں پوری کہانی کا خلاصہ لپٹا ہوا ہے جو ایثار اور بے انتہا محبت کی علامت ہے۔

 ’ تمہارے لیے ہزار بار‘ ’ ہزار بار‘ یہ ایک جملہ نہیں ایک جذبہ ہے۔

 دوسری طرف عامر ہے جو اپنی ذات کے خول میں قید ہے، جو محبت کرنا تو جانتا ہے مگر خوف سے آزاد ہونا نہیں جانتا ۔۔۔ یہی خوف انسان کے بڑے دشمنوں میں سے ایک ہے۔۔۔۔۔۔ یہ ہمیں ان فیصلوں پر مجبور کرتا ہے جن پر ہم پچھتاتے ہیں۔ یہ ہمیں سچ بولنے سے روکتا ہے، ہمیں خودغرض بناتا ہے اور ہمیں اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جہاں ہماری ہی نظر میں ہمارا وجود بوجھ بن جاتا ہے۔

عامر کی خاموشی، کمزوری اور گناہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی ہی بزدلی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو پہنچاتے ہیں جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔

کیا ہم اپنے ماضی سے بھاگ سکتے ہیں؟ عامر ہر قدم اسی سوال کا جواب تلاش کرتا ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کا سامنا کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی غلطیوں کو قبول کر سکتے ہیں اور کیا ہم اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں؟

یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نجات کسی جادوئی لمحے میں حاصل نہیں ہوتی، یہ ایک سفر ہے ایک مسلسل کشمکش۔۔۔ عامر جب سہراب کے لیے پتنگ اڑاتا ہے جو کبھی حسن کے لیے اڑایا کرتا تھا تو یہ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک علامت ہے ۔۔۔رہنے دو اس بات کا ثبوت ہے کہ ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا مگر اس کو قبول کیا جا سکتا ہے، اس کے گناہوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے شاید کسی حد تک معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔

طاقت ہمیشہ ظاہری نہیں ہوتی اور کمزوری ہمیشہ بری نہیں ہوتی۔ حسن جو ایک کمزور لڑکا دکھائی دیتا ہے ۔اصل میں سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس کے پاس وہ طاقت ہے جو عامر کے پاس نہیں ۔۔۔ وہ طاقت جو سچائی پر کھڑے رہنے، محبت کرنے اور معاف کرنے میں مضمر ہے ۔

عامر کا باپ جو بظاہر ایک اصول پسند مضبوط شخص ہے وہ بھی ایک تضاد کا شکار ہے۔ اس کی زندگی ہمت سبق دیتی ہے کہ طاقت  اور اصولوں کے درمیان اکثر فاصلہ ہوتا ہے  اور انسان بعض اوقات اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے ایک مضبوط شخصیت کا نقاب پہن لیتا ہے۔

آصف جو اس کہانی کا سیاہ سایہ ہے دنیا کے اس پہلو کو بے نقاب کرتا ہے جہاں طاقت کا مطلب ظالم بن جانا ہے۔ وہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کیا کہ دنیا میں صرف دو ہی قسم کے لوگ ہیں۔۔۔ ظالم اور مظلوم۔۔۔۔یا پھر کوئی ایسا راستہ بھی ہے جہاں کمزوری طاقت میں بدل سکتی ہے اور ظالم کے خلاف کھڑے ہونا ممکن ہے؟

’دی کائٹ رنر‘ ۔۔۔۔۔ یہ صرف عامر اور حسن کی کہانی نہیں بلکہ ہم سب کی کہانی ہے۔۔۔ہر اس شخص کی کہانی جو ماضی کے سائے میں جیتا ہے، جو ماضی کا بوجھ اٹھاتا ہے، جو کسی دوسرے موقع کی تلاش میں رہتا ہے ۔۔۔ یہ امید کی ایک کہانی ہے ۔۔۔۔۔ ہم گر سکتے ہیں، ہم غلطیاں کر سکتے ہیں، مگر جب تک ہمارے اندر نجات کی خواہش زندہ ہے ہم میں ایک نئے باب کے آغاز کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔

اور شاید یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔۔۔۔۔ہمارے پاس ہمیشہ ایک اور موقع ہوتا ہے ایک اور صبح اور ایک اور پتنگ جو بلند ہو سکتی ہے۔ ہزار بار !!!

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے