نہ جانے امریکی حکمرانوں کے دماغ سے یہ خناس کب نکلے گا کہ انھیں اس دنیا میں اب بھی چوہدری کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے یہ دنیا ان کی انگلی کے اشارے پر چلے گی۔ وہ جس ملک کے معاملات میں مداخلت کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں۔ وہ جس قوم پر جتنا چاہیں، ٹیکسز کا بوجھ لاد سکتے ہیں۔ اگر کہیں جنگ چھیڑنی ہو، وہ چھیڑ سکتے ہیں۔ کسی جنگ میں کسی بھی فریق کا ساتھ دینا ہو، دے سکتے ہیں چاہے وہ انصاف کے اصولوں کے بالکل منافی ہی کیوں نہ ہو۔
امریکی طرز عمل پہلے بھی ایسا ہی تھا لیکن تب کچھ شرم و حیا آڑے آ جاتی تھی لیکن اب تو امریکی حکمران کھلم کھلا ننگا ناچ ناچنے لگے ہیں۔ بالخصوص جوبائیڈن کے دور اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حد ہی کردی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی انھوں نے دنیا بھر کی اقوام کو دھمکیاں دینا شروع کردیں لیکن کوئی بھی قوم ان کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائی۔
حال ہی میں امریکا نے جنوبی افریقہ کے سفیر کو ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دے کر ملک سے نکال دیا ہے۔
امریکا کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ کے سفیر کو ’پرسونا نان گریٹا‘ (ناپسندیدہ شخصیت) قرار دے دیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ‘ایکس ‘ پر اپنے ایک بیان میں امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا میں جنوبی افریقہ کے سفیر ابراہیم رسول کا ’اب ہمارے عظیم ملک میں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ابراہیم رسول ‘ریس بیٹنگ'( رنگ و نسل کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنانے والے) سیاست دان ہیں جو صدر ٹرمپ اور امریکا سے نفرت کرتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں جنوبی افریقہ کے سفیر سے کوئی بات نہیں کرنی، لہٰذا انہیں ‘ناپسندیدہ شخصیت’ قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اپنے اس بیان سے پہلے یا بعد میں اب تک ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جس سے پتہ چلتا ہو کہ جنوبی افریقہ کے سفیر نے واقعتاً ایسی کوئی بات کہی یا لکھی جس سے ان کی امریکا سے نفرت ٹپکتی ہو۔ ایسا کوئی بیان نہیں، ایسی کوئی ٹویٹ نہیں، ایسی کوئی تقریر نہیں۔ اس کے باوجود امریکی وزیر خارجہ کا جنوبی افریقہ کے سفیر کو امریکا سے نکالنے کا حکم نہ صرف عجیب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔
واشنگٹن میں جنوبی افریقہ کے سفارت خانےکی جانب سے امریکی وزیرِ خارجہ کے اس بیان پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں آیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکا اور جنوبی افریقہ کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔
اس سرد مہری کی وجہ امریکی سرکاری میڈیا جنوبی افریقہ کا ایک متنازعہ اراضی ایکٹ بتاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں جاری کیے گئے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں متنازع اراضی ایکٹ کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی امداد معطل کر دی تھی۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس متنازع ایکٹ کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں سفید فام افراد کی ملکیت والے زرعی فارمز پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ صدر نے کہا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کے کسانوں کو امریکا میں آباد ہونے کے لیے خوش آمدید کہیں گے۔
واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے چند روز قبل ایک پوسٹ میں اپنی حکومت کے ان اقدامات کا دفاع کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم آئین سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ماضی کے نسلی امتیاز کے اثرات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرے۔‘
امریکی صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ ہے کہ جنوبی افریقی حکومت زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے اور بعض طبقات کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کر رہی ہے۔ امریکی صدر کا بیان اس خیال پر مبنی ہے کہ جنوبی افریقہ کے سفید فام غیر قانونی طور پر زمینوں پر قبضے کا نشانہ بن سکتے ہیں، حالانکہ جنوبی افریقی حکومت نے اس خیال کی سختی سے تردید کی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جنوبی افریقہ کی حکومت کے جس قانون پر تنقید کر رہے ہیں، اسے ’ایکسپروپریشن ایکٹ‘ کا عنوان دیا گیا ہے جس میں حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عوامی مفاد میں ایک معاہدے کے تحت کوئی بھی زمین حاصل کرسکتی ہے۔ جبکہ اس زمین کے حصول کا مقصد وہ معاشرتی تفاوت ختم کرنا ہے جو سفید فام اقلیت کی حکمرانی میں نسل پرستی کے دور میں پیدا ہوا تھا۔
بعض ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی افریقہ پر اس لیے برہم ہیں کہ جنوبی افریقہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑ رہا ہے جس میں اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
امریکا میں اسرائیلی لابی ڈونلڈ ٹرمپ کو جنوبی افریقہ کے خلاف مختلف تدابیر سجھا رہی ہیں۔
تبصرہ کریں