غزہ کی آیہ عبدالرحمٰن 21 برس کی تھیں جب انھیں ڈاکٹرز نے بتایا کہ بس! آپ 2014ء کے اواخر تک ہی زندہ رہ سکیں گی۔
انسان کو معلوم ہوجائے کہ وہ فلاں دن مرجائے گا تو اس کی حالت کیا ہوگی، سوچنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ سارا عرصہ روتے، چیختے چلاتے ہی گزارے گا۔ ہوسکتاہے کہ اس دوران اس کی حرکت قلب ہی بند ہوجائے۔ تاہم آیہ عبدالرحمن کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اس کے جسم میں مختلف مہلک گلٹیاں تھیں۔
ڈاکٹرز نے آیہ کی والدہ سے کہا:’’ آپ کی بیٹی زیادہ سے زیادہ دومہینے جی سکے گی، آپ کچھ نہیں کرسکیں گی۔ اس لئے گھر چلی جائیں۔‘‘ ماں بھی بیٹی کے چھن جانے کے خوف میں بہت روئی ہوگی تاہم آیہ مسکرا رہی تھی، اس کے آنکھوں میں وہ خواب چمک رہے تھے جو اس نے بچپن ہی سے دیکھ رکھے تھے۔ وہ آرٹسٹ بننا چاہتی تھی اور اپنے فن کے ذریعے دنیا میں اپنا نشان ثبت کرنا چاہتی تھی۔
چنانچہ آیہ نے غزہ کی پٹی میں ہر موقع سے فائدہ اٹھایا، ہر جگہ اپنے فن پاروں کی نمائش کی، ان فن پاروں کو لے کر لاس اینجلس سے مراکش تک کے سفر بھی کئے۔ وہ آرٹ مقابلوں میں بھی حصہ لیتی ، غزہ کے مریض اور معذور بچوں کے ساتھ کام کرتی جو اپنے جذبات کا اظہار فن پاروں کے ذریعے کرتے تھے، آیہ عبدالرحمٰن نوجوانوں کو ڈرامہ اور اداکاری کی تربیت بھی دیتی۔
زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، موت کی ایک ساعت مقرر ہے، اسی وقت آتی ہے۔ فلسطینی لڑکی نے ڈاکٹروں کی بات ایک کان سے سنی اور دوسری سے نکال دی۔ بڑے خواب روح میں ایسا جادو پیدا کرتے ہیں جو زندگی میں ہلچل مچاتا ہے اور وہ عظمت سے سرفراز ہوتی ہے۔
آیہ عبدالرحمن کے خواب بھی بڑے تھے، انھوں نے اس پر سحر طاری کررکھاتھا۔ ڈاکٹروں کی سنائی ہوئی دردناک خبر اِس نوجوان لڑکی کو اپنے خوابوں کا پیچھا کرنے سے نہ روک سکی۔ اور پھر ایک دن وہ ڈاکٹرز اپنا سا منہ لے کر رہ گئے جب تین سال تک مسلسل آپریشنز سے گزر کر غزہ کی مشہور آرٹسٹ سن 2015ء میں صحت یاب ہوگئی۔
آیہ نے غزہ میں TEDx کے ایک اجتماع میں اپنی بیماری سے صحت یابی تک کی ساری کہانی بیان کی۔ وہ کہہ رہی تھی :’’ لوگوں کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنا ہی میرے لئے سب سے اہم ہے۔‘‘ اس نے بتایا کہ جس روز ڈاکٹروں نے اسے صحت یاب ہونے کی خوش خبری سنائی، وہ اس کی زندگی کا بہترین دن تھا۔’’میں لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھناچاہتی ہوں اور میرے فن پارے اس مقصد کے حصول میں میری مدد کرتے ہیں‘‘۔