سفر ایران کی ایک دلچسپ داستان
زاہدان: ایک مانوس اجنبیت
مسافر خانے کی خاموشی کو پیچھے چھوڑ کر میں زاہدان کی سڑکوں پر نکل آیا۔ صبح کی دھوپ میں یہ شہر اپنے درختوں، اپنے راستوں، اپنے موسم کے ساتھ مجھ سے پرانی شناسائی کا دعویٰ کر رہا تھا۔ میں ایک کال سینٹر کی تلاش میں تھا، مگر جیسے ہی میں نے قدم آگے بڑھائے، راستے مجھے کوئٹہ لے جانے لگے۔ یہ کشادہ سڑکیں، ان کے کنارے ایستادہ اونچے اونچے سرو کے درخت، مجھے لیاقت پارک کے آس پاس کی سنسان مگر مانوس گلیوں میں کھینچ رہے تھے۔ یوں لگا جیسے میں گورنر ہاؤس کی ٹھنڈی سڑک پر ہوں، جہاں ہوا میں ہمیشہ ایک نرم سی خنکی بسی رہتی ہے۔ زاہدان کے فٹ پاتھ مگر کوئٹہ سے کہیں زیادہ کشادہ تھے، جیسے شہر اپنے قدموں کو ذرا زیادہ وسعت سے خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہو۔
میں یونہی چلتا چلتا ایک کال سینٹر کے دروازے پر آ کھڑا ہوا۔ وہ زمانہ تھا جب موبائل فون کسی خواب کی مانند تھے اور پی سی او ہی دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ تھا۔ مگر جیسے ہی میں اندر داخل ہوا، ایک چونکا دینے والا منظر میرے منتظر تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے ایک دوشیزہ بیٹھی تھی، گہری کالی چادر میں لپٹی ہوئی، مگر چہرے پر مکمل اعتماد اور ہاتھوں میں مہارت کی روانی۔ میں نے پرچی پر نمبر لکھا اور اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے بغیر کسی تردد کے پرانے ڈائل والے فون پر انگلیاں گھمائیں، جیسے یہ محض ایک عمل ہو، کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن میرے لیے یہ خاص بات تھی۔
کوئٹہ میں اس وقت یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کسی دکان یا دفتر میں کوئی عورت یوں مردوں کے ساتھ کام کرے۔ مگر زاہدان میں، ایران میں، سب کچھ الگ تھا۔یہاں عورتیں زندگی کے دھارے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شریک تھیں۔
فون کا سلسلہ جُڑا، اور دوسری طرف ایک آواز فارسی میں گونجی۔ میں نے اردو میں اپنا مدعا بیان کیا کہ مولوی نذیر احمد سے بات کرنی ہے، مگر جواب میں فارسی کے چند مزید جملے سنائی دیے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ بلوچی جانتی تھیں، اور جب اس نے بلوچی میں کچھ کہا، تو میں نے فوراً مفہوم اخذ کر لیا۔ مولوی صاحب گھر پر موجود نہیں تھے۔ بلوچی میں گفتگو کرنے کی مہارت تو نہیں تھی، مگر سن کر سمجھنے کی صلاحیت بہرحال تھی۔ ایک اجنبی دیس میں، ایک غیر مانوس زبان میں، میں ایک مانوس پیغام کو پہچان چکا تھا۔
اب آگے کا مرحلہ سوچنا تھا۔ زاہدان کی گلیاں، کوئٹہ کی یادیں، اور میرے ذہن میں گھومتے راستے… سبھی ایک دوسرے میں تحلیل ہو رہے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج کی رات مسافر خانہ گیلان میں بسر کی جائے۔
سڑک پر چلتے ہوئے ہوا کے کسی جھونکے میں ایک لمحے کو کوئٹہ کی خوشبو محسوس ہوئی۔ شاید زمینیں بدل جاتی ہیں، شاید فاصلے بڑھ جاتے ہیں، مگر کچھ شہروں کے رنگ اور کچھ راستوں کے سائے ہمیشہ دل کے اندر ایک جیسے رہتے ہیں۔
سخاوت یا فضول خرچی؟
رات کا سناٹا ہوٹل کے کمرے میں دبے پاؤں داخل ہو رہا تھا۔ باہر زاہدان کی سڑکیں ویران ہو چکی تھیں، کہیں دور کوئی آوارہ کتا بھونک رہا تھا، جیسے مجھ سے پوچھ رہا ہو، ’کیا ملا اتنا سخی بن کر؟‘ میں بستر پر نیم دراز، اپنی جیبوں کے اندر جھانک رہا تھا، جہاں ہوا کے سوا کچھ نہ تھا۔ صبح تک جس کرنسی سے میری جیب پھولی ہوئی تھی، وہ یوں غائب ہو گئی تھی جیسے کسی درویش کی جھولی سے سکے۔ آج کسی فقیر کو نوازا، کل کسی ہوٹل والے کو امیر کر دیا، اور کسی چائے والے کو بخشش میں اتنی رقم تھما دی کہ وہ کئی دن تک مفت چائے پینے کے خواب دیکھے۔
یہ ایران کیا ہے؟ زمین پر بچھا ایک بچھونا، آسمان پر تنی ایک چادر، اور درمیان میں میں، جو نہ جانے کیوں اتنا سخی بن گیا تھا کہ جیسے کوئی سلطنت فتح کر کے آیا ہو۔ میرجاوہ کی کسٹم عمارت سے نکلا، تو زاہدان تک کی ٹیکسی لی۔ جیب سے نوٹ نکالے اور ٹیکسی والے کے ہاتھ میں رکھ دیے، یوں جیسے کوئی بادشاہ شاہی فرمان پر مہر ثبت کر رہا ہو۔ ’لو میاں، آج تم عیش کرو۔ دیکھو، سخاوت کس کو کہتے ہیں!‘ ٹیکسی والے نے شاید زیر لب مسکرا کر سوچا ہوگا، بیچارے پردیسی، ہمیشہ یوں ہی آتے ہیں۔
یہ عجیب احساس تھا۔ جیسے میں پاکستان میں عبدالمالک تھا اور ایران میں کوئی شاہی خاندان کا چشم و چراغ، جسے دولت لٹانے کا جنون ہو گیا ہو۔ ہوٹل میں داخل ہوا، کاؤنٹر پر کھڑے ایرانی نے جب کرایہ مانگا تو میں نے اپنی مٹھی بھر کے نوٹ اس کی طرف بڑھا دیے، جیسے کہہ رہا ہوں، یہ بھی رکھ لو، اور کچھ چاہیے تو بتاؤ! فون کال سینٹر میں بھی یہی واردات ہوئی، دو تین ہزار ریال یوں خاتون کے ہاتھ میں رکھ دیے جیسے صدقہ دے رہا ہوں۔ اور پھر وہ چائے والا۔ بیچارہ سوچ بھی نہ سکتا ہوگا کہ ایک کپ چائے کے بدلے اتنے ریال نچھاور کیے جا سکتے ہیں۔
مگر رات کے آخری پہر، جب میں مسافر خانے کے پلنگ پر لیٹا، تو ایک چبھتی ہوئی سرگوشی نے مجھے جھنجھوڑا۔ ’عبدالمالک! یہ سخاوت نہیں، یہ فضول خرچی ہے!‘ میں نے آنکھیں موند لیں، مگر وہ سرگوشی کسی آسیب کی طرح میرے گرد چکر کاٹتی رہی۔ ’پاکستان میں تم اتنے امیر نہیں تھے جتنا ایران میں بن بیٹھے ہو۔ کیا یہاں کی کرنسی میں کوئی ایسا جادو ہے کہ جیب ہلکی ہو جائے اور دل بھاری؟‘
یہ خود احتسابی کئی دن چلتی رہی۔ میں ایران کے بازاروں میں گھومتا، گلیوں میں آوارہ پھرتا، اور ہر جگہ مجھے اپنی ہی پرچھائیں دکھائی دیتی۔ کبھی سخاوت کا نقاب پہنے، کبھی فضول خرچی کا تماشا لگائے۔ اور تب مجھے احساس ہوا کہ شاید میں اکیلا نہیں تھا، یہاں سبھی اسی کیفیت میں مبتلا تھے۔ کسی کے لیے سخاوت ایک ضرورت تھی، کسی کے لیے ایک فریب، اور میرے لیے؟ شاید دونوں کا ایک عجیب امتزاج، جو میری جیب کو خالی اور دل کو بوجھل کر رہا تھا۔
مولوی نذیر احمد نے ملنے سے انکار کر دیا
زاہدان کی دوپہر میں ایک عجیب سی وحشت تھی، جیسے ہوا کے ذروں میں ریگستانی خاموشی گھلی ہو، جیسے سورج کی کرنیں زمین کو تپتی چادر میں لپیٹ رہی ہوں۔ میں خیابان خیام کی جانب بڑھ رہا تھا، جہاں جامع خیام کا بلند و بالا مینار اپنے ہی سکوت میں کھڑا تھا، جیسے وقت کی گردش سے بے نیاز ہو۔ اس کے دامن میں دارالعلوم زاہدان کی درسگاہ تھی، جہاں سیاہ و سفید عمامے علم کی روایت کا بوجھ اٹھائے صدیوں کے بوجھل قدموں کے ساتھ چل رہے تھے۔
ظہر کی نماز کے بعد مسجد کے وسیع و عریض صحن میں ایک عرب نوجوان سے سامنا ہوا۔ دبلی پتلی قامت، بھورے چہرے پر دھوپ کا عکس، اور لہجے میں وہی گرم لو جس سے خلیج فارس کے ساحل گونجتے ہیں۔ تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ بندر عباس سے آیا تھا۔ وہی بندر عباس، جہاں سمندر کی نمکین ہوائیں عربی اور فارسی کے سنگم پر بے سمت بھٹکتی ہیں۔
میں نے حیرانی سے پوچھا، ’ایران میں عرب…؟‘
وہ مسکرایا، جیسے میرے سوال کی سادگی پر محظوظ ہوا ہو، اور بولا، ’ہم یہاں ہمیشہ سے ہیں، بس نظر انداز ہوتے آئے ہیں۔‘
’مگر بندر عباس تو…‘ میں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
وہ میری الجھن بھانپ کر ہنسا۔ ’ہاں، بندر عباس میں عرب بھی ہیں، بلوچ بھی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو سرحدوں میں نہیں سماتے، لیکن سرحدیں ہمیں اپنے اندر سموئے رکھتی ہیں۔ فارسی بولتے ہیں، مگر ہمارے گھروں میں عربی سانس لیتی ہے۔ تمہیں شاید حیرت ہو، مگر ہمارے سمندر میں بہت سی زنجیریں ہیں، جو دکھائی نہیں دیتیں۔‘
پھر اس نے ذرا توقف کیا اور گویا ہوا، ’ایران میں صرف فارسی بولنے والے نہیں رہتے۔ ہمارے جیسے عرب خوزستان میں، اہواز میں، محمرہ میں، شیراز کے گردونواح میں بھی رہتے ہیں۔ کچھ ہمارے قبیلے فارس کی زمینوں میں بکھرے ہوئے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو تہران کی گلیوں میں اپنی پہچان چھپائے پھرتے ہیں۔ ایران میں بہت سی زبانیں سانس لیتی ہیں—بلوچی، کردی، آذری، لری—لیکن سب سے زیادہ سنی جانے والی زبان خاموشی ہے۔‘
میں نے سر ہلایا اور بات بدل دی۔ ’مولوی نذیر احمد صاحب کہاں ملیں گے؟‘
’وہ گھر پر ہیں۔ لیکن۔۔۔’ اس نے لمحے بھر کو توقف کیا۔ ’ملاقات مشکل ہوگی۔ وہ ہر کسی سے نہیں ملتے۔‘
یہ کہہ کر وہ اپنی پگڑی درست کرتے ہوئے مسجد کے دروازے کی طرف بڑھا اور میں پاس ہی موجود فون بوتھ میں داخل ہوگیا۔
میں نے سو ریال کا سکہ ڈالا اور کان سے ریسیور لگایا۔ دوسری جانب چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ایک سپاٹ، بیزار سی آواز ابھری۔
’جی فرمائیے، کون؟’
میں نے اپنا تعارف کرایا اور مولانا عبدالحق بلوچ صاحب کے مکتوب کا حوالہ دیا، مگر ان کے لہجے میں کوئی گرمجوشی پیدا نہ ہوئی۔
’مولوی صاحب، میں ایک مسافر ہوں، ایران کی سرزمین کو جاننے آیا ہوں۔ زاہدان سے آگے کون سا راستہ اختیار کروں، اس بارے میں رہنمائی چاہتا تھا۔‘
چند لمحے سکوت رہا، جیسے دوسری طرف کوئی بے دلی سے انگلیاں میز پر بجا رہا ہو۔ پھر ایک خشک، دوٹوک آواز سنائی دی، ’یہ معلومات تو کسی سے بھی مل سکتی ہیں۔ آپ کو میرے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے؟‘
میں نے وضاحت کی، ’مولانا عبدالحق بلوچ صاحب نے آپ کا نام دیا تھا۔ فرمایا تھا کہ آپ رہنمائی کریں گے۔‘
’میں بہت مصروف ہوں، ملاقات ممکن نہیں۔ مشہد جانا ہے۔‘
’لیکن۔۔۔‘ میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر فون لائن اچانک کٹ گئی۔ سکہ ختم ہو چکا تھا، اور مولوی نذیر احمد کی آواز، جو شاید میرے تعارف کے پہلے لفظ سے ہی کسی اور سمت مڑ چکی تھی، معدوم ہو گئی۔
میں نے چند لمحے خالی ہاتھوں کو دیکھا، جیسے وہ بھی اس ناکام مکالمے پر حیران ہوں۔
جامع خیام کے صحن میں قدم رکھتے ہی محسوس ہوا کہ کچھ دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوتے ہیں، اور کچھ دروازے مسافروں کی قسمت میں ہوتے ہی نہیں۔ مولوی نذیر احمد ایک مصروف آدمی تھے، سیاست کے پیچ و خم میں الجھے، زاہدان کے نقشے پر ایک نمایاں نام۔ میں ایک عام مسافر تھا، جو ایران کی خاک میں کہانیاں تلاش کرنے نکلا تھا۔ اور شاید یہ کہانی بھی اسی خاک میں دفن ہونے کے لیے تھی۔
میں نے دوسرے علما سے ملاقات کی کوشش ترک کر دی جن کے نام مجھے مولانا عبدالحق بلوچ نے لکھ کر دیے تھے۔ کچھ راستے خود ہی کنارے کر لیتے ہیں، کچھ کہانیاں بغیر انجام کے رہ جاتی ہیں، اور کچھ ملاقاتیں… کبھی ہونے کے لیے نہیں ہوتیں۔(جاری ہے)
تبصرہ کریں