بلوچ افراد ایران میں گپ شپ کر رہے ہیں

خاکِ فارس کا مسافر(8)

·

میں نے ایک ایرانی ٹیکسی والے سے بھاؤ تاؤ کیا اور زاہدان جانے کے لیے اس کی ٹیکسی میں سوار ہوگیا۔ سڑک دو رویہ تھی، بیچ میں چمکتی ہوئی سفید لکیر تھی جس نے ٹریفک کو مہذب بنانے کی کوشش کی ہوئی تھی۔ یہ ایران کا صوبہ سیستان و بلوچستان تھا، لہٰذا زمین پیاسی تھی اور سبزہ یتیم۔ مگر سڑک ایسی کہ بندہ اس پر سے دوڑتے ہوئے بھی تہران پہنچ جائے، پاکستانی بلوچستان کی سڑکوں کا خیال آیا تو آنکھ نم ہونے کو تھی۔

ابھی ہم کوئی تیس کلومیٹر ہی چلے ہوں گے کہ یکایک ٹیکسی والا ہنہنایا اور گاڑی کو سڑک سے اتار کر کچے میں لے گیا۔ ’قبلہ! یہ کیا ماجرا ہے؟‘ میں نے سوال کیا، مگر اس نے کانوں پر اپنی بلوچی پگڑی کے پھندنے لٹکائے اور جواب دینے کے بجائے جھاڑیوں کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ وہاں ایک بلوچ نقاب پوش کھڑا تھا، بالکل فلمی انداز میں، اور قریب ہی ایک سفید پک اپ کھڑی تھی جس کے پیچھے چند مشکوک مسافر بیٹھے تھے۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔

وہ پہلے تو کچھ نہیں بولا، پھر سر جھکا کر بولا، ’بس، مہمان! آگے ہمارا راستہ ختم ہوا۔ اب تمہیں اِن کے ساتھ جانا ہے۔‘

میں نے چونک کر پوچھا، ’مگر کیوں؟ تم تو زاہدان تک لے جانے کا وعدہ کر چکے ہو؟‘

نقاب پوش بلوچ آہستہ مگر رعب دار لہجے میں بولا، ’یہ ہمارا بندہ ہے۔ بس یہاں تک اِس کا کام تھا، آگے تم ہمارے مہمان ہو۔‘

میرے ساتھ والے مسافر نے تلملا کر کہا، ’مہمان؟ ایسے زبردستی کے مہمان تو ہم پہلی بار بنے ہیں!‘

ٹیکسی ڈرائیور نے کندھے اُچکائے اور بولا، ’مجھے تو بس کام بتایا گیا تھا، بندے پہنچانے کا۔ یہ علاقے کے اصول ہیں، تم سمجھو یا نہ سمجھو، ہمیں ان پر چلنا پڑتا ہے۔‘

نقاب پوش بلوچ نے ٹیکسی ڈرائیور کو دیکھا اور بولا، ’اب تم جاؤ، آگے بارڈر کے پاس مت رُکنا، سیدھا واپس نکلو!‘

ٹیکسی ڈرائیور نے سر ہلایا اور بولا، ’ہاں، میں جانتا ہوں، زیادہ دیر یہاں رکوں گا تو مشکلات بڑھ جائیں گی۔‘

میرے دل میں سوال اٹھا، ’یہ مشکلات کیا ہیں؟ کیا پولیس پیچھے پڑ سکتی ہے؟‘

نقاب پوش ہنسا، ’نہیں، یہاں پولیس کم آتی ہے، مگر ہر بندہ اپنا علاقہ دیکھتا ہے۔ ایک ہی بندہ بار بار نظر آئے تو سوالات اُٹھتے ہیں۔ اور سوالات یہاں زیادہ پسند نہیں کیے جاتے۔‘

ٹیکسی ڈرائیور نے نقاب پوش کی طرف مڑا، ’یہ اپنا حساب برابر کر دینا۔ میرا کام پورا ہوا۔‘

نقاب پوش نے سر ہلایا، ’ہو جائے گا۔ تم جاؤ۔‘

ٹیکسی والے نے ایک لمحے کے لیے میری طرف دیکھا، جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ ’تم بس خاموش رہو اور بہاؤ کے ساتھ بہتے رہو‘، پھر وہ گاڑی کو دھول اُڑاتے ہوئے واپس میرجاوہ کی طرف دوڑا لے گیا۔

میں نے نقاب پوش سے کہا، ’اور اگر ہم نہ جائیں تو؟‘

وہ مسکرایا، ’تب بھی جاؤ گے، لیکن آرام سے جانا بہتر ہے۔‘

پک اپ والا پہلے ہی گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بغیر کسی مزید بحث کے پک اپ میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔

ہم نے بغیر کسی مزید بحث کے پک اپ کے پچھلے حصے میں چھلانگ لگا دی۔ اور ہم اُس صحرا نشین بلوچ کے رحم و کرم پر رہ گئے۔

پک اپ والے نے گاڑی کو یوں کچے، پتھریلے راستوں پر دوڑایا جیسے کوئی دیوانہ گھوڑا سرپٹ بھاگ رہا ہو۔ گرد ایسے اٹھ رہی تھی جیسے کوئی بادل زمین پر اتر آیا ہو، اور وہی گرد ہمارے چہرے، لباس اور بالوں پر ایسے جم رہی تھی جیسے کسی قدیم کھنڈر پر دھول جمی ہوتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ سفر کچھ دیر اور جاری رہا تو ہمیں غسل دینے کے بجائے جھاڑو دینے کی ضرورت پڑے گی۔

پک اپ کبھی کسی خشک ندی میں جا گھستی، کبھی کسی پتھریلے راستے پر اچھلتی۔ جونہی کوئی نشیب آتا تو ہمارا دل بیٹھ جاتا، اور جونہی گاڑی دوبارہ اچھلتی تو سواریاں بھی فضا میں معلق ہو جاتیں۔ جب دھڑام سے نیچے گرتے تو کولہوں میں جو درد اٹھتا، وہ ہمیں اپنی ماؤں کی گود اور بچپن کی نرم زمین یاد دلاتا۔ پہلے تو یہ سب مہم جوئی لگا، لیکن آدھے گھنٹے بعد درد نے سرور کی جگہ لے لی، اور ہمارے حلق سے نکلنے والی چیخیں کسی گیت کا سا تاثر دینے لگیں۔

آخر کار، ہم ایک چھوٹے سے صحرائی گاؤں میں داخل ہوئے، جہاں تین چار مکانات زمین سے کچھ فٹ اونچے بنے ہوئے تھے۔ ہم ایک گلی میں داخل ہوئے ۔ یہ کچی گلی تھی۔ اس کے دونوں اطراف مکانات تھے ۔ لیکن ان کی دہلیز اونچی تھی۔ شاید بارش کے پانی کی وجہ سے اونچی رکھی گئی تھی۔ ہر گھر کے باہر ایک تھڑی تھی ۔ اس محلے کی گلیوں میں پتھر ہی پتھر تھے۔ جیسے کوئی خشک بارانی نالا ہو۔

ہمیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا جو مقامی طور پر مہمان خانہ کہلاتا تھا، اور دیواروں کے ساتھ بلوچی گدے اور گاؤ تکیے ترتیب سے رکھے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہی نقاب پوش بلوچ اندر آیا اور ایک صراحی میں ٹھنڈا پانی لایا ، اور سب نے باری باری اسی ایک صراحی سے منہ لگا کر اپنی پیاس بجھائی۔

’یہ لوگ گریزر ہے۔’ اس نے بلوچی لہجے میں وضاحت کی۔ میں سمجھ گیا کہ اس کی مراد سمگلر ہے۔ ’تم پریشان مت ہو۔ تم کو زاہدان لے جائے گا۔ یہ لوگ سراوان اور خاش جائے گا۔‘

میں نے سکون کا سانس لیا۔ تو گویا ہم اغوا نہیں ہوئے تھے، بلکہ سمگلروں کے کارواں میں شامل کر دیے گئے تھے۔ خیر، میں تو پہلے ہی مہم جوئی کے موڈ میں تھا، لیکن میرے ساتھ کے مسافر جو ایران میں کاروباری تھے، وہ کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آ رہے تھے۔

پک اپ والے نے ہمیں زاہدان کے ایک مسافر خانے ‘مہمان پذیر گیلان’ پر چھوڑ دیا، جو خیابان آزادی پر واقع تھا۔ ہم نے تین پلنگ والا کمرہ لے لیا۔ میرے دو ہمسفر، ایک پٹھان تاجر اور دوسرا ہزارہ تاجر، مجھ سے میرے سفر کا مقصد پوچھنے لگے۔

’بھائی جان، تم ایران میں کیا کرنے آیا؟‘ ہزارہ تاجر نے مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

’سیرو سیاحت کے لیے آیا ہوں۔‘ میں نے جواب دیا۔

پٹھان تاجر نے حیرت سے کہا، ’بس؟ ایسے ہی آ گئے؟ کوئی کام وام نہیں؟‘

ہزارہ تاجر نے سر ہلایا، ’تم مشہد ضرور جاؤ، وہاں امام علی رضا کا مزار ہے، بہت خوبصورت جگہ ہے۔‘

پٹھان نے فوراً مشورہ دیا، ’نہیں، تہران جاؤ۔ وہاں مزے کے کباب ملتے ہیں۔ اور ہاں، کسی ایرانی حسینہ سے گفتگو کا موقع ملے تو ہمارے حصے کی بھی بات کر لینا۔‘

ہم سب ہنس پڑے۔ میں نے سوچا کہ واقعی، یہ ایران کا سفر ہمیشہ یاد رہے گا، نہ صرف اس کی خوبصورت سڑکوں اور تہذیب کے لیے، بلکہ اس لیے بھی کہ میں نے ایک دن سمگلروں کے ساتھ گزارا تھا، وہ بھی بلا قیمت!(جاری ہے)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے