مال و دولت کے حوالے سے انسان کے ذہن اور طرزِ عمل کو متوازن، تعمیری، حقیقی اور فلاحی بنانے میں خیرات و زکوٰۃ کی ادائیگی کو ایک خاص اور بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی سے انسان پر یہ حقیقت واضح ہونا مطلوب ہے کہ جو کچھ اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے اس میں خود اللہ (بطور منشاء) اور اس کے بندے (بطور استحقاق) حصہ دار ہیں۔ مال و دولت کے بارے میں انسان کا رویہ تب تک حقیقی، تعمیری اور فلاحی نہیں بن سکتا جب تک وہ اس میں خدا اور اس کے مستحق بندے اپنے ساتھ شریک نہ سمجھیں۔ زندگی اور اس کے تمام تر وسائل اور ساز و سامان ایک آزمائش کے طور پر انسانوں کو ملے ہیں۔ ان کا نصیب ہونا یا ان سے محروم ہونا ایک قدرتی اور تاریخی عمل ہے اور یہ کہ اس کے طنابیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ یاد رہے کہ ہم زندگی کے مالک ہیں نہ ہی ان کے ساز وسامان کے، ہم بس ایک مدت تک ان کے صارف ہیں اور من جانب اللہ ان میں تصرف کے آزادانہ اور ذمہ دارانہ اختیار سے سرفراز ہوئے ہیں۔
خدا اور اس کا دین زندگی میں وسائل، مواقع، اختیار اور حقوق کے حوالے سے گردش کا حامی و طرف دار ہے۔ اللہ اس کو پسند کرتا ہے کہ زندگی کے لیے ضروری اور مطلوبہ ساری چیزیں متوازن رفتار، مقدار اور پیمانوں سے حرکت میں رہیں۔ یہ ایک جگہ یا کم جگہوں پر جمع اور مرتکز ہو کر نہ رہیں۔ دنیا میں اللہ زندگی اور اس کے وسائل اور اختیارات کے حوالے سے سب کے آزادانہ طرزِ عمل کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ کس کا عمل منصفانہ ہے اور کس کا ظالمانہ۔ کوئی محروم اور مجبور فرد یا قوم کے بارے میں وہ وقت اور موقع کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا کہ جس سے زندگی اور وسائل زندگی کے بارے میں ان کے آزادانہ طرزِ عمل کا مشاہدہ ہو سکے یہی وجہ ہے اللہ نے انسانی معاشروں میں انصاف کے قیام کو سب سے بڑا فرض اور مقصد قرار دیا ہے اور یہ حقیقت ہے انصاف کے بغیر انسانی معاشروں اور کردار کی تعمیر اور تشکیل قطعی ناممکن ہے۔
ایک ہے انصاف اور ایک ہے انصاف کے مددگار دوسرے عوامل، ان میں شفافیت، باہمی تعاون، اشتراک، احساس و ادراک اور خیرات و زکوٰۃ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے زندگی گزارنے کے لیے یہ دنیا ایک ہموار میدان نہیں یہاں لوگوں کے احوال اور اسباب یکساں حالت میں نہیں۔ یہاں وقت بہ وقت حادثات ہیں، یہاں نوع بہ نوع واقعات ہیں، یہاں تنوع ہے، یہاں تفریق ہے، یہاں لمحہ بہ لمحہ تغیرات ہیں، طرح طرح کے اتار چڑھاؤ پائے جاتے ہیں۔ ان سارے حقائق و احوال کا ادراک کرتے ہوئے ان میں ایک خاص توازن اور اعتدال لانے کے لیے خالق کائنات نے اپنی رہنمائی اور ہدایت میں ہر دور اور خطے کے اندر انصاف اور اس کے مددگار عوامل پر عمل کی تاکید اور احکام نازل فرمائے ہیں۔ کسی عمل کو حکم کے ذریعے فرض قرار دے دیا ہے تو کسی عمل کو محض مستحسن قرار دے کر اس کی ترغیب دی گئی ہے اسی طرح کسی عمل کو کسی حکم کے ذریعے حرام قرار دیا ہے یا کسی طرز عمل کو صرف غیر مستحسن کہہ کر ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا ہے علی ھذا القیاس۔ آئیے ہم انصاف کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کے سب سے اہم مددگار عمل یعنی زکوٰۃ کا جائزہ لیتے ہیں جس کو خالق کائنات نے فرض قرار دیا ہے۔
زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہے۔ یہ نہ صرف ایک مالی عبادت ہے بلکہ اس کے بے شمار سماجی، اخلاقی اور روحانی فوائد بھی ہیں۔ زکوٰۃ کا لفظی معنی پاکیزگی اور نمو ہے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ زکوٰۃ دینے والے کا مال پاک ہو جاتا ہے اور اس میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے معاشرے میں اقتصادی اور سماجی توازن قائم ہوتا ہے، غرباء اور مساکین کی ضروریات درست اور موثر طریقے سے پوری ہوتی ہیں اور یوں ایک مضبوط، مربوط اور ہمدرد معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
زکوٰۃ کی اہمیت قرآن کریم اور احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں بار بار بیان کی گئی ہے۔ ہم ایک حوالہ ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
"اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے”۔ (سورۃ النور، 24:56)
زکوٰۃ کی ادائیگی ایمان کا ایک اہم تقاضا ہے۔ یہ صرف مال کی عبادت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنانے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے اور یوں نتیجتاً اس کے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ برکت ایک معنوی حقیقت ہے جو کہ آسودگی، فراخی، اکتفاء و اطمینان، رسائی و رسانی اور صحت و طمانیت جیسی صفات کا احاطہ کر رہی ہے۔
زکوٰۃ معاشرے میں نفع رسانی، ہمدردی اور مددگاری کا مظہر ایک عظیم اور پائدار عمل ہے۔ زکوٰۃ کے مالی ثمرات معاشرے کے ہر طبقے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جو کہ نہ صرف فلاحی معاشرے کے قیام کو ممکن بناتا ہے بلکہ بے کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں نمودار ہونے والے منحوس اثرات کو بھی کم سے کم کرتا ہے اور معاشرے میں ضروری اقتصادی توازن اور عمومی خوشحالی پیدا کر رہا ہے۔ آئیے زکوٰۃ کے مختلف النوع فوائد کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں:
زکوٰۃ کی ادائیگی سے غریب اور ضرورت مند لوگوں کی فوری مالی مدد ہوتی ہے۔ یہ ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں خاطر خواہ مدد دیتی ہے، جیسا کہ خوراک، لباس و پوشاک، علاج معالجہ اور رہائش وغیرہ۔ اس طرح زکوٰۃ کی رقم سے معاشی سرگرمیوں کو باقاعدہ فروغ ملتا ہے۔ زکوٰۃ کی صورت میں جب غریب لوگوں کو مالی مدد ملتی ہے تو وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کاروبار بھی شروع کر سکتے ہیں، جس سے معاشی حجم اور سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی سے دولت کی گردش بڑھتی ہے جس سے دولت صرف امیروں کے پاس مرتکز نہیں رہتی بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات میں تقسیم ہو جاتی ہے، جس سے ایک طرف معاشی عدم توازن کم سے کم ہوتا ہے تو دوسری طرف عمومی خوشحالی کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کے مالی فوائد کے ساتھ ساتھ سماجی فوائد بھی ٹھوس اور واضح ہیں آئیے ان کا بھی ذرا نظارہ کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے زکوٰۃ کے سماجی فوائد بھی بے شمار ہیں۔ یہ معاشرے میں ہمدردی، خلوص، بھائی چارے، اور اتحاد کو فروغ دیتی ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے غربت کے خاتمے میں مدد ملتی ہے۔ جب امیر لوگ اپنے مال کا ایک مقرر حصہ (ڈھائی فیصد) غریبوں کو دیتے ہیں تو معاشرے میں غربت کی شرح کم ہوتی ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی سے معاشرے میں باہمی ہم آہنگی اور خیر خواہی پیدا ہوتی ہے۔ یہ امیر اور غریب کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کرتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی ہمدردی اور تعاون کا جذبہ پیدا کر رہی ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کی رقم سے معاشرے کے کمزور طبقات کو تحفظ ملتا ہے۔ یہ ان کی فوری اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہے اور انہیں معاشرے میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔
مالی اور سماجی فوائد کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی میں اخلاقی فوائد اور ثمرات بھی بڑے پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ معاشرے میں زکوٰۃ کے اخلاقی فوائد بہت زیادہ اہم ہیں۔ یہ انسان کے اندر بے لوث محبت، ہمدردی، خلوص اور ایثار کا جذبہ پیدا کر رہی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان کے اندر بے لوث محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ زکوٰۃ عملاً اس بات کی تربیت دیتی ہے کہ انسان دوسروں کی مدد پر آمادہ رہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے یعنی بندہ معاشرے میں حساس رہے بے حس نہیں، متعلق رہے لاتعلق نہیں، فعال رہے غیر فعال نہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان کے اندر ہمدردی اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ زکوٰۃ اس غیر معمولی خوبی کو پروان چڑھاتی ہے کہ انسان دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان مال کی محبت سے نجات پاتا ہے۔ قدرتی حدود سے زیادہ مال کی محبت ایک بہت بڑی انسانی علت ہے اور بے شمار فسادات کی جڑ بھی۔ زکوٰۃ اس بات کی تربیت دیتی ہے کہ انسان مال کو صرف اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرے نہ کہ اس کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو جائے۔
زکوٰۃ کا ایک اہم مظہر اس کے روحانی فوائد بھی ہیں۔ روحانیت زندگی کا ایک بہت ہی گہرا پہلو ہے۔ یہ انسانی عظمت کی سب سے بلند سطح ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر انسان، انسانیت کے لیے خیر اور بھلائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ انسان انسان کے لیے تب نفع رساں بنتا ہے جب وہ خدا کے قریب ہو جائے۔ زکوٰۃ انسان کے دل کو پاکیزہ بناتی ہے اور اسے اللہ کے قریب کرتی ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان کا دل پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ زکوٰۃ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اپنے دل کو مال کی نامطلوب محبت سے پاک کرتا ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے۔ زکوٰۃ سے مال خرچ کرنے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی سے مسلسل انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی تربیت دیتی ہے کہ انسان اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اپنی روح کو پاکیزہ کرے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کے قریب ہو۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کا ایک اہم پہلو اس کے مصارف ہیں۔ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں۔ زکوٰۃ کے مصارف کا ذکر قرآن مجید کے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ:
"صدقات (زکوٰۃ) تو صرف فقیروں، مسکینوں، زکوٰۃ وصول کرنے والوں اور وہ جن کے دل اسلام کی طرف مائل کیے جائیں، غلاموں کی آزادی کے لیے، قرض داروں کے لیے، اللہ کے راستے میں (جدوجہد کرنے والوں کے لیے)، اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔”
زکوٰۃ کے آٹھ مصارف مندرجہ ذیل ہیں:
1. فقراء: وہ لوگ ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوں۔
2. مساکین: وہ لوگ ہیں جو فقیروں سے بھی زیادہ تنگ دستی کا شکار ہوں۔
3. عاملین علیہا: وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ وصول کرنے اور تقسیم کرنے پر مامور ہوں۔
4. مؤلفۃ قلوبہم: وہ لوگ ہیں جن کے دل اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جائے۔
5. فی الرقاب: اس سے مراد غلام ہیں۔
6. غارمین: وہ لوگ ہیں جو قرض کے بوجھ تلے دبے ہوں۔
7. فی سبیل اللہ: اس سے مراد اللہ کے راستے میں جد و جہد کرنے والے یا دوسرے دینی کاموں میں مصروف لوگ ہیں۔
8. ابن السبیل: مسافر یا راہ گیر جو سفر میں تنگ دست ہو۔
یہ آٹھ وہ مصارف ہیں جن میں زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے۔
زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم رکن ہے، جو کہ نہ صرف ایک مالی عبادت ہے بلکہ اس کے سماجی، فلاحی، اخلاقی اور روحانی فوائد بھی بے شمار ہیں۔ زکوٰۃ معاشرے میں اقتصادی توازن، اخلاقی احساس، روحانی بالیدگی اور جذباتی وابستگی پیدا کر رہی ہے مزید برآں غربت کا خاتمہ کرتی ہے، اور انسان کے دل کو طرح طرح کی علتوں سے پاک کرنے میں ایک مددگار عنصر ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے اور رفتہ رفتہ ایک مضبوط اور ہمدرد معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس فریضے کی ادائیگی اپنی زندگی کا ایک اہم فرض بنائے، اسے باقاعدہ نبھائے اور اس کے بے شمار فوائد سے خود بھی مستفید ہو اور اس کے ذریعے معاشرے کے فلاح و بہبود میں فعال حصہ دار بنے۔
تبصرہ کریں