گردش، سید عنایت اللہ جان

ادب: امن، ہم آہنگی، رواداری اور تعلقات کی استواری کا طاقتور ذریعہ

ادب ایک ایسا شفاف آئینہ ہے جس میں کسی بھی قوم کے اخلاقیات، رجحانات، جذبات، احساسات، خیالات، نظریات، توقعات اور اقدار کا نظارہ بہت ہی وضاحت سے کیا جا سکتا ہے۔ انسان کی فطرت اور رجحان اللہ تعالیٰ نے خیر کی طرف پھیر دیا ہے۔ انسان اپنی اسی کیمسٹری کی بدولت خیر، سچائی، انصاف اور تعمیر کے ساتھ سکون، آسودگی اور اطمینان محسوس کر رہا ہے جبکہ ظلم، زیادتی، تخریب اور فتنہ و فساد کے ساتھ کبھی بھی ایک فرد یا قوم ریلیکس محسوس نہیں کر رہی۔

ادب انسان کے ذہن، ایمان، عقل، تجربات، زبان، احساس، اور توقع کا ترجمان ہوتا ہے۔ ادب ہی میں قوموں اور تہذیبوں کی عکسبندی ہوتی نظر آتی ہے۔ انسانی ذہن، نظریات، جذبات، احساسات، توقعات اور ضروریات منجمد نہیں بلکہ ہر دم متحرک رہتی ہیں۔ اس لیے تاریخ کے تسلسل نے معاشروں میں تنوع کو جنم دیا ہے۔ انسانی وجود، بقاء اور ارتقاء کی بے شمار مصالح اسی تنوع کے ساتھ جڑی ہیں۔ مطلق تنوع میں خیر کے امکانات ہوتے ہیں نہ کہ شر کے خدشات۔ ذہن روح اور دل میں اگر وسعت اور کشادگی ہو تو تنوع کبھی مسئلہ نہیں لگے گا اور اگر تنگ نظری، ناواقفیت، اور جہالت حاوی رہیں تو تنوع ناقابل برداشت علت محسوس ہوتی ہے۔

دنیا میں امن، ہم آہنگی، استحکام اور اشتراک کو فروغ دینے میں ادب کا کردار انتہائی اہم اور گہرا ہے۔ ادب صرف الفاظ کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ یہ انسانی جذبات، خیالات، تجربات اور تہذیبوں کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے۔ یہ معاشروں کے مختلف طبقات کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اور انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ ادب کے ذریعے ہم دوسروں کے حال احوال، ذوق و مزاج، رجحانات و ترجیحات، دکھ درد، خوشی و راحت، امید اور خوف کو سمجھ سکتے ہیں، جو کہ آگے چل کر باہمی روابط، تعلقات، ہم آہنگی، شناسائی اور اشتراک کی بنیاد بنتا ہے۔

ادب مختلف ثقافتوں، معاشروں، مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان ضروری ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ جب ہم دوسری ثقافتوں کی ادبی تخلیقات پڑھتے ہیں، تو ہمیں ان کے رہن سہن، عقائد و نظریات اور آداب و روایات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ افہام و تفہیم کا یہ عمل نفرتوں کو ختم کرتا ہے اور باہمی عزت و احترام کو فروغ دیتا ہے۔ مثلاً، حافظ شیرازی کے گلستان بوستان میں پند و نصیحت کی موتی بکھرے ہیں، مولانا روم کا معروف شعری مجموعہ مثنوی معنوی نے دنیا بھر کے لوگوں کو محبت، رواداری اور روحانیت کا درس دیا ہے۔ اس طرح کنفیوشس کی تعلیمات میں انسان کے معیاری کردار اور مطلوبہ سماج کے نقش و نگار واضح ہو رہے ہیں اس طرح، ٹالسٹائی کے ناول "جنگ اور امن” نے انسانی المیوں اور امن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اس طرح علامہ اقبال کے کلام نے خودی، آزادی اور قومی وقار جیسے تصورات کو نمایاں کیا ہے۔

ادب انسان کے جذبات اور احساسات کو گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ یہ ہمیں دوسروں کے دکھ اور خوشی کو محسوس کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ جب ہم کسی کے دکھ کو سمجھتے ہیں، تو ہمارے اندر ہمدردی اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہمدردی معاشرے میں یا معاشروں کے درمیان حقیقی امن، آگہی اور سلامتی کی بنیاد ہے۔ مثلاً، چارلس ڈکنز کے ناول "اولیور ٹوئسٹ” نے معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کے مسائل کو اجاگر کیا، جس سے لوگوں میں سماجی انصاف کے لیے بیداری پیدا ہوئی۔ اس طرح معروف یورپی فلسفی سورن کیرکیگارڈ کا زندگی کو سچائی اور نیکی کے ساتھ جوڑنے کا تصور اپنی جگہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔

ادب ہمیں تاریخ کے اہم واقعات اور ان کے نوع بہ نوع اثرات سے آگاہ کرتا ہے۔ یہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ تاریخی ناول، ڈرامے اور شعری تخلیقات ہمیں بتاتے ہیں کہ جنگ، نفرت اور تعصب کس طرح معاشروں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ مثلاً، جارج اورویل کا ناول "نینٹی ایٹ فور” ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جہاں آزادی اور انسانی حقوق کو کچل دیا جاتا ہے۔ یہ ناول ہمیں ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔

ادب مختلف نظریات، عقائد اور ثقافتوں کو یکجا کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تنوع انسانی معاشرے کی خوبصورتی ہے، نہ کہ ناقابلِ عبور اختلافات کی وجہ۔ جب ہم مختلف زبانیں، ثقافتیں اور روایات کو سمجھتے ہیں، تو ہمارے اندر رواداری اور ہم آہنگی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً، ہندوستانی ادب میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی تحریریں ہندوستان کی تنوع پر مبنی ثقافت کو اجاگر کرتی ہیں۔

ادب امن اور اشتراک کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جنگ اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ بلکہ، مکالمہ، تعاون اور باہمی احترام ہی کسی بھی تنازعے کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ مثلاً، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی تقاریر اور تحریریں امن اور مساوات کے لیے جدوجہد کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی تحریریں آج بھی دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور آزادی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

ادب معاشرتی تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ معاشرے کے غلط روایات، تعصبات، جمود، تفریق اور ناانصافیوں کو اجاگر کرتا ہے اور لوگوں کو ان کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ مثلاً، علامہ محمد اقبال کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی روح پیدا کی اور انہیں اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی ہمت دی۔ آج علامہ اقبال کے کلام سے دلچسپی اور محبت صرف پاک و ہند میں ہی نہیں بلکہ ترکیہ، ایران، وسطی ایشیاء اور یورپ تک میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح، افریقی ناول نگار چنوا اچیبے کی تحریروں نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف بھرپور آواز بلند کی اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوئے۔

ادب بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جب مختلف ممالک کے ادبی تخلیقات کا ترجمہ کیا جاتا ہے، تو لوگ ایک دوسرے کی ثقافتوں اور روایات کو سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ افہام و تفہیم کا عمل بین الاقوامی تعلقات کو بہتر بناتا ہے اور عالمی امن اور سلامتی کو فروغ دیتا ہے۔ مثلاً، جاپانی ادب نے مغربی دنیا کو جاپانی ثقافت اور فلسفے سے بخوبی روشناس کرایا تھا۔ مثلاً میں زندگی میں کبھی وسطی ایشیائی ممالک نہیں گیا لیکن وہاں ثقافت، مزاج، روحانیت اور سماجی قدروں سے بے تحاشا دلچسپی ہے۔ اس طرح عرب ثقافت، دینی شناخت اور تاریخی اہمیت سے میں بے انتہا محبت رکھتا ہوں۔ کروڑوں نوجوان ایسے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں جو مختلف اسباب سے دوسرے خطوں، معاشروں اور ثقافتوں سے دلچسپی اور محبت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سیاست، معیشت، روابط اور تعلقات میں اتنی وسعت قلبی ہونی چاہیے کہ ادب، روحانیت اور ثقافتوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے راستے کھل سکیں۔

ادب انفرادی اور اجتماعی شعور کو بیدار کرتا ہے۔ یہ ہمیں عالمی اور علاقائی سطح پر اپنے ارد گرد کے ماحول، معاشروں اور دنیا کے بارے میں سوچنے سمجھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ جب ہم ادب پڑھتے ہیں، تو ہمارے اندر ایک نئی سوچ اور احساس پیدا ہوتا ہے جس سے رفتہ رفتہ عالمی شعور کی سطح بلند ہوتی ہے۔ آگے چل کر یہ شعور ہمیں اجتماعی اور انفرادی زندگی کے بارے میں بہتر فیصلے کرنے اور انسانی معاشروں کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کی ترغیب اور جذبہ دیتا ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن جنگوں، نفرتوں، تفریق اور تناؤ سے بھری دنیا میں ادب امن، ہم آہنگی، روابط، ہمدردی، استحکام اور اشتراک کو فروغ دینے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ یہ ہمیں دوسروں کے احوال، جذبات، خیالات اور تجربات کو سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ یہ نفرتوں کو ختم کرتا ہے، جنگوں کا راستہ روکتا ہے، رواداری کو فروغ دیتا ہے اور معاشروں کو مثبت اور تعمیری تبدیلی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ادب کے مطالعے کو اپنی زندگیوں کا باقاعدہ حصہ بنائیں، تو ہم ایک بہتر، خوشحال، مطمئن اور پرامن دنیا کی تعمیر یقینی بنا سکتے ہیں۔ ادب ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم سب انسانیت کے مختلف حصے ہیں، اور ہمارا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بہتر انداز میں رہنا ہیں۔

موجودہ عالمی اور علاقائی منظر نامہ اس بات کا شدت سے متقاضی ہے کہ باہمی ہم آہنگی، روا داری، تنوع اور اشتراک کو فروغ دینے کے لیے ادب کو بطور ایک وسیلہ اختیار کیا جائے۔ ادب کے دائرے میں وہ موثر امکانات اور ساز و سامان دستیاب ہے جو کہ افراد اور اقوام میں دوستی اور تعلقات کی استواری کے لیے درکار ہے۔ آئیے اس حوالے سے ممکنہ صورتوں کا ایک طائرانہ سا جائزہ لیتے ہیں

سب سے پہلے مختلف ثقافتوں، مذاہب اور معاشروں سے تعلق رکھنے والے مواد یعنی کتابوں، ادبی رسائل و جرائد، کہانیوں، سفر ناموں، نظموں اور ناولوں کو پڑھنے پڑھانے، چھاپنے اور پھیلانے پر توجہ مرکوز رکھیں اس سے لوگوں کو دوسرے لوگوں اور قوموں کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملی گی۔ اس طرح بین الثقافتی ادبی میلے، تقریبات اور مقابلے منعقد کرنا چاہیے جہاں مختلف ثقافتی ادب کو پیش کیا جائے۔ اس طرح دنیا بھر کے ادب کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنا چاہیے تاکہ لوگ دوسری ثقافتوں سے متعلق خیالات اور تجربات سے آگاہ ہو سکیں۔ اس طرح ترجمہ شدہ ادب کو اسکولوں، کالجوں اور لائبریریوں میں شامل کریں۔

 ادبی مباحثوں، کتابوں کا تبادلہ اور مکالموں کا انعقاد کرنا بھی ضروری ہے جہاں لوگ مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ ایسے مباحثوں میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو شامل کرنا تاکہ رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ مل سکے۔ اس طرح تاریخی اور ثقافتی ادب کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا تاکہ طلباء کو مختلف تہذیبوں اور ان کے اقدار کے بارے میں علم ہو۔ اس طرح ادب کے ذریعے تنازعات کے حل اور امن کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرنا مثلاً ادب کو سماجی مسائل جیسے نسلی امتیاز، علاقائی تعصبات، اور معاشی عدم مساوات کو اجاگر کرنا اور ایسے ادب کو فروغ دینا جو سماجی انصاف، بین الاقوامی روابط اور انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہو۔

نوجوانوں کو ادبی تربیت دے کر باقاعدہ انسان دوست، علم دوست اور اقدار دوست ادب تخلیق کرنے اور پڑھنے کی ترغیب دینا چاہیے خاص طور پر ایسا ادب جو امن، خیر خواہی، مثبت آگہی، انسانی ہمدردی اور ہم آہنگی کے موضوعات پر مبنی ہو۔ اس طرح نوجوان مصنفین کے لیے مختلف ورکشاپس، مقابلے اور اسکالرشپس کا انعقاد بھی مددگار عامل ہے۔

ہمیں ایسے ادب کو فروغ دینا ہوگا جو نفسیاتی طور پر لوگوں کو وقار، تحرک، سکون اور ہم آہنگی فراہم کرے۔ فی زمانہ لوگ طرح طرح کے الجھنوں اور مسائل کا بری طرح شکار ہیں مختلف ادبی سرگرمیوں کے ذریعے تناؤ، اضطراب اور دیگر نفسیاتی مسائل پر صحت مند ادبی سرگرمیوں کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسے ادب کو فروغ دینا ہوگا جو عالمی امن، روابط، انسانی حقوق اور بین الاقوامی تعاون کی حمایت کر رہا ہو۔ اس طرح ادب کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے بلاگز، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر پھیلانا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔ آن لائن ادبی کمیونٹیز بنانا، جہاں لوگ اپنے خیالات کا تبادلہ کر سکیں۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے