عدالتی اصلاحات پر سننے کو بہت کچھ مل رہا ہے۔ آج کچھ حوصلہ بھی ملا کہ لاہور ہائیکورٹ میں چار سیشن جج، ایڈیشنل جج ہائیکورٹ مقرر ہو گئے۔ چند ہفتے قبل ایک اور سیشن جج کی بھی یہی تقرری ہوئی تھی۔ یوں مجھے موجودہ چیف جسٹس سے کچھ توازن کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ورنہ لاہور ہائیکورٹ کے تین درجن سے زائد ججوں میں ایسا ایک جسٹس نہیں تھا جو ضلعی عدلیہ سے لیا گیا ہو۔ یہی حال سپریم کورٹ کا ہے جہاں آج وہ ایک جج نہیں جس نے سیشن جج سے ترقی پائی ہو۔ باقی صوبوں کی حالت کچھ بہتر ہے جہاں کچھ سیشن ججوں کی ترقی ہو ہی جاتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ پر جس طرح چیمبر قابض ہیں، اس کی ایک مثال سپریم کورٹ ہے جہاں ایک چیمبر کے تین معزز جج موجود ہیں جو یقیناً عادل ہوں گے لیکن جہاں اصل عدلیہ کی سرے سے نمائندگی ہی نہ ہو، وہاں یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ادارہ خود اپنی ’رعایا‘ سے انصاف نہیں کرتا۔
ضلعی عدلیہ آج جس بے چینی کا شکار ہے، اسے وکلا چیمبروں سے آئے جج نہیں سمجھ سکتے۔ سچ پوچھیں تو جو بُری بھلی عدلیہ موجود ہے، وہ بڑی حد تک ضلعی سطح ہی پر باقی ہے۔ براہ راست آئے جج عدالتی روایات سے واقف ہوتے ہیں، نہ کسی تربیتی عمل سے گزرے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی جسٹس گلزار ہوتے ہیں، کبھی سلطان راہی کا خلا پُر کرنے کو ثاقب نثار بن جاتے ہیں تو کبھی جسٹس بندیال ٹارزن کی سی لمبی زقندیں بھرتے ہیں پر منزل پر نہیں پہنچتے۔ 90 دن میں عام انتخابات کرانے کا حکم یاد کر لیجیے۔ لہذا ضروری ہے کہ وزیراعظم بذریعہ پارلیمانی قانون آئینی تقاضوں کے مطابق بار اور بینچ میں توازن پیدا کریں۔ بار سے جج لینے کی صورت میں ان کے لیے کڑی شرائط رکھی جائیں۔ تقرری سے قبل ان کے نام مشتہر کر کے خوب بحث کی جائے تاکہ ان کی شخصیت کا ہر پہلو سامنے آ جائے۔
اصل تو یہ ہے کہ وزیراعظم ہی نہیں، تمام با اختیار لوگ عدل کو عادت بنالیں۔ عدل صرف عدالتوں میں نہیں ہوتا۔ یہ شے کو مقررہ جگہ پر رکھنے کا نام ہے۔ یہی عدل کی تعریف ہے۔ شے کو اپنی جگہ کی بجائے کہیں اور رکھ دیا جائے تو اسے ظلم کہتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن میں حکومت اور حزب مخالف یہ سوچ کر اپنے اپنے وکیل کو جج بنانے پر مصر ہوں کہ اپنا آدمی ہے، کل کام آئے گا تو وہ نواز شریف کا حشر یاد رکھ لیں۔
1993 میں اسمبلیاں توڑی گئیں تو اسمبلی بحالی کے لیے نواز شریف کے وکیل خالد انور تھے۔ ثاقب نثار نامی شخص ان کا نائب تھا۔ وہیں سے وہ دیگر نااہل سرنگیوں کی طرح نواز شریف کے قریب ہوکر سیکرٹری قانون بن گئے۔ دفتری تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ تھا کہ ایڈووکیٹ کو براہ راست وفاقی سیکرٹری بنا دیا جائے۔ یہی نہیں، 28 مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں سے ہفتہ پہلے نواز شریف نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا جج بنا کر اپنی سیاسی قبر پر قلم چلا دیا۔ اس کے اثرات ڈیڑھ عشرے بعد ان کے سامنے آئے۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ کا قول ہے ‘جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو‘۔ جوڈیشل کمیشن سے میں نے بس یہی کہنا ہے۔
دستور بینچ اور بار دونوں کو عادلانہ مواقع دیتا ہے لیکن عملاً صورت حال بالکل برعکس ہے۔ سول جج کو اپنے سیشن جج سے ملنے کی خاطر وقت لینا پڑتا ہے۔ سیشن جج کا اپنے چیف سے ملنا تو اور بھی مشکل ہے۔ شہر سے باہر جانے سے قبل انہیں اپنے انتظامی جج سے اجازت درکار ہوتی ہے۔
دوسری طرف وکلا کے پاس اپنی شخصیت سازی کے بے پناہ مواقع ہوتے ہیں۔ یہ لوگ پریس کانفرنسوں میں عدالتی فیصلوں پر کھلے عام بحث کر کے راستہ بنا لیتےہیں، ٹی وی پر آ کر اعلیٰ عدلیہ کی تعریفیں کرتے ہیں، جب اور جہاں چاہیں جوڈیشل کمیشن کے ارکان اور اعلیٰ عدلیہ سے مل سکتے ہیں، پارٹیوں کے نام پر فیصلہ ساز قوتوں کی قربت حاصل کرتے ہیں، محکمانہ روابط کے ساتھ انہیں فیصلہ سازوں سے خاندانی روابط قائم کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اخباری کالم لکھ کر بھی سرنگیں لگاتے ہیں۔ ادھر سیشن جج کا جوڈیشل کمیشن کے کسی رکن سے ملنا تو درکنار وہ اسے سلام تک نہیں کر سکتا۔ ایسی حرکت کے مرتکب جج کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ یوں سیشن جج کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے اکھاڑے میں پھینک دیا جاتا ہے کہ جاؤ اب وکیل سے مقابلہ کرو۔
پہلے پہل تین ریاستی زمروں سے اعلیٰ عدلیہ کی تقرریاں ہوتی تھیں: ضلعی عدلیہ، عدالتی تجربے والے انتظامی افسران اور وکلا۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی پر عدالتی تجربے والا انتظامی افسران کا زمرہ ختم ہو گیا۔ اب ضلعی عدلیہ اور بار ہی سے اعلیٰ عدلیہ کے جج لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن آئینی تقاضوں پر ذیلی قانون نہ ہونے کے سبب اعلیٰ عدلیہ میں وکلا کی تعداد غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ ہائیکورٹوں میں ضلعی عدلیہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں مطلقاً باقی نہیں ہے۔ ضلعی عدلیہ کے جج مختلف امتحانات اور کورسوں سے گزر کر سیشن جج بنتے ہیں۔ وکلا کے لیے کسی کورس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مطلوبہ عرصہ وکالت پورا ہوتے ہی ان کا اپنا ادارہ لائسنس جاری کر دیتا ہے۔ عرصہ وکالت کتنا ہے؟ یہ مت پوچھیے! ایک صاحب بولے: ’میں ایک دن— جی ہاں ایک دن— عدالت میں پیش نہیں ہوا لیکن ہائیکورٹ کا لائسنس یافتہ ہوں، جب چاہوں سپریم کورٹ کا لائسنس بھی لے سکتا ہوں۔‘
اگر ابھی اس پر قانون سازی وزیراعظم یا پارلمان کی ترجیحات میں نہ ہو تو یہ کام خود عدلیہ بذریعہ قواعد بھی کر سکتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ چیف جسٹس ضلعی عدلیہ کو عدلیہ کا حصہ قرار دے کر مجوزہ عدالتی اصلاحات میں سیشن ججوں کی یہ بےچارگی بھی سامنے رکھ لیں۔ انتظامی افسران والا زمرہ نہ ہونے کے باعث لازمی ہے کہ وہ ایک تہائی اسامیاں، ضلعی عدلیہ کی ایک تہائی اسامیوں میں شامل کر کے انہیں دو تہائی کر دیا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کی بقیہ ایک تہائی اسامیوں پر وکلا ضرور تعینات کیے جائیں لیکن چھان پھٹک کے مضبوط دفتری نظام سے گزارنے کے بعد ہی یہ کام کیا جائے۔ وکلا کو جج بنانے سے پہلے ان پر کھلے عام بحث کی جائے۔ تبھی مناسب عدلیہ وجود میں آ سکتی ہے، اسے مضبوط کرنا اگلا مرحلہ ہے۔ فی الوقت اعلیٰ عدلیہ پر بہت بڑی حد تک چیمبروں کا قبضہ گروپ براجمان ہے۔
تبصرہ کریں