سفرنامہ-ایران

خاکِ فارس کا مسافر(7)

·

یہ زمین اجنبی نہیں تھی، یہ راستے غیر مانوس نہیں تھے۔ ہوا میں وہی مانوس مہک بسی تھی، جیسے کوئٹہ کےقندھاری بازار میں تازہ دنبہ کباب کی خوشبو اور زاہدان کے سنگلاخ پہاڑوں سے آتی ہوئی خشک ہوا۔

میں میرجاوہ کی سرحد پر کھڑا تھا، مگر یوں لگتا تھا جیسے یہ کوئی لکیر نہیں، بس ایک رسمی سا بہانہ ہے۔ ایک کاغذی دیوار، جو وقت کے ساتھ ساتھ کبھی برطانوی ہند کے لیے سرحد تھی، کبھی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کے لیے، اور اب اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے لیے۔ مگر بلوچ زمین کی مٹی کو کیا پرواہ کہ اسے کس نام سے پکارا جائے؟ وہ تو ویسی کی ویسی ہی ہے، بس نقشِ قدم بدلتے رہتے ہیں۔

یہ وہی میرجاوہ تھا جہاں سے میرے دادا، ڈاکٹر محمد یونس، کئی مرتبہ زابل گئے تھے، جہاں وہ برطانوی قونسل خانہ میں دواساز تھے۔ زابل؟ جی ہاں، وہی زابل، جو شاید اُس وقت بھی ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اور آج بھی چھوٹا ہی ہوگا، کیونکہ ترقی بعض اوقات ان علاقوں سے ایسے پرہیز کرتی ہے جیسے پرہیزگار قصائی، خنزیر کے گوشت سے۔ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، جیسے کسی قیمتی چیز کی تلاش ہو، اور یاد آیا کہ میرے دادا کا پرانا پاسپورٹ اب بھی محفوظ ہے۔ زرد پڑتا ہوا ایک تاریخی ورق، جس پر ایک نہایت معصوم سی حقیقت لکھی ہے—19 اگست  1940۔

یہی وہ دن تھا جب میرے دادا اسی سرحد کو عبور کر کے ایران میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے 52 ریال ویزہ فیس قونصل خانہ ایران  کوئٹہ میں  ادا کی تھی۔ میر جاوہ کی سرحد پر  ان کے پاسپورٹ کے  صفحے پر سرخ روشنائی سے فارسی زبان میں  لکھاگیا : طبق تلگراف  وزارت امور خارجہ  روادید دادہ شد۔  جس کا مطلب تھا کہ ٹیلیگرام کے مطابق، وزارت خارجہ نے ویزا جاری کر دیا ہے۔

اسی پاسپورٹ کے ایک صفحے پر ایک اور تاریخ بھی درج تھی—19 مارچ 1937۔ یہ وہ دن تھا جب میری سب سے چھوٹی پھوپھی، رضیہ پھوپھی، پیدا ہوئی تھیں۔ جب میرے دادا انہیں ایران لے جا رہے تھے، تب وہ صرف دو ماہ کی تھیں۔ ایک ننھی سی جان، جس نے ابھی دودھ کے علاوہ، کوئی شے قبول کرنا نہیں سیکھا تھا، مگر وہ پاسپورٹ کی ایک سطر میں ہمیشہ کے لیے قید ہو گئی۔

یہ سوچ کر مجھے ہنسی آتی ہے کہ جب ایرانی سرحدی حکام میرے دادا کا پاسپورٹ چیک کر رہے ہوں گے اور اس میں ایک دو ماہ کی بچی کا نام بھی درج دیکھتے ہوں گے، تو کیا وہ حیران ہوئے ہوں گے؟ شاید انہوں نے ایک دوسرے سے سرگوشی میں پوچھا ہو کہ یہ خاندان سفری دستاویزات کا اتنا پابند کیوں ہے کہ ایک نومولود کا بھی اندراج پاسپورٹ میں کروا رکھا ہے! مگر درحقیقت، برطانوی ہند میں قوانین کی بہت پابندی کی جاتی تھی—یہاں تک کہ ایک نومولود کا نام پاسپورٹ میں درج کروانا بھی ضروری سمجھا جاتا تھا، جیسے کسی اضافی سامان کی فہرست میں ایک ننھی سی گڑیا کا اندراج کر دیا گیا ہو، جس کی موجودگی غیر ضروری تو لگتی ہے مگر قواعد کے تحت لازم ہے۔

سن 1941 میں، جب میرے دادا کوئٹہ کے سنڈیمن سول اسپتال میں بطور ڈاکٹر متعین ہوئے، تو میری وہی ننھی پھوپھی، جو زابل میں فارسی  اور بلوچی ماحول میں تین سال رہ چکی تھی،  اردو کے بجائے فارسی بولنے لگی تھیں۔ یعنی وہ ’امی مجھے روٹی دو‘ کے بجائے ’مادر جان، بمن نان بدہ‘ کہا کرتی تھیں۔ یہ سن کر شاید میری دادی کو یہ شبہ ہوتا ہوگا کہ کہیں یہ لڑکی زابل میں کسی ایرانی بچی سے بدل تو نہیں دی گئی؟

میرے دادا کے پاسپورٹ پر فارسی میں اجازت نامے کی عبارت آج بھی تاریخ کے جھروکے سے جھانکتی ہے:

آقای محمد یونس باتفاق عیال و ہفت بچہ دارندہ  گزرنامہ  شمارہ (۸۶۱۰) دواساز بہداری کونسلگری انگلیس مقیم زابل برای رفتن  بہندوستان از راہ زاہدان مجاز است۔

"یعنی جناب محمد یونس کو اپنے اہل خانہ بشمول سات بچوں کے، ایرانی سرحد سے گزر کر کوئٹہ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔۵ جولائی ۱۹۴۰”

یہ جملہ پڑھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی درباری کاتب نے ایک نہایت شاہانہ حکم نامہ لکھا ہو، اور میرے دادا کوئی عام دواساز نہیں بلکہ کسی ریاست کے وزیرِ صحت ہوں جو اپنے عملے کے ساتھ کوچ کر رہے ہوں۔ اس سے پہلے کے ایک اور اجازت نامے میں انہیں ’آقای محمد یونس‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے، جس کا مطلب تھا کہ وہ ایک معزز شخصیت تھے، حالانکہ وہ صرف ایک دواساز  یعنی فارماسسٹ تھے—مگر انگریزوں کے لیے کام کرنے کا یہ فائدہ تھا کہ فارسی میں بھی آپ کے نام کے آگے کوئی نہ کوئی شاندار لقب جڑ ہی جاتا تھا۔

اور اب، 64 برس بعد، میں اسی دروازے سے گزر رہا تھا۔ تاریخ نے خود کو دہرایا تھا، مگر کچھ چالاکی کے ساتھ۔ میرے دادا کے وقت میں ایران پر شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی، اور ان کے پاسپورٹ پر ’کونسلگری شہنشاہی ایران‘ کی مہر ثبت تھی۔ جبکہ میرے ویزے پر ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ کی مہر ثبت تھی۔ وہ برطانوی ہند کے شہری تھے، میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا باشندہ ہوں۔ وہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ایران میں داخل ہوئے تھے، میں ایک عام مسافر کی طرح ایران میں داخل ہوا۔

لیکن کیا میں واقعی ایک عام مسافر تھا؟ کیا میں اس سرحد پر محض ایک سیاح تھا، یا وقت نے میرے اندر کسی اور کہانی کا دروازہ کھول دیا تھا؟ میں نے میرجاوہ کی خاک کو انگلیوں سے چھوا، اور یوں لگا جیسے وقت کے بوسیدہ صفحات پر میرے دادا کے الفاظ گونج رہے ہوں—’یہی وہ راستے ہیں جن پر میں چلا تھا، اور آج تم میرے قدموں کی بازگشت ہو۔‘ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر دادا کو علم ہوتا کہ ان کا پوتا بھی اسی راستے سے گزرے گا تو شاید وہ پاسپورٹ پر ایک نوٹ چھوڑ جاتے:

’پیارے پوتے، اگر تم کبھی یہاں آؤ تو دھیان رکھنا، یہاں کی دھول بالوں میں جم کر ضدی ہو جاتی ہے، اور ایرانی چائے کے بغیر سرحد پار کرنا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔‘ اگر دادا زندہ ہوتے، تو میں انہیں ہنستے ہوئے بتاتا کہ اب میرجاوہ دھول اور گرد کا نہیں، بلکہ ایک صاف ستھرا قصبہ بن چکا ہے۔ وہ جو سرحد پار کرنے سے پہلے بالوں میں ریت کی تہہ جمنے کا قصہ تھا، وہ اب تفتان کے نصیب میں رہ گیا ہے۔ ہاں، مگر ایرانی چائے کا اصول شاید اب بھی وہی ہے—بغیر اس کے سرحد پار کرنا آج بھی کسی ’سفری گناہ‘ سے کم نہیں!

یہ سرحدیں کبھی کبھی مزاحیہ حد تک بے معنی لگتی ہیں۔ جب میرے دادا نے اس دروازے کو عبور کیا تھا، تب یہ دنیا ایک تھی—کم از کم سرحدی کاغذات کی جھنجھٹ میں تو نہیں جکڑی تھی۔ اب میں داخل ہو رہا ہوں، تو دنیا تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے، جیسے کسی نے زمین پر لکیریں کھینچ کر کہا ہو: ’یہ تمہاری طرف ہے، اور وہ ہماری!‘ فرق صرف یہ ہے کہ میرے دادا کے زمانے میں یہ سب زیادہ شاہانہ انداز میں ہوتا تھا—نہ ویزے کی فکریں، نہ امیگریشن کے طویل سوالات، نہ سیکیورٹی چیک کے نام پر قطاروں میں پسینہ بہانا۔ اور آج، ہم انہی منزلوں پر چلتے ہیں، مگر پہلے قدم اٹھانے سے پہلے مہر لگوانے کی مشقت سہنی پڑتی ہے۔

لیکن میرجاوہ کی سرحد… وہ آج بھی وہیں تھی، بس اب کچھ زیادہ صاف ستھری، جھاڑ پونچھ کر سنوار دی گئی تھی، جیسے کسی نے گرد مٹا کر وقت کو نکھار دیا ہو۔ مگر اس کی خاموشی وہی تھی—کسی قدیم داستان کی آخری سطر کی طرح، جیسے وقت یہاں تھم چکا ہو، اور میں چل رہا تھا، اپنے دادا کے قدموں کے نشان میں قدم رکھتے ہوئے، بس فرق یہ تھا کہ میرے قدموں کے نیچے دھول نہیں، پکی اینٹوں کا راستہ تھا۔

میرجاوہ—سرحد کے اُس پار

ایرانی کسٹم آفس کے اندر سب کچھ قرینے سے رکھا تھا، جیسے ہر اینٹ نے اپنی جگہ کا حلف اٹھا رکھا ہو۔ پکا فرش، ترتیب سے رکھے کچرےدان، در و دیوار پر پھیلی سنجیدگی، جیسے کوئی قدیم سلطنت کا دربان ہو، جو آنے والوں کو پرکھ رہا ہو۔  میں نے خروج کی مہر ثبت کروائی اور ایرانی کسٹم آفس کی بھاری بھرکم عمارت سے باہر نکلا، اور یوں لگا جیسے ایک دنیا سے دوسری دنیا میں داخل ہو گیا ہوں۔ میرجاوہ کی کسٹمز کی عمارت کے باہر کا منظر ایک الگ ہی کہانی سناتا تھا۔ سامنے ایک پرانا سا ڈاک خانہ کھڑا تھا، جیسے کسی پرانے خط کی آخری منزل۔ ایک ڈسپنسری بھی تھی، خاموش مگر زندگی کی ایک علامت۔ اور ذرا ہٹ کر، میرجاوہ کا پورا قصبہ آباد تھا—اپنی پرانی گلیوں، کمروں میں سرگوشیاں کرتے گھروں، اور اپنی صدیوں پرانی روش کے ساتھ۔ 

باہر نکلا تو ایک چوڑی سڑک سو میٹر آگے آہنی سلاخوں والے گیٹ کی طرف جا رہی تھی۔ اُس کے قریب زرد رنگ کی برطانوی ساخت کی پائیکان ٹیکسیاں قطار در قطار کھڑی تھیں—جیسے کسی پرانے ایرانی فلم کا منظر، جہاں ہر ٹیکسی اپنے اندر ایک کہانی لیے کھڑی ہو، جہاں ہر مسافر اپنی منزل سے زیادہ اپنی یادوں کا بوجھ لیے سفر کر رہا ہو۔  اور یہ سبزہ، یہ گل داؤدی کی قطاریں؟ جیسے کسی نے ریگستان کے سینے پر خوشبو کا تعویذ باندھ دیا ہو۔ جیسے وقت، جو سب کچھ مٹی میں بدل دیتا ہے، یہاں آ کر تھم سا گیا ہو۔ 

یہ سب دیکھ کر میں کچھ لمحے خاموش کھڑا رہا۔ مجھے یاد آیا کہ کچھ دیر پہلے میں تفتان میں تھا—وہی سرحد کے اُس پار کی زمین، مگر گرد میں اٹی ہوئی، بے ترتیب، جیسے کسی بھولی بسری یاد کی طرح۔ اور یہاں، صرف چند قدم کے فاصلے پر، سب کچھ بدلا بدلا تھا—سڑکیں، عمارتیں، ہوا میں گھلی ترتیب، اور وقت کا احساس۔ 

یہ محض ایک سرحد نہیں تھی، یہ دو دنیاؤں کا سنگم تھا۔ یہ ایک لکیر نہیں تھی، یہ تاریخ کا فیصلہ تھا۔ یہ ایک گیٹ نہیں تھا، یہ وقت کی درز تھی، جس میں سے میں گزر رہا تھا۔

ایران میں بھی پاکستان ہے! 

سرحد کے اُس پار قدم رکھتے ہی ایک عجیب احساس نے گھیر لیا، جیسے میں کسی اور دنیا میں آ گیا ہوں، مگر یہ دنیا کچھ زیادہ اجنبی بھی نہیں تھی۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایران کی سرزمین پر بھی شلوار قمیض میں ملبوس، بلوچی لہجے میں اردو بولتے لوگ میرا استقبال کریں گے۔

میں نے سوچا تھا کہ ایرانی ٹیکسی والے فارسی کی خوشبو میں لپٹی کوئی اجنبی زبان بولیں گے، کوئی انجان مسکراہٹ میرے حصے میں آئے گی، مگر یہاں تو ہر چہرہ مانوس لگا، ہر لفظ شناسا معلوم ہوا۔ پل بھر کو لگا کہ شاید میں ایران میں نہیں، بلکہ کسی اور ہی پاکستان میں کھڑا ہوں۔ 

یہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جو سرحد ہے، یہ دراصل ایک تقسیم کا نشان تو ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک ہی زمین کے دو نام ہیں۔ ایران کا سیستان و بلوچستان درحقیقت وہی بلوچستان ہے جو پاکستان میں سانس لیتا ہے، وہی بلوچستان جس کا ایک کنارہ افغانستان میں جا ٹھہرتا ہے۔ زمین بٹ گئی، مگر مٹی کی خوشبو تو سانجھی رہی۔

آج بھی پاکستانی بلوچستان کے لوگ ایرانی بلوچستان میں رشتہ داریاں نبھاتے ہیں، اور افغانی بلوچستان کی سرحد کے ساتھ ایرانی شہر زابل میں میرے دادا جیسے معالج، لوگوں کی نبض تھامے رکھتے تھے۔ یہ ایک ہی لوگ تھے، ایک ہی کہانی تھی، ایک ہی زمین تھی، جسے تاریخ نے تین نام دے دیے تھے۔

یہاں  سب کچھ مانوس تھا۔ وہی بلوچی لباس، وہی کاروں کی قطاریں، وہی سنہری مٹی کی لپیٹ میں لپٹا صحرا، وہی گرم چائے کے پیالے، جو سرحدوں کی سختیوں کو بھی مٹھاس میں گھول دیتے ہیں۔ میں کسی اجنبی دیس میں نہیں تھا، بلکہ اپنی ہی زمین کے کسی اور نام سے موسوم ٹکڑے پر کھڑا تھا۔

میرجاوہ کی سرحد پر قدم رکھتے ہی جیسے وقت ایک دائرے میں گھوم کر مجھے واپس وہیں لے آیا جہاں سے میں چلا تھا۔ مجھے لگا، جیسے یہ کوئی نیا منظر نہیں، بلکہ کوئی بھولی بسری یاد ہے جو اچانک میرے سامنے تازہ ہو گئی ہو۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ حیران کر گئی، وہ ٹیکسیوں کی قطار میں کھڑے ڈرائیور تھے—وہی پاکستانیوں جیسے شلوار قمیض میں ملبوس، وہی بلوچی لہجے میں گھلی ہوئی مٹھاس لیے اردو بولتے چہرے۔ ایک پل کو میں نے خود سے پوچھا: ’کیا میں واقعی ایران میں ہوں؟‘ یا ’کیا یہ کوئی جادو ہے کہ سرحد پار جا کر بھی حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں؟‘

اسی دوران مجھے زاہدان جانے کے لیے ٹیکسی لینی تھی۔ ایک باریش بلوچ ڈرائیور، جو شلوار قمیض میں ملبوس تھا، اپنی گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔ میں نے فارسی میں پوچھا،

’زاہدان تک کیا لو گے؟‘

وہ مسکرایا، اور پھر حیرانی سے بولا، ’بھائی! تم فارسی کیو ں بولا؟ تم تو اپنا بلوچستانی ہے، اس سرحدی لکیر کوئی فرق نہیں پڑتا ہم اور تم دونوں بلوچستانی ہیں۔ بلوچستان میں رہنے والا ہر شخص بلوچستانی ہے خو اہ وہ بلوچی نہ بھی ہو!‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’اپنا ہی سمجھ لو، مگر دام تو بتاؤ۔‘

اس نے دانت نکالتے ہوئے کہا، ’دیکھو، تم بلوچستان سے آیا ہے، تم ہمارا بلوچستانی بھائی ہے، ہم تمہاری خاطر  100 تومان کم کر دے گا۔‘

میں نے چونک کر پوچھا، ’بھائی! یہ تومان میں گنتی میری کمزوری ہے، سیدھے سیدھے ریال یا پاکستانی  روپوں میں بتاؤ!‘

اس نے کندھے اُچکائے، ’ارے بھائی! تُم نیا  لگتا اے، تومان، ریال سب ایک ہی  چیز  اے! بس تُم دعا کرو، گاڑی خیر سے زاہدان پہنچ جائے۔‘

میں نے طنزاً کہا، ’گاڑی پہنچے یا نہ پہنچے، پہلے یہ بتاؤ کہ کرایہ جان نکالے گا یا جیب بچ جائے گی؟‘

وہ قہقہہ لگا کر بولا، ’ارے نہیں، تُم اپنا بھائی اے! دیکھو، زاہدان تک عموماً کرایہ پندرہ سو تومان اوتا  اے، مگر تمہارے  لیے چودہ سو! خاص رعایت دے رہا ہوں!‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’یہ رعایت ہے یا چالاکی؟ چلو، تیرہ سو میں بات پکی!‘

اس نے آنکھ ماری، ’ایران میں آیا اے، کچھ تو سیکھ! چلو، تیرہ سو پچاس پر بیچ کا راستہ نکالتے ہیں، ورنہ میرا بھی نقصان ہو گا، بھائی!‘

میں نے بھی سر ہلا دیا، ’چلو، بس تمہارے لہجے کی مٹھاس پر مان لیتا ہوں!‘

یوں یہ سودا طے پایا، اور میں ٹیکسی میں بیٹھ کر زاہدان کی طرف روانہ ہو گیا، جہاں ایران کا ایک اور پاکستان میرا منتظر تھا۔

یہ جملہ سنتے ہی مجھے اپنے شہر کے رکشہ ڈرائیور یاد آ گئے، وہی بے ساختہ لہجہ، وہی روایتی مہمان نوازی، جیسے سرحد کے اس پار کچھ بھی بدلا نہ ہو، بس زمین نے اپنا نام بدل لیا ہو۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے ہی کسی گمشدہ شہر میں آ نکلا ہوں، جیسے وقت کا کوئی بچھڑا لمحہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا ہو، ہاتھ بڑھا کر کہہ رہا ہو:

’دیکھو، تم جہاں بھی جاؤ، یہ مٹی تمہاری اپنی ہے۔ یہ سرحد محض ایک لکیر ہے، مگر یہ محبت، یہ زبان، یہ پہچان… یہ ہمیشہ سانجھی رہے گی۔‘

مگر اس مماثلت کے باوجود ایک چیز نے مجھے چونکا دیا—یہاں کی زندگی کی سہولتیں۔ ایرانی بلوچستان میں بجلی کے کھمبے استقامت سے کھڑے تھے، روشنی کا کوئی جھماکا مدھم نہ پڑتا تھا، ایرانی حکومت نے سڑکوں کا ایک ایسا جال بچھایا تھا جس پر گاڑیاں کسی جھٹکے کے بغیر دوڑتی تھیں۔

 مجھے یاد آیا  سفرِ ایران  کے  چھے سال بعد یعنی  2007 میں پنجگور گیا تھا جہاں لوگ ایرانی بجلی استعمال کرتے تھے، اور ہر گھر کے میٹر پر محض تین سو روپے میں مہینے بھر کا اجالا خرید لیا جاتا تھا۔ ایران نے نہ صرف اپنے بلوچستان کو سہولتوں سے نوازا تھا، بلکہ سرحد پار کے بلوچوں کو بھی اپنی روشنی میں شریک کر رکھا تھا۔

ایرانی بلوچستان میں پیٹرول سستا تھا، صحت کی سہولیات موجود تھیں، لوگ بے روزگاری کے خوف سے آزاد تھے، اور میں سوچنے لگا کہ ایک لکیر کھینچ دینے سے زمین تو تقسیم ہو سکتی ہے، مگر تہذیب نہیں، روایتیں نہیں، وہ بستیاں نہیں جہاں نسل در نسل محبتیں سانس لیتی آئی ہیں۔

ایرانی بلوچستان میں چلتے ہوئے یوں لگا کہ جیسے میں اپنے ہی کسی کھوئے ہوئے شہر میں آ نکلا ہوں، جیسے کوئی پرانی یاد اچانک کسی گلی کے موڑ پر مل گئی ہو، جیسے کوئی بچھڑا ہوا رشتہ پھر سے ہاتھ آ گیا ہو۔  ایران میں بھی پاکستان ہے۔ اور پاکستان میں بھی ایران کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے