آٹھ مارچ، جسے عالمی یومِ خواتین کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، عورت کی شخصی عظمت، تہذیبی مقام اور سماجی کردار کو اجاگر کرنے کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ یہ دن نہ صرف خواتین کی جدوجہد، قربانیوں اور کامیابیوں کے کھلے اعتراف کا دن ہے، بلکہ ان کے حقوق اور سماجی انصاف کے لیے آواز بلند کرنے کا بھی ایک موقع فراہم کر رہا ہے۔ عورت کی عظمت، تہذیبی مقام اور سماجی کردار کو سمجھنے کے لیے ہمیں دین، تاریخ، معاشرت اور ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔
عورت کی شخصی عظمت اس کی فطری صلاحیتوں، جذباتی گہرائی اور روحانی بلندی میں پنہاں ہے۔ عورت محبت، ہمدردی، خلوص، قربانی اور برداشت کی مجسم تصویر ہے۔ وہ نہ صرف ایک بیٹی، بیوی، ماں اور بہن کے روپ میں خاندان کی بنیاد ہوتی ہے، بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ عورت کی شخصیت میں وہ قوت پائی جاتی ہے جو کہ نہ صرف گھر کو سنوارتی ہے، بلکہ معاشرے کو بھی متوازن، متحرک، خوبصورت، پر رونق اور پرامن بناتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ عورت نے ہر دور میں اپنی عظمت کا لوہا منوایا ہے۔ خواہ وہ حضرت حواء علیہ السلام کی جانب سے حضرت آدم علیہ السلام کو دائمی رفاقت کا ہاتھ دینا ہو، حضرت مریمؑ علیہ السلام کے پاکیزہ کردار کا نمونہ ہو، حضرت خدیجہ الکبریؓ کی تجارتی مہارت اور شخصی حوصلہ مندی ہو، حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ذہانت، فطانت اور ذکاوت ہو یا پھر حضرت رابعہ بصریؒ کی روحانی عظمت۔ غرض عورت نے ہر میدان میں اپنی شاندار صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔ جدید دور میں بھی خواتین سیاست، تعلیم، طب، سائنس، ادب، فنون اور دیگر نمایاں شعبوں میں، نمایاں کارنامے انجام دے رہی ہیں۔
عورت کا تہذیبی مقام ہر معاشرے میں اس کی ثقافتی اور مذہبی اقدار سے جڑا ہوتا ہے۔ اسلام میں عورت کو بلند مقام حاصل ہے۔ قرآن پاک میں عورت کے حقوق اور فرائض کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً اسلام نے عورت کو وراثت کا حق دیا ہے، آزادانہ ملکیت کا حق دیا ہے، رشتوں کے انعقاد میں پسند و نا پسند کا اختیار دیا ہے اور اس کی عزت و آبرو کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کیا ہے، اور یہ کہ اسے سماج میں ایک باعزت اور محفوظ مقام عطا کیا ہے۔ حضرت فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ اور دیگر جلیل القدر صحابیاتؓ کی زندگیاں عورت کے سماجی اور تہذیبی مقام کی روشن مثالیں ہیں۔
دوسری طرف، دیگر تہذیبوں میں بھی عورت کو اہم مقام حاصل رہا ہے۔ ہندو تہذیب میں دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے، جو عورت کی روحانی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔ یونانی تہذیب میں بھی عورت کو دانش و حکمت کی دیوی کے طور پر پوجا جاتا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو ہر تہذیب اور معاشرت میں ایک مقدس اور محترم مقام حاصل رہا ہے۔ جدید مغربی تہذیب میں کچھ بنیادی مسائل کے باوجود عورت کو ہر دائرے اور مقام پہ خصوصی اہمیت اور عزت کی حیثیت سے نوازا گیا ہے نہ صرف یہ بلکہ عورت کو ہر حیثیت میں مرد کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔
عورت کا سماجی کردار نہایت وسیع اور متنوع ہے۔ وہ نہ صرف گھر کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہے، بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں بھی، ہر دم اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ عورت ایک معلمہ، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، ایک صحافی، ایک فوجی آفیسر، ایک سیاستدان، ایک سماجی کارکن اور یہاں تک کہ کھلاڑیوں کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وہ معاشرے کو تعلیم، صحت، تحفظ، بنیادی خدمات، ثقافت اور اخلاقیات کے میدان میں آگے بڑھانے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
عورت کا سب سے اہم سماجی کردار ماں کے روپ میں ہوتا ہے۔ ماں وہ پہلی معلمہ ہوتی ہے جو بچے کی شخصیت کی بنیاد رکھتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق، محبت، خلوص اور ہمدردی کی تعلیم دیتی ہے، جو کہ آگے چل کر معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے نہایت ضروری عوامل ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے عورت کی قربانیوں، صلاحیتوں اور محنت کے بغیر معاشرے کی فلاح و بہبود اور خاندان کے سکون و سلامتی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اگرچہ عورت نے ہر دور میں اپنی عظمت ثابت کی ہے، لیکن آج بھی بہت سے معاشروں میں عورت کو اپنے جائز حقوق حاصل نہیں ہیں۔ صنفی تفریق، تعلیم کی کمی، صحت کی سہولیات کی نایابی، جسمانی تشدد اور جنسی استحصال جیسے مسائل آج بھی جا بجا عورت کے لیے بنیادی چیلنجز بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کو اس کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کی جائے اور صرف آواز ہی نہیں بلکہ اس امر کا پورا پورا اہتمام ہونا چاہیے اور یہ کہ عورت کو معاشرے میں اپنا حقیقی مقام دلایا جائے۔
ناچیز بچشم تصور دیکھ رہا ہے کہ مستقبل میں عورت کا کردار اور بھی اہم ہوتا جا رہا ہے۔ جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے عورت اب ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہے اور عملاً اپنا کردار بطریق احسن ادا کر رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عورت کی صلاحیتوں کو کما حقہ پہچانیں، اس کی خوبیوں کو مانیں اور اسے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں برابر کا حصہ دار بنائیں۔
آٹھ مارچ کا دن ہمیں عورت کی عظمت، تہذیبی مقام اور سماجی کردار کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن ہمیں، ہر سطح پر یہ عہد کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم عورت کے حقوق کے لیے نتیجہ خیز کوششیں جاری رکھیں اور اسے معاشرے میں وہ مقام دلائیں جس کی وہ صحیح معنوں میں حقدار ہے۔ عورت کی خوشحالی اور ترقی ہی معاشرے کی خوشحالی اور ترقی ہے، اور اس کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عورت کی قربانیوں اور محنت کو کھلے ذہن سے سراہیں اور اسے ہر میدان میں آگے بڑھنے کا موقع دیں۔
تبصرہ کریں