71 سلاٹر ہاؤس
1971 کے تنازعہ میں مشرقی پاکستان میں ہندوستانی سپانسر شدہ نسل کشی کی ان کہی داستان ہے، جب پاکستان کا ساتھ دینے پر ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا لیکن اس پر تاریخ میں کوئی نوحہ، کوئی ماتم، کوئی انسانی حقوق کا دعویٰ نہیں ملتا۔
اس موضوع پر یہ پہلی دستاویزی فلم ہے جو اس تنازعہ میں ’کہانی کا دوسرا رخ‘ پیش کرتی ہے، وہ پہلو جو بھارت اور عوامی لیگ کے اشتراکی بیانیے نے نصف صدی تک دبائے رکھا اور اسے بیان کرنا جن کی ذمے داری تھی، ان پر بے حسی چھائی رہی۔ دو بھائی تقسیم ہوئے، درمیان میں جھوٹ کی بنیادوں پر نفرت کی دیوار تعمیر کی گئی۔ امید ہے کہ وقت بدلے گا، یہ دیوار گرے گی۔ یہ ڈاکومنٹری اسی دیوار پر ایک ضرب ہے۔
اس دستاویزی فلم کے لیے میں نے بنگلہ دیش اور پاکستان میں سفر در سفر کر کے گواہیاں اکٹھی کی ہیں۔ اس میں نسل کشی میں بچ جانے والے چشم دید گواہوں کو پیش کیا ہے جن میں بہاریوں، مغربی پاکستانیوں اور پاکستان کے حامی بنگالیوں کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تجزیہ کار شامل ہیں۔ اس میں مکتی باہنی والے بھی شامل ہیں اور رضاکار اور البدر والے بھی۔
71 سلاٹر ہاؤس انڈیا کی سیاسی دھوکہ دہی، سماجی اور بین الاقوامی غداری، انڈیا کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی کہانی ہے ۔ یہ دستاویزی فلم نصف صدی سے بنگلہ دیش میں ’رضاکار‘ ہونے کا داغ لے کر زندگی گزارنے والے بہاریوں کی حالت زار کا بھی بیان ہے جسے میں نے بنگلہ دیش کے محصورین کیمپوں میں جا کر خود ریکارڈ کیا ہے۔
میرے لیے یہ ایک ڈاکومنٹری نہیں، ایک امانت ہے۔ ایک گواہی ہے جس کی ذمے داری اللہ نے مجھے سونپی تھی۔ اس جھوٹ کا سچ بتانے کی امانت جو پچاس سال سے مسلسل دہرایا جا رہا ہے، لاشوں کے اس انبار کی کہانی جس پر پاکستان ٹوٹ کر آدھا ہوا تھا۔ پاکستان سے بنگلہ دیش تک ۔۔۔ سنہ سنتالیس سے سنہ اکہتر تک اور پھر وہ آج جو اس وقت گزر رہا ہے ۔۔۔ اس سب کو ایک ڈاکومنٹری کی کہانی میں ڈھالنے کے لیے، اس کے ٹکڑے کاٹ کر ایک فلم کے دورانیے کی تصویر بنانے میں اتنا طویل عرصہ لگا کہ اس کا انتظار کرنے والی کئی قیمتی آنکھیں دنیا چھوڑ گئیں۔
ایک امانت تھی ۔۔ سچ کی امانت ۔۔ میرے دل اور کندھوں پر ایک بوجھ کی طرح۔ الحمدللہ میری ذمے داری پوری ہوئی، اب یہ آپ کی ذمے داری ہے۔
اور سچ کے راستے میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری ۔۔ اور اب بھی گزر رہی ہے۔ اس میں جو مشکلات آئیں ان کی داستان طویل اور تھکا دینے والی ہے۔ شاید اسے میں نے ان مظلوموں کی طرف ذمے داری کے طور پر نہ لیا ہوتا جن کے قتلِ عام کے لیے سلاٹر ہاؤس بنائے گئے تو میں یہ ڈاکومنٹری نہ بنا پاتی اور بنانے کے بعد تو یقیناً منظر عام پر نہ لا پاتی۔ ذمے داری مکمل ہوئی، مشکلات ابھی جاری ہیں بلکہ بڑھ گئی ہیں ۔۔ دعاؤں کی درخواست ہے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے مدد کی بھی۔
(عائشہ غازی)