گردش، سید عنایت اللہ جان

فلسفہ صبر کے تناظر میں رمضان المبارک کی اہمیت

انسان قدرتی طور پر کچھ منفی اور کچھ مثبت باطنی کیفیتوں کا حامل ٹھہرا ہے۔ یہی کیفیتیں اس کے اخلاق و کردار کے تشکیل میں بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔ بندوں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندگی میں مطلوب یہ ہے کہ وہ اپنی مثبت کیفیتوں کو ایک مستقل ضابطے میں رہ کر ترقی دیں اور انہیں اپنے کردار و اخلاق میں کماحقہ ظاہر ہونے دیں جبکہ منفی کیفیتوں پر صحت مندانہ ربط و ضبط اور مضبوط روحانی اور اخلاقی تربیت کے طفیل قابو پا لیں تاکہ ان کے اثر سے کردار و اخلاق کا لیول نیچے نہ آنے پائے۔

حرص و ہوس اور غفلت و لاپرواہی دو ایسے ہی منفی جذبات ہیں جن کے مظاہر ہم میں سے ہر ایک نے کارگاہ حیات میں بے شمار مواقع پہ دیکھے ہیں، سنے ہیں، پائے ہیں، پرکھے ہیں، ذاتی طور پر ان احوال سے گزرے بھی ہیں اور اجتماعی سطح پر ایسے حالات بھی خوب ملاحظہ کیے ہیں جو دراصل نتائج و مظاہر ہیں ان منفی کیفیتوں کے جنہیں قدرت نے زندگی کو امتحان بنانے کے غرض سے گویا انسان کے اندر انڈیل دیا ہے۔

یہ زندگی قدرت کی جانب سے ایک امتحانی اور آزمائشی موقع ہے۔ دنیا میں خیر و شر کی اتھارٹی گویا خالق کائنات کے پاس ہے۔ یہاں خیر وہ ہے جس کو رب خیر کہے اور شر وہ ہے جس کو رب شر کہے۔ خیر و شر کا تصور انسان کو اس کے رب سے ملا ہے اس لیے ان حوالوں سے رب ہی کی تعلیمات، توجہات اور ہدایات و اصول کو بنیادی اہمیت دینا ہوگی۔ خیر و شر کے حوالے سے اچھا برا کیا ہے؟ اس کا منبع رب العالمین کی ذات اقدس، الہامی بصیرت پر اعتماد، اور روز جزا و سزا پر پختہ ایمان ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے رب سے مکمل طور پر رجوع کریں۔

انسان نفسیاتی اور جذباتی طور پر بے صبرا واقع ہوا ہے۔ اس لیے ہم روز دیکھتے ہیں کہ بے شمار لمحات، مواقع اور احوال ایسے آتے رہتے ہیں کہ جن کے اندر غفلت، بے صبری اور حرص و ہوس جیسی منفی کیفیتوں سے انسان مغلوب ہو جاتا ہے۔ کسی کا حق ہڑپ کرتا ہے، کسی کو اذیت دیتا ہے، کسی کو تکلیف پہنچاتا ہے اور کسی کو مال و جان کے صدمات سے بھی دو چار کرتا ہے۔ انسان، انسان کے لیے خطرہ بنے، انسان، انسان کو ضرر پہنچائے اور یہ کہ انسان، انسان کے لیے تشویش کا باعث بنے یہ خالق ارض و سما کو سخت ناپسند ہے۔

انہی منفی کیفیتوں پر قابو پانے کے لیے اللہ تعالٰی نے انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کیا ہے روزہ جس کے اہم ترین بنیادوں میں سے ایک ہے۔ انسان کو عمل کے واسطے جو کچھ ملا ہے وہ ہموار نہیں مثلاً یہ دنیا ناہموار ہے، یہ زندگی بھی ناہموار ہے، باہمی تعلقات بھی اتار چڑھاؤ کی ضد پر ہیں، وسائل اور مسائل پر کنٹرول بھی کسی مشینی ذریعے سے نہیں بلکہ انسانی ارادے کے طفیل ہے اور یہ کہ دنیا میں اپنے مفاد اور سب کے مفاد کے درمیان ایک کشمکش برپا ہے جس میں توازن پیدا کرنا مطلوب ہے اور یہ توازن تب ممکن ہے جب انسان اپنے آپ پر کنٹرول پائے، روزہ خود پر کنٹرول پانے کے لیے خدائی نسخہ ہے۔

روزہ خود کو میسر چیزوں سے بحکمِ خداوندی روکنے کا نام ہے، روزہ بظاہر ماکولات و مشروبات سے معین وقت کے لیے رک جانے کا نام ہے لیکن حقیقت میں رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو تمام ناجائز، نامناسب اور ناحق اشیاء، امور اور اعمال سے مکمل طور پر روکنے کا پیغام بھی ہے۔ روزہ سراسر صبر ہے، روزہ سراپا ڈسپلن ہے، روزہ از اول تا آخر اخلاقی، روحانی، جذباتی اور وجدانی ربط و ضبط کا ایک مکمل سسٹم ہے۔ یہ بھوکوں، پیاسوں، تنگ دستوں، پریشان حالوں اور بے بسوں کے احوال میں بصورت حال گھسنے کا معمول ہے۔ روزہ بظاہر کھانے پینے سے کچھ وقت کے لیے خود کو روکنے کا التزام ہے لیکن حقیقت میں یہ ہر برائی، ظلم، بدکرداری اور حرص و ہوس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رک جانے کا سبق بھی ہے۔

اس دنیا میں لوگوں کے احوال یکساں بالکل نہیں یہاں غربت و امارت، محرومی و آسودگی، بدحالی و خوشحالی، امن و بدامنی ایسے مختلف احوال انسانی آبادیوں میں قدم بہ قدم ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اس مختلف النوع حالات میں انسانوں کو ایک دوسرے کا پاس و لحاظ ہو، احساس ہو، انصاف ہو، مدد و ہمدردی کا اہتمام ہو، صحت مند اور مطلوب و مفید تعامل و تعاون ہو لیکن یہ طرزِ عمل متوازن رویوں کا متقاضی ہے اور یہ کہ خالق کائنات انسانی شخصیت کو توازن کے ذریعے اخلاق و کردار کے سامنے موجود خطرات سے اور انسانی سماج کو انصاف کی وساطت ممکنہ فسادات سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ دنیا انفرادی شخصیتوں اور اجتماعی تعلقات سے اچھی طرح مزین ہے اور یہ تب تک محفوظ، پرامن اور خیر سے معمور ہوگی جب یہ انسانی اعتبار سے توازن اور انصاف سے سرشار ہوگی۔

زندگی میں انسان کا جھکاؤ کچھ قدرتی اور کچھ ارادی طور پر اپنی ذات کی طرف زیادہ رہتا ہے۔ یہ ذاتی مرغوبات دیکھتا ہے تو بے قابو ہوتا ہے، یہ ذاتی مفادات دیکھتا ہے تو بے قابو ہوتا ہے، یہ حسن و جمال کے جلوے دیکھتا ہے تو بے قابو ہوتا ہے، یہ دولت اور اقتدار کی جاذبیت دیکھتا ہے تو بے قابو ہوتا ہے۔ بے قابو ہونے کی یہ علت دراصل اس باطنی کیفیت کے سبب ہے جس کو آغاز میں ہم نے حرص و ہوس اور بے صبری کے نام سے تعبیر کیا ہے۔

روزہ بے قابو ہونے کی علت پر قابو پانے کے لیے ایک منظم ضابطے کا اہتمام ہے۔ روزے کے ذریعے گویا خالق کائنات بندے کو اپنی ذات کی تنگیوں سے نکال کر اسے انسانیت کے ساتھ جڑی بلندیوں اور فراخیوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔

انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اس لیے اس کی اصلاح کا سامان بھی اس کے خالق کی تعلیمات اور ہدایات سے اخذ کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر موجود منفی کیفیتوں پر قابو پانے کے لیے صبر و تحمل اور انصاف و اعتدال کے ذریعے قابو پانے کا حکم دیا ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں بکثرت صبر و ثبات اور انصاف و اعتدال کی تلقین نظر آرہی ہے۔ صبر و ثبات اور تحمل اور ضبط نفس کے لیے روزے سے زیادہ کاریگر نسخہ کوئی نہیں اور یہی کاریگر نسخہ اللہ پاک سال میں ایک مرتبہ اپنے بندوں پر آزما کر انہیں خیر سے قریب اور شر سے دور کرنے کا سامان پیدا فرماتا ہے۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے