ایران کی طرف رواں دواں بس کا اندرونی منظر آرٹیفیشل انٹیلی جنس تصویر

خاکِ فارس کا مسافر(6)

·

تفتان کے قریب پہنچتے ہی سڑک ایک بار پھر بکھرنے لگی۔ جیسے کسی بوڑھے درزی کے ہاتھوں میں آ گئی ہو، جس کی نگاہ کمزور ہو اور ٹانکے ادھر ادھر پڑ گئے ہوں۔ بس بل کھاتی، جھٹکے کھاتی، آگے بڑھ رہی تھی—کبھی دائیں جھکتی، کبھی بائیں، اور ہم مسافر بھی جیسے کسی نامعلوم طوفان میں ڈولتے ہوئے مسافر جہاز کے باسی بن گئے تھے۔

میں اور نیکٹر اپنے کندھے ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے، نہ میں نے برا مانا، نہ اس نے۔ لینا، جو کسی یورپی طوائف الملوکی کی عادی معلوم ہوتی تھی، اپنی نشست پر نیم خوابیدہ بیٹھی رہی، جیسے اس کے لیے یہ سب کچھ غیر متعلق ہو۔

جولائی کا مہینہ تھا اور تفتان کی دھرتی دہک رہی تھی۔ ہم پاکستانی سرحدی قصبے میں داخل ہو چکے تھے— تفتان، جو صحرا کے دہانے پر کھڑا ایک مغموم اور ویران قصبہ تھا، جہاں زندگی کا نشان محض مٹی کے ذرات کی صورت میں ہوا میں رقصاں تھا۔ سڑکوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا، بس گرد ہی گرد۔ کوئی ڈھنگ کی دکان، کوئی باقاعدہ ہوٹل نظر نہ آیا، البتہ زمین میں تین چار فٹ نیچے کھودی گئی جھونپڑیاں موجود تھیں، جن کے اوپر خیمے تنا دیے گئے تھے۔ جیسے زمین نے گرمی کے خلاف اپنا دفاع خود کر لیا ہو۔ اُن خیموں کے اندر بلوچی لسی ملتی تھی اور لوہے کے تووں پر کلیجی، گردے، کپورے اور دنبے کی چربی میں تلی ہوئی پھیپھڑیاں، جن کی بو ہر خیمے کو ایک عجیب مہک میں ڈبو دیتی تھی۔ میں نے اندر جھانکا، مگر فوراً باہر نکل آیا۔ نیکٹر اور لینا کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ بھی کسی اور جگہ بیٹھنے کے متمنی ہیں۔

"اوئے باؤ جی! اندر آ جاؤ، ایئر کنڈیشنڈ جھونپڑی ہے!” ایک بلوچ ریستوران والے نے آواز لگائی۔ میں نے غور سے دیکھا، ایئر کنڈیشنڈ جھونپڑی کا مفہوم شاید کچھ اور تھا، کیونکہ جھونپڑی کے دروازے پر ایک بڑا سا پرانا پنکھا جھول رہا تھا جو اتنا شور کر رہا تھا کہ بند کر دو تو گرمی میں زیادہ سکون ملے۔

"ہمارے پاس خاص بلوچی بکری کی کلیجی ہے!” ایک اور دکاندار نے اصرار کیا، جو چہرے مہرے سے خود بھی اس بکری کا ہمزاد لگ رہا تھا۔

"بکری بلوچی ہے یا ایرانی؟” میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

"بکری تو اللہ کی ہے، مگر کٹی تفتان میں ہے، حلال، خالص، سو فیصد!” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

نیکٹر نے مینیو پر نظر ڈالی، جو کسی پرانے اخبار کے کنارے پر سیاہ مارکر سے لکھا گیا تھا:

• گردے کباب

• پھیپھڑے مصالحہ دار

• دنبے کی چربی کا اسپیشل سالن

لینا نے فوراً پانی کی بوتل خریدنے پر اکتفا کیا۔ میں نے دکاندار سے پوچھا: "یہ جو دنبے کی چربی کا سالن ہے، اس میں اور سالن میں کیا فرق ہے؟”

دکاندار نے سر کھجایا اور بولا: "باؤ جی! عام سالن میں تیل ہوتا ہے، اس میں خالص چربی ہے۔ کھاؤ گے تو ایک ہفتہ بھوک نہیں لگے گی۔”

یہ انوکھا دعویٰ سن کر میں نے نیکٹر کی طرف دیکھا، اس نے خاموشی سے سر ہلا دیا، جیسے وہ بھی یہی سوچ رہا ہو کہ ایسی غذا کھا کر ہفتے بھر کے لیے معدہ بند ہو سکتا ہے۔

کسٹم کی عمارت کا دروازہ عبور کیا تو ایک وسیع احاطہ نظر آیا۔ سامنے ایرانی سرحدی عمارت میں دیوار پر ایک عبارت تحریر تھی: "جمہوری اسلامی ایران میں شیعہ سنی ایک دوسرے کے قریب اور بھائی بھائی ہیں۔” امام خمینی کے الفاظ جیسے ہوا میں گونج رہے تھے۔ اور یہ وہ لمحہ تھا جب سرحد کے دونوں طرف کا فرق کھلنے لگا۔

ایرانی سرحد پر ایک کشادہ، سفید اور باوقار عمارت کھڑی تھی۔ تین منزلہ عمارت، جہاں زائرین کو عزت کے ساتھ نشستوں پر بٹھایا گیا تھا۔ ٹھنڈے پانی کے کولر رکھے تھے، اور ایئر کنڈیشنرز کی مدھم گونج میں مسافروں کی معلومات کمپیوٹر میں درج کی جا رہی تھیں۔ کوئی شور نہیں، کوئی افراتفری نہیں۔ صرف چند منٹ میں پاسپورٹ پر مہریں ثبت ہوئیں، اور لوگ ایران میں خوش آمدید ہو گئے۔

اور میں نے سوچا، شاید سرحد کے دونوں طرف دھرتی ایک ہی ہے، مگر مزاج اور مہذب رویے دو الگ دنیاؤں کے باسی ہیں۔

جیسے ہی ہم پاکستانی سرحد میں کسٹمزکے غبار آلود احاطے میں داخل ہوئے، ہم سب نے ایک دوسرے کو یوں دیکھا جیسے سبھی کسی اجتماعی امتحان میں فیل ہو چکے ہوں۔ سامنے پاکستان کی کسٹم کلیرنس کی ایک منزلہ عمارت کھڑی تھی— نہیں، معاف کیجیے، کھڑی نہیں تھی، بس جیسے کسی نزع کے عالم میں آخری سانسیں لے رہی ہو۔ محض تین چار کمروں پر مشتمل اس عمارت کے گرد خاک اُڑ رہی تھی، اور فوجی افسران سرکاری رجسٹروں کو یوں تھامے بیٹھے تھے جیسے یہ کوئی قومی خزانہ ہو۔

ایک لمبی قطار میں پسینے میں بھیگے زائرین اور مسافر کھڑے تھے، چہروں پر ناامیدی کے آثار ایسے تھے جیسے انہیں کسی نے کہہ دیا ہو کہ ان کے زیارت کے دن تبدیل کر دیے گئے ہیں اور اب انہیں اگلی بسنت میں روانہ کیا جائے گا۔ ایک بزرگ، جن کی داڑھی میں دوپہر کے پسینے کے قطرے کسی شبنم کی طرح چمک رہے تھے، بولے:

"بھائی صاحب! یہ پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ ہماری ہڈیاں بھی گن رہے ہیں کیا؟”

دوسرے صاحب جو شاید پنجاب پولیس کے ریٹائرڈ افسر معلوم ہوتے تھے، خالص لاہوریہ لب و لہجے میں گویا ہوئے:

"ایران والے بندے کو عزت سے بٹھاتے ہیں، ہمارے ہاں تو یوں خوار کیا جاتا ہے جیسے ہم زائرین نہیں، بلکہ کسی ناکام بغاوت کے مجرم ہیں!”

سامنے ایک فوجی افسر، جس کے چہرے پر شدید بے زاری کے آثار نمایاں تھے، بڑے رعب سے ایک رجسٹر پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ میں نے اپنا پاسپورٹ صبح 10 بجے جمع کروایا، مگر اس رجسٹر کی مقدس سطروں میں میرا نام درج ہونے کا شرف مجھے ٹھیک 3گھنٹے بعد نصیب ہوا۔ اتنے میں میں نے گنا، میرے بعد آنے والے 4سفید فام غیر ملکی—نیکٹر، لینا اور ان کے 2ہم سفر— 15منٹ میں ہی فارغ ہو کر ایرانی سرحد کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔

ایرانی سرحد کے پار نظر دوڑائی تو یوں لگا جیسے کوئی نیا جہاں کھل گیا ہو۔ وہاں ایک شاندار، تین منزلہ عمارت تھی، ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے، زائرین عزت کے ساتھ کرسیوں پر بٹھائے جا رہے تھے، اور پینے کے لیے مفت ٹھنڈا پانی دستیاب تھا۔ پاسپورٹ پر مہر لگانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگتا تھا اور لوگ عزت و احترام کے ساتھ ایران میں داخل ہو رہے تھے۔ جبکہ اس احاطے میں پانی کی چھوٹی سی بوتل، جو عام طور پر پانچ روپے کی ہوتی تھی، یہاں تیس روپے میں بک رہی تھی، اور وہ بھی ایسے جیسے بلیک مارکیٹ میں کوئی ممنوعہ چیز فروخت ہو رہی ہو۔

ایک نوجوان، جو شاید پہلی بار سفر کر رہا تھا، جھنجھلا کر بولا:

"یہ کیسی سرحد ہے جہاں جانے میں تین گھنٹے لگتے ہیں، اور واپسی میں تین منٹ؟”

بوڑھے زائر نے اپنا خالص مشرقی فلسفہ جھاڑتے ہوئے جواب دیا:

"بیٹا! یہ وہ زمین ہے جہاں ہم مسافر نہیں، مجرم تصور کیے جاتے ہیں، اور دوسری طرف وہ زمین ہے جہاں ہمیں انسان سمجھا جاتا ہے!”

یہ مشرف کا دور تھا۔ فوجی کہتے تھے کہ وہ تفتیش کر رہے ہیں، مجرموں کو روکنے کے لیے۔ لیکن مجرم کون تھا؟ وہ زائرین جو پنجاب اور سندھ سے اپنے ایمان کی تجدید کے لیے آئے تھے؟ وہ بوڑھی عورتیں جو گرمی میں بیہوش ہو رہی تھیں؟ یا وہ جو درجنوں کی تعداد میں اپنی باری کے انتظار میں فرش پر بیٹھے تھے؟

مسافر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دروازے کے سائے میں سمٹ کر بیٹھے تھے، کچھ وہیں گرم زمین پر ڈھیر ہو چکے تھے، اور کچھ پانی کی بوتل خریدنے کی کوشش کر رہے تھے—جو کہ پانچ روپے کی ہونی چاہیے تھی، مگر یہاں تیس روپے میں عزت و تکریم کے ساتھ دستیاب تھی۔

وہ جولائی کی ایک دوپہر تھی— ایسی دوپہر جس میں سورج خود بھی جلتے ہوئے آسمان سے نیچے اترنے کی التجا کر رہا ہو، پاکستانی کسٹمز کے احاطے کا فرش خاک آلود تھا، لوگ برآمدے میں بیٹھے یا کھڑے تھے، اور فوجی افسران رجسٹروں میں وہی کام کر رہے تھے جو شاید 1947 کے ہجرت کے وقت کیا گیا تھا— ہر چیز کو غیر ضروری حد تک طول دینا۔

ایک لکڑی کی بوسیدہ میز، جس پر دوات اور قلم رکھے تھے، اور اس کے پیچھے ایک سنجیدہ، پیشانی پر بل ڈالے، انصاف پسند سرکاری اہلکار بیٹھے تھے۔ اُن کا کام تھا— ہر مسافر کو کم از کم تیس سوالات کی بھٹی میں جھونکنا، تاکہ یہ طے ہو سکے کہ آیا وہ واقعی زائر ہے یا کوئی بین الاقوامی جاسوس، اسمگلر، یا کم از کم ایک ایسا شخص جو گرمی میں پسینہ بہانے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہو۔

میری باری آئی تو گویا عدالت لگ گئی۔ ایک دراز قامت اہلکار، جس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ ابھی ابھی کسی فلسفیانہ معرکے سے گزرا ہو، پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے سنجیدگی سے ایک سوال داغا:

"کیوں جا رہے ہو ایران؟”

"سیر و تفریح کے لیے جارہا ہوں”

"کتنے دن ٹھہرو گے؟”

"چند دن۔”

تم نے کبھی کسی غیر ملکی سے بات کی ہے؟”

"ہاں، ابھی پانچ منٹ پہلے نیکٹر اور لینا سے بس میں بات ہو رہی تھی۔”

یہ سن کر اہلکار کے کان کھڑے ہو گئے، جیسے اسے بین الاقوامی سازش کی بو آ گئی ہو۔ اس نے رجسٹر بند کیا، ایک گہرا سانس لیا، اور دوبارہ کھولا— اور یہ عمل کم از کم مزید پندرہ منٹ لے گیا۔

اہلکار نے مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھا، جیسے میں نے اعترافِ جرم کر لیا ہو۔ پھر اس نے میز پر رکھا اپنا بال پوائنٹ اٹھایا اور رجسٹر پر نام لکھنے لگا— ایسے جیسے وہ کسی جادوئی منتر کو ترتیب دے رہا ہو۔ قلم حرکت کر رہا تھا، مگر جیسے سست روی کا شکار ہو۔ لگتا تھا کہ اگر یہ تحریر یونانی فلسفے میں لکھی جا رہی ہوتی، تو سقراط بھی بور ہو جاتا۔

نیکٹر اور لینا سرحد کے اُس پار میرے منتظر تھے، مگر وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ جونہی میں نے اُنہیں دیکھا، مجھے احساس ہو گیا کہ ان کے صبر کی حد ختم ہو چکی ہے۔ ان کے چہروں پر وہی بے چینی تھی جو ہر آزاد مسافر محسوس کرتا ہے جب وہ جمود کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔ میں نے ایرانی سرحد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نرمی سے کہا، "آپ لوگ مزید انتظار نہ کریں، آگے بڑھ جائیں۔”

میرے برابر ایک بزرگ بیٹھے تھے، گرمی سے نڈھال۔ جب ان کی باری آئی، تو اہلکار نے ایسے سوالات شروع کیے جیسے وہ کسی جاسوس فلم کے ولن ہوں۔

"تمہارے والد کا نام؟”

"بیٹا، میں خود دادا بن چکا ہوں، والد تو اللہ کو پیارے ہو گئے!”

"تمہارے والد کا نام؟”

بزرگ نے جھنجھلا کر نام بتایا۔

"والدہ کا نام؟”

"یہ بھی اللہ کو پیاری ہو چکیں، صاحب!”

آخرکار، تین گھنٹے بعد، میرے پاسپورٹ پر مہر لگ گئی— ایسی مہر، جو کسی تاریخی معاہدے کی طرح قیمتی لگ رہی تھی۔ میں نے پاسپورٹ پکڑا، اور پیچھے دیکھا— وہی پرانی گرد میں اٹی ہوئی فائلیں، وہی سست روی، اور وہی یہ تاثر کہ یہ جگہ صرف اس لیے قائم ہے تاکہ سرحد پار کرنے کا عمل جتنا زیادہ مشکل ہو، اتنا زیادہ حب الوطنی کا احساس پیدا ہو۔

میں ایرانی سرحد میں داخل ہوا تو لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ سامنے امام خمینی اور سید علی خامنہ ای کے پورٹریٹ دیواروں پر سجے تھے، جیسے وہ اس لمحے کے گواہ ہوں کہ سرحد کے ایک طرف مسافر عزت کے ساتھ قبول کیے جا رہے ہیں، اور دوسری طرف انہیں گھنٹوں کی سزا دی جا رہی ہے۔

اور یوں، میں ایران میں داخل ہو گیا۔

چھٹی قسط یہاں اختتام پذیر ہوتی ہے۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے