پاکستانی بہت برے پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اس ملک میں رہتے ہیں تو بھی لٹتے رہتے ہیں، اس لوٹ مار سے بھاگ کر بیرون ملک جاتے ہیں، تب بھی فراڈ، لوٹ مار اور بدترین ظلم و استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔
حال ہی میں بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں ایسے چند پاکستانیوں کی کہانیاں ہیں جو روزگار کی خاطر بیرون ملک گئے لیکن فراڈ کا شکار ہوئے، اور وہاں بہت برے طریقے سے پھنس گئے۔
ایک کہانی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے رہائشی نصیب ساجد کی ہے جنھیں گزشتہ برس کے اواخر میں جنوب مشرقی ایشیا کے ملک کمبوڈیا سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ وہ اپنی کہانی سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ پاکستان میں تھے تو انھیں بتایا گیا تھا کہ کمبوڈیا میں ڈیٹا انٹری کا کام ہے۔ مگر جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ کال سینٹر کا کام ہے۔ اور پھر چند دنوں بعد بتایا گیا کہ لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔
’ اگر کام سیکھ لیا اور ماہانہ 1000 ڈالر کما کر دو گے تو اس پر 10 فیصد کمیشن ملے گا۔‘
نصیب ساجد کا کہنا ہے کہ جب وہ یہ کام نہ سیکھ سکے تو انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اور کہا گیا’ہم نے تمھیں ایجنٹ سے خریدا ہے، وہ پیسے واپس کرو۔‘
نصیب ساجد کی طرح بہت سے دیگر پاکستانی بھی اس طرح کی دھوکہ دہی کا شکار ہو کر کمبوڈیا میں پھنس گئے۔ پھر 23 فروری کو تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے ایک مرکز سے 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بازیاب ہونے والوں میں 50 پاکستانی، 48 انڈین اور 109 تھائی شہری شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائبر فراڈ کے یہ مراکز کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرائم پیشہ گروہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو سمگل کر کے انھیں جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں قائم فراڈ کے مراکز اور غیر قانونی آن لائن آپریشنز میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان غیر قانونی آپریشنز میں ہر سال اربوں ڈالر کا سائبر فراڈ ہوتا ہے اور لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری: پڑھے لکھے نوجوان آن لائن فراڈ کے شکار کیسے بنتے ہیں؟
آن لائن فراڈ : بچیں اور بچائیں
بیرونِ ملک ملازمت کے خواہشمند کیسے 10 لاکھ روپے کا سرکاری قرض حاصل کر سکتے ہیں؟
فیصل آباد ہی کے رہائشی احمد علی کی کہانی بھی نصیب ساجد سے ملتی جلتی۔ انھیں بھی بیرون ملک نوکری کا جھانسہ دے کر کمبوڈیا پہنچا دیا گیا۔ جب وہ کمبوڈیا پہنچے تو انھیں کہا گیا کہ یورپ، امریکا اور کینیڈا کے لوگوں کے بینک اکاؤئنٹس اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات حاصل کرنی ہیں۔
اُن کے مطابق اس سینٹر میں موجود بہت سے لوگ ایسا کرنے میں یعنی لوگوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے مگر اُن سے یہ کام نہ ہو سکا۔
چنانچہ گزشتہ برس کے آخر میں احمد علی بھی کمبوڈیا سے ڈی پورٹ ہو کر وطن واپس پہنچ گئے۔ احمد علی اور نصیب ساجد کی واپسی کے لیے اُن کے اہل خانہ کو بہت کوششیں کرنا پڑی تھیں۔
’ایجنٹ نے کمبوڈیا بھجوانے کے تین لاکھ روپے لیے‘
نصیب ساجد بتاتے ہیں کہ اُن سے پہلے بھی ان کے علاقے کے کافی افراد ایک ایجنٹ کے ذریعے کمبوڈیا جا چکے تھے۔ یہ ایجنٹ سرکاری سکول میں استاد ہیں۔ لوگ اُن پر کافی اعتماد بھی کرتے ہیں۔
’مجھے پاکستان میں روزگار نہیں مل رہا تھا اور جب سُنا کہ کمبوڈیا میں کال سینٹر اور ڈیٹا انٹری کی ملازمتیں دستیاب ہیں تو میں نے اُن سے رابطہ کیا اور 3 لاکھ روپے میں ہمارا معاملہ طے ہوا۔ انھوں نے مجھے کمبوڈیا کا ویزہ لگوا کر دینا تھا جبکہ ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست مجھے خود کرنا تھا۔‘
نصیب ساجد ستمبر کے مہینے میں کمبوڈیا پہنچے۔کمبوڈیا میں ان سے یہ کہہ کر پاسپورٹ لے لیا گیا کہ اس پر ایک ماہ کا سیاحتی ویزہ لگا ہوا ہے جسے مستقل ویزہ میں تبدیل کروانا ہے۔
ان کے مطابق انھیں دارالحکومت نوم پنہ کے ایک نواحی علاقے لے گئے جہاں بڑی بڑی عمارتیں تھیں۔ اُنھیں جس عمارت کے کمرے میں رکھا گیا وہاں پہلے سے 4 پاکستانی موجود تھے جبکہ عمارت کے دیگر کمروں میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس علاوہ وہاں انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، تھائی لینڈ، میانمار اور دیگر ممالک کے شہری بھی موجود تھے۔
نصیب ساجد نے بتایا ہے کہ وہاں پہنچ کر انھیں ہر طرف ایک خوف کا سا عالم محسوس ہوا۔ وہاں پہلے سے موجود پاکستانی کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ میرے کمرے میں موجود پاکستانی بھی نہیں۔ مجھے صرف یہی کہا گیا کہ کچھ دن یہاں رہو تو سب خود ہی معلوم ہو جائے گا۔‘
’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ دو‘
احمد علی نے بتایا کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں 8 موبائل فون اور 8 سم کارڈ دیے گئے۔ پھر نمبروں کی ایک فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اور پاس ورڈز حاصل کرنے ہیں۔
’میں نے اگلے چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا۔ وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہنے لگے کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘
وہاں موجود افراد نے احمد کو خبردار کیا کہ جلد ہی یہ کام سیکھ لو ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنا ہوں گے۔
احمد علی نے بتایا کہ انھوں نے چند روز مزید کوشش کی مگر دھوکا دہی کا کام نہیں سیکھ سکے، جس کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
’دھوکا دینے پر تنخواہ نہیں، صرف کمیشن ملتا تھا‘
انھوں نے بتایا کہ وہاں لائے گئے کئی افراد دھوکا دہی کے اس کام میں ماہر ہو چکے تھے۔ ’اُن کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ اُن میں مختلف ممالک کے لوگ تھے۔‘
’کال سینٹر‘ میں کام کرنے والوں کو کوئی باقاعدہ تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی تھی بلکہ کمیشن ملتا تھا۔ ’1000 ڈالر پر 10 فیصد کمیشن ملتا تھا۔ جو اُنھیں کمائی کرکے دیتا وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے اور اسے کھانا پینا بھی بہتر دیا جاتا تھا۔‘
احمد علی نے بتایا ’وہاں روزانہ بریفنگ ہوتی تھی اور سمجھایا جاتا تھا کہ اب وہ کس ملک کے لوگوں کو کال کریں گے اور کس بینک یا کاروباری ادارے کے نمائندے بنیں گے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ عموماً کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان کی جانب سے کیے گئے فراڈ کا شکار بن جاتے تھے جبکہ کئی لوگ انعامات کے لالچ میں بھی پھنس جاتے تھے۔
یہ سب کام کیسے ہوتا تھا؟
اختر علی کے مطابق کال سینٹر سے کی جانے والی کالیں خودکار نظام کے تحت ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھیں۔
’جیسے ہے کوئی شخص فریب میں آ کر اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاؤنٹ یا دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔‘
نصیب ساجد کا کہنا ہے وہاں کام کرنے والے کچھ لوگ تجربے کی بنیاد پر اتنے ماہر ہوگئے تھے کہ وہ شکار کی آواز سُن کر بتا دیتے تھے کہ یہ شخص پھنسے گا یا نہیں۔ جس کے بارے میں انھیں اندازہ ہو جاتا کہ یہ نہیں پھنسے گا تو اس پر وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔
رہائی کیسے ممکن ہوئی؟
ایک اور متاثرہ پاکستانی اختر علی بتاتے ہیں کہ کال سینٹر والوں نے انھیں بعدازاں بتایا کہ انھیں ایجنٹ سے 2 ہزار ڈالرز میں خریدا تھا۔
’ایک روز انھوں نے بتایا کہ اب تک تم پر 5 ہزار ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، لہذا یہ رقم واپس کرو۔ وہ مجھے اور دیگر کچھ افراد کو جو کام نہیں سیکھ پا رہے تھے، سونے نہیں دیتے تھے اور تشدد بھی کرتے تھے۔‘
اختر علی نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں فون دیتے اور گھر والوں کو کال ملانے کا کہتے۔ ’جب ہم فون کرتے تو وہ ہمیں کرنٹ لگاتے اور گھر والوں سے کہتے کہ جلدی پیسے بھجوائیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والے پریشان ہو کر وہ پیسے بھجواتے مگر وہاں موجود افراد یہ کہہ کر مزید رقم کا مطالبہ کرتے کہ ہمارے کھانے پینے اور دیگر چیزوں پر ہونے والے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔
نصیب ساجد کہتے ہیں کہ ناکام ہونے پر انھیں بھی تشدد کا بنایا گیا۔
’اسی دوران وہاں پہلے سے موجود ایک لڑکا اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ واپس پاکستان چلا گیا تھا۔ اُن کی کینیڈا میں موجود ایک پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر رضوان خالد چوہدری نے مدد کی تھی۔ اس نے جاتے جاتے پروفیسر کا رابطہ نمبر ہمیں دے دیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ نمبر اپنے گھر والوں کو دیا اور انھوں نے پروفسیر ڈاکٹر رضوان کے ذریعے کمبوڈیا کی پولیس سے رابطہ قائم کیا۔
ساجد کے مطابق پہلے انھیں گرفتار کر کے جیل میں رکھا گیا اور پھر پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
’لڑکیاں بھی مجرموں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں‘
پروفیسر ڈاکٹر رضوان یونیورسٹی آف واٹر لو میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔
اُن کا کمبوڈیا میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر سائبر فراڈ کے مراکز میں پھنسے والے افراد سے رابطہ اپنے ایک شاگرد کی توسط سے ہوا جس کا بڑا بھائی اس گروپ کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ کچھ سال قبل اپنے شاگرد کے بھائی کو چھڑانے کے لیے انھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک 50 کے قریب لوگوں کو اس گروہ کے چنگل سے چھڑا چکے ہیں۔ زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے مگر اس میں انڈین اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی سینکڑوں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جن میں کچھ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ گروہ ملازمت اور کام کے بہانے لوگوں کو بلا لیتے ہیں۔ ’جو سائبر فراڈ کر سکتا ہے وہ اسے رکھ لیتے ہیں اور باقاعدہ کمیشن دیتے ہیں مگر جو لوگ اُن کے کام کے نہیں ہوتے وہ اُن کے گھر والوں سے تاوان وصول کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر رضوان کے مطابق ان کی اطلاعات کے مطابق ان سینٹرز میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کی خواتین بھی موجود ہیں۔
طاقتور جرائم پیشہ گروہ
ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ اس گروہ کے افراد اپنے جال میں پھنسنے والے غیر ملکی افراد پر اپنی قانونی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’آنے والے شخص سے ایئر پورٹ ہی پر ایک معاہدے پر دستخط کروا لیے جاتے ہیں جس میں لکھا ہوتا ہے کہ وہ کمپنی کا مقروض ہے۔‘
اُن کے مطابق عموماً لوگ ایئر پورٹ پر اس معاہدے کو غور سے نہیں پڑھتے۔
ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ ان افراد کا پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں جبکہ مضبوط قانونی پوزیشن کے باعث پاکستان سمیت کسی بھی ملک کا سفارتخانہ اس بارے میں اپنے شہریوں کی زیادہ مدد نہیں کر پاتا۔
اُن کا کہنا کہ جن افراد کے بارے میں انھیں اطلاع ملتی ہے وہ ان کی بازیابی کے لیے کمبوڈیا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے علاوہ مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ کچھ کینیڈین ارکان پارلیمنٹ کی بھی مدد لیتے ہیں۔
ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ چند مرتبہ پاکستانی سفارتخانے کی مدد سے بھی وہاں پھنسے افراد کی رہائی ممکن ہوئی تھی لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ممالک کے سفارتخانے عموماً اس معاملے میں بے بس ہی ہوتے ہیں۔
اُن کے مطابق ان سینٹرز سے بازیابی کے بعد عموماً اِن افراد کو ویزہ وغیرہ کی خلاف ورزی کے الزام میں جیل جانا پڑتا ہے اور بعدازاں انھیں ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے یہ ایک انتہائی طاقتور گروہ ہیں جو یہ سب دھندا چلا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق یہ گروہ آبادی سے دور جنگل میں اپنے مراکز قائم کرتے ہیں اور یہ اتنے بااثر ہیں کہ مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے مشکل سے ہی ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
پاکستانی حکام کا کیا کہنا ہے؟
پاکستان کی وزارت خارجہ نے کمبوڈیا اور اس کے دارالحکومت نوم پنہ کے حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر وہاں ملازمتوں کے حوالے سے ایک انتباہی پیغام جاری کر رکھا ہے۔
اس الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے علم میں آیا ہے کہ پاکستان میں کچھ ایجنٹ نوجوانوں کو کمبوڈیا میں ملازمتوں کے لیے بھرتی کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی بھی ملازمت کی آفر قبول کرنے سے پہلے کمبوڈیا میں پاکستان کے سفارتخانے سے کمپنی کی لازمی تصدیق کروائیں۔‘ سفارتخانے نے اس ضمن میں ای میل ایڈریس اور فون نمبر بھی فراہم کیے ہیں۔
الرٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسی کمپنیاں جعلی ملازمتوں کی تشہیر آن لائن کرتی ہیں جس میں یہ ڈیٹا انٹری، کال سینٹر،مارکیٹنگ اور آن لائن کام وغیرہ کے عوض بہت اچھی تنخواہ کی پیشکش کی جاتی ہے۔
الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ایجنٹ کمبوڈیا کے ویزے کا انتظام کرتے ہیں اور پاکستان سے کمبوڈیا کے فضائی سفر کا انتظام بھی کیا جاتا ہے اور نوم پنہ پہنچنے پر معاہدے پر دھوکے سے کروائے جاتے ہیں اور پھر افراد کو فراڈ کی کمپنیوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
ویب سائٹ پر مزید بتایا گیا ہے کہ اس نوعیت کی فراڈ کمپنیوں میں ملازمین سے آن لائن مالی دھوکہ دہی کروائی جاتی ہے اور ایسے ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو دھوکا دہی کرنے سے انکار کرتے ہیں جبکہ جو ملازمیں واپس جانا چاہتے ہیں ان سے ہزاروں ڈالرز کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
وزارت خارجہ کے مطابق کسی بھی ایسی نوکری پر آنے سے قبل سفارتخانے سے کمپنی کی ضروری تصدیق لازمی کروائی جائے۔
کاش! پاکستانیوں کو پاکستان ہی میں اچھا روزگار ملتا، وہ دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے دیگر ممالک میں جانے کے خواب نہ دیکھتے، وہاں جا کر فراڈ میں نہ پھنستے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ پاکستانی جائیں تو کہاں جائیں؟
یہ رپورٹ اپنے تمام جاننے والوں کو ضرور شیئر کیجیے تاکہ سادہ لوح پاکستانیوں کو ظالمانہ چنگل میں پھنسنے سے باز رکھا جائے۔
تبصرہ کریں