فلسطین کی مزاحمتی تحریک ’حماس‘ نے جنگ بندی معاہدے کے مطابق 620 قیدیوں کی رہائی تک اسرائیل کے ساتھ مزید مذاکرات سے انکار کر دیا۔
یاد رہے کہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے اواخر میں ہفتہ کے روز حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے 6 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا، اس کے بدلے میں اسرائیل نے 620 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا لیکن عین وقت میں اسرائیلی حکومت نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل روک دیا۔
اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ رہائی مؤخر کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حماس ان کی شرائط پوری نہیں کرتی، انہیں آزاد نہیں کیا جائے گا۔ یہ شرائط کیا ہیں؟
دراصل یہ شرائط نہیں، محض ایک شرط ہے۔
اسرائیلی حکومت یرغمالیوں کی رہائی کے موقع پر القسام بریگیڈ کی جانب سے منعقدہ تقاریب سے سخت پریشان ہے۔ ان تقاریب میں رہا ہونے والے اسرائیلی یرغمالی القسام بریگیڈ کے مجاہدین کے حسن سلوک کے سبب، ان کے ساتھ اپنی محبت اور ان کے حسن سلوک کی گواہی دیتے ہیں۔
ہفتے کے روز منعقدہ تقریب میں رہا ہونے والے ایک اسرائیلی یرغمالی نے دو مجاہدین کے سروں کو بوسہ دیا تھا۔
ان تقاریب میں القسام بریگیڈ کی طرف سے رہائی پانے والے یرغمالیوں کو تحائف دے کر ریڈکراس کے حوالے کرتے ہیں۔ اب تک جتنے یرغمالی رہا ہوئے، وہ القسام بریگیڈ سے بہت خوش دکھائی دیے۔ ان میں سے کسی بھی فرد نے اپنے علاقے اور گھر پہنچ کر القسام بریگیڈ کے لیے منفی بیانات جاری نہیں کیے۔
ہفتے کے روز قیدیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈز نے اسرائیلی فوجیوں سے چھینے گئے اسلحہ کی نمائش بھی کی۔
یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار القسام بریگیڈ کی طرف سے ان تقاریب کو اسرائیلی معاشرے کے لیے ایک واضح پیغام قرار دیتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق
اولاً ، حماس دنیا کو باور کروا رہی ہے کہ وہی غزہ کی منتظم اور حکمران ہے، غزہ اسی کے کنٹرول میں ہے۔ وہ اسرائیلی قیدیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا جانتی ہے۔ اسرائیل امریکا اور برطانیہ کی تمام تر مدد کے باوجود سوا سال تک اپنی یرغمالیوں تک نہ پہنچ سکا۔ القسام بریگیڈ نے تقریباً تمام یرغمالیوں کی نہ صرف مکمل حفاظت کی بلکہ ان کے ساتھ ایسے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جس نے انھیں القسام بریگیڈ کے مجاہدین کا گرویدہ بنالیا۔
یہ بھی پڑھیے
حماس نے 4فوجی خواتین کو کہاں رکھا ہوا تھا؟
یرغمالیوں کے لیے تحائف سے بھرے بیگز، حماس نے دنیا کو کیا پیغام دیا؟
اسرائیل پہلی بار جنگ ہار گیا، ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ
ثانیاً ، القسام بریگیڈ کے مجاہدین جس شاندار اور باوقار انداز میں اسرائیلی یرغمالیوں کو رخصت کرتے ہیں، اس سے خود اسرائیلی معاشرے میں حماس اور فلسطینیوں کے بارے میں مثبت جذبات پیدا ہورہے ہیں۔ حالانکہ اسرائیلی حکمرانوں نے پون صدی سے زائد عرصہ میں، ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اسرائیلی معاشرے کو عربوں بالخصوص فلسطینیوں سے نفرت سکھائی، ان کے خون میں نفرت ہی نفرت بھری لیکن القسام بریگیڈ کے اسرائیلی یرغمالیوں سے حسن سلوک کے باعث یہ ساری نفرت ہوا ہورہی ہے۔
ثالثاً، اسرائیلیوں نے بخوبی دیکھا کہ سات اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حکومت نے کس طرح عام فلسطینیوں، حتیٰ کہ خواتین اور بچوں کو بمباری سے شہید کیا اور کس قدر بڑی تعداد میں کیا۔ دوسری طرف فلسطینی مجاہدین اس دوران صرف حملہ آور اسرائیلی فوجیوں ہی کو ہلاک کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہزاروں فلسطینی بچوں اور خواتین کی شہادتیں دیکھ کر ان کا یقیناً خون کھولتا ہوگا لیکن فلسطینی مجاہدین شریعت اسلامی کے حکم کی مکمل پاسداری کرتے رہے ہیں کہ اسلام غیر متحارب افراد کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ظاہر ہے کہ اس تناظر میں اسرائیلی معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے لوگ حماس کے طرزعمل سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور یہی چیز اسرائیلی حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تقاریب اسرائیل کے لیے ’تضحیک آمیز‘ ہیں۔ اس لیے جب تک ایسی تقاریب کا انعقاد روکا نہیں جاتا، وہ مزید فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس ان تقاریب کو پروپیگنڈا کے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
دوسری طرف غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق حماس کے عہدیدار باسم نعیم نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ثالثوں کے ذریعے جنگ بندی کے مزید اقدامات پر مذاکرات اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک فلسطینی قیدیوں کو معاہدے کے مطابق رہا نہیں کیا جاتا۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے برطانوی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ دشمن کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات، جو ثالثوں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں، تب تک ممکن نہیں جب تک معاہدے کے تحت طے شدہ 620 فلسطینی قیدی رہا نہیں کیے جاتے، جنہیں ہفتے کے روز 6 اسرائیلی قیدیوں اور 4 لاشوں کے بدلے آزاد کیا جانا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ثالثوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ دشمن معاہدے کی شرائط پر عمل کرے، جیسا کہ طے شدہ معاہدے میں درج ہے۔
حماس نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر غزہ جنگ بندی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت یکم مارچ کو ختم ہونے والے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت میں شریک نہیں ہورہی ہے۔
معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مراحل کی تفصیلات پر اگرچہ اصولی طور پر اتفاق کیا گیا، تاہم اس پر مزید بات چیت کی جانی تھی۔ چھ ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی اسیران کی رہائی، غزہ سے اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا اور اسرائیل کی نان سٹاپ بمباری سے تباہ ہونے والے انکلیو میں امداد کی ترسیل شامل تھی۔
19 جنوری کو شروع ہونے والے معاہدے کے مطابق، دوسرے مرحلے کو حتمی شکل دینے کی صورت میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی ہوگی۔
حماس کے سیاسی بیورو کے ایک سینیئر رکن باسم نعیم نے ہفتے کے روز معروف عرب ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کو بتایا، ’ہمیں یقین ہے کہ ایک بار پھر اسرائیلی حکومت ڈیل کو سبوتاژ کرنے، اسے کمزور کرنے اور پھر سے جنگ شروع کرنے کا پیغام دینے کا گھناؤنا کھیل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ غزہ کا حکمران فلسطینی گروہ معاہدے پر قائم ہے، اس نے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کی ہے۔
باسم نعیم نے اسرائیل پر معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں 100 سے زیادہ فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، زیادہ تر انسانی امداد کو غزہ میں لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی، اور نیٹزارم کوریڈور(غزہ کو شمال اور جنوب میں تقسیم کرنے والا عسکری علاقہ‘ سے اسرائیلی فوجی انخلا ملتوی کر دیا گیا۔
تبصرہ کریں