رپورٹنگ ٹیم
آپ نے بہت بار سنا ہوگا کہ برے کاموں کا برا نتیجہ ہی نکلتا ہے۔ آپ نے یہ نصیحت بھی بار بار سنی ہوگی کہ برے دوستوں کی صحبت سے بچو۔ جو لوگ ان دونوں باتوں کو پلے باندھ لیتے ہیں، نہ خود برے دوست بناتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد کو ایسا کرنے دیتے ہیں، ان کا انجام مصطفیٰ عامر ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی ارمغان جیسا۔ اور نہ ہی شیراز جیسا۔
یہ کہانی کراچی کے ایک پوش علاقے میں رہنے والے کچھ لوگوں کے طرز زندگی کا ایک رخ ہے جہاں اول تو کچھ سامنے نہیں آتا اور اگر کبھی آجائے تو پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
برائی کی بنیاد پر بننے والے تعلقات کا انجام اکثر بھیانک ہی نکلتا ہے اور اپنے اندر ایک سبق لیے ہوئے ہوتا ہے۔
یہ کہانی نشے، طاقت اور غرور کی ہے جو ایک چھلے ہوئے کیلے کی تصویر سے ایک خطرناک موڑ لیتی ہے اور ایک نوجوان مصطفیٰ عامر کے درد ناک قتل تک پہنچ جاتی ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ 3 دوستوں مصطفیٰ عامر، ارمغان اور شیراز کی دوستی کا سفر جانی دشمنی پر کیسے ختم ہوا؟
سینیئر کرائم رپورٹر شاہمیر خان نے بتایا کہ 6 جنوری کو مصطفیٰ اپنے گھر سے دوست ارمغان کے گھر جانے کے لیے نکلا لیکن وہاں جانے کے بعد لاپتا ہوگیا۔ تلاش میں ناکام ہوجانے کے بعد گھر والوں نے 7 جنوری کو مصطفیٰ عامر کے اغوا کا مقدمہ تھانہ درخشاں میں درج کروادیا۔ پولیس نے مصطفیٰ عامر کی تلاش تو شروع کردی۔ وہ اس سے قبل اے این ایف کے ہاتھوں منشیات سپلائی کے مقدمہ میں پکڑا جا چکا تھا لہٰذا اسی بنیاد پر پولیس کو شک تھا کہ مصطفیٰ کا کسی منشیات والوں کے ساتھ جھگڑا ہوا ہوگا اور اسی چکر میں وہ لاپتا ہوگیا ہے۔
پولیس کی تحقیقات چل ہی رہی تھی کہ اچانک مصطفیٰ کی والدہ کو ایک کال آئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ہم آپ کے بیٹے سے متعلق آپ کو بتائیں گے کہ وہ کہاں ہے جس کے لیے آپ کو ایک کروڑ روپے دینے پڑیں گے۔ اس کال کے بعد مصطفیٰ کی والدہ نے پولیس کو اطلاع دے دی اور کیس اے وی سی سی منتقل ہوگیا کیوں کہ اس بات کی تصدیق ہوچکی تھی کہ یہ اغوا برائے تاوان کا معاملہ ہے۔
تحقیق کا دائرہ بڑھانے کے لیے مصطفیٰ عامر کے 4 دوستوں کو تحقیقات میں شامل کیا گیا جن میں ایک ارمغان بھی تھا۔ 8 فروری کو اے وی سی سی کی ٹیم ارمغان کے گھر پہنچی تو اس نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ پولیس نے بڑی مشکل سے ارمغان کو حراست میں لے لیا۔
ارمغان نے پولیس کے سامنے کچھ نہیں اگلا۔ جب مصطفیٰ کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ وہ تو میرا دوست تھا اس کے ساتھ میں ایسا کیوں کروں گا۔ اے وی سی سی سے جب بات نہ بن پائی تو پھر باری آئی انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کی جس نے کام شروع کیا تو ارمغان کے دوست شیراز کا لنک مل گیا جسے کراچی ایئرپورٹ کے نزدیک واقع فلک ناز پلازا سے حراست میں لے لیا گیا۔
شیراز کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اور وہ ارمغان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسے نشہ اور پیسہ ارمغان سے ملتا ہے۔ شیراز دباؤ برداشت نہ کرسکا اور اس نے ساری کہانی کھول کر بیان کردی۔
اس نے بتا دیا کہ ارمغان کے گھر مصطفیٰ آیا تھا جس نے مبینہ طور پر ایک تھیلی میں منشیات ارمغان کو دی۔ اس کے بعد ارمغان اشتعال میں آیا اور ان کی آپس میں تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد ارمغان نے لوہے کی سلاخ سے مصطفیٰ عمران کو پیٹنا شروع کردیا۔
ماشا اور انجلین، 2 لڑکیاں باعث نزاع بن گئیں
ماشا اور انجلین 2 لڑکیاں تھیں جن کی وجہ سے مصطفیٰ عمران اور ارمغان کے مابین مسائل چل رہے تھے۔ یہ دونوں لڑکیاں ارمغان کے اس کال سینٹر میں کام کرتی تھیں جو ستمبر 2024 میں بند ہو چکا تھا۔ ارمغان نے مصطفیٰ کو شدید زخمی کرنے کے بعد اس کے منہ پر ٹیپ لگایا اور اس دوران ارمغان نے مبینہ طور مصطفیٰ کے جسم کا نازک حصہ بھی کاٹ دیا جس کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائی گئیں جو ارمغان کے موبائل کا ڈیٹا ملنے کے بعد سامنے آجائیں گی۔
اس کے بعد مصطفیٰ نیم بے ہوشی کی حالت میں گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر حب بلوچستان کے علاقے دوریجی لے جایا گیا جہاں شیراز کے مطابق ارمغان نے پیٹرول چھڑک کر مصطفیٰ کو آگ لگا دی۔
اس بیان کے بعد پولیس کو ارمغان کے گھر سے خون کے 2 نمونے ملے جن میں سے ایک کا سیمپل مصطفیٰ کی والدہ جبکہ دوسرا انجلین نامی لڑکی کے خون سے میچ ہوا۔
انجلین کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اسے ارمغان نے 6 جنوری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس کا جنسی استحصال بھی کیا تھا جس کے بعد وہ اسپتال میں داخل ہوگئی تھی۔ انجلین اور اس کے والد پر ارمغان نے دباؤ ڈالا تھا کہ بول دینا کہ حادثہ ہوا تھا جس کے بعد انجلین کو آن لائن ٹیکسی والے لے کر آئے لہٰذا انجلین کے والد نے اسپتال میں وہی بیان دیا۔ بعد میں بیٹی کو لے کر وہاں سے چلے گئے جس کے بعد سے دونوں لاپتا ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
نور مقدم کا قتل ، والدین کی شکست
نور مقدم کی کہانی جنم نہ لیتی اگر ……
مارشا شاہد نامی لڑکی مصطفیٰ اور ارمغان دونوں کی دوست تھی اور دونوں کے اس کے ساتھ جسمانی تعلقات تھے۔ جہاں تک انجلین کی بات ہے تو وہ مصطفیٰ کے سامنے ارمغان کے عضو خاص کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔
مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ یہ لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی۔ لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے نمائندے نے پروگرام ’باخبر سویرا‘ میں اس کیس کے حوالے سے بتایا تھا کہ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں پہلے مارشا شاہد نامی لڑکی کا نام لیا جارہا تھا اب انجیلینا نامی لڑکی کا نام سامنے آیا ہے، کہا جارہا ہے کہ انجیلینا ارمغان اور مصطفیٰ دونوں کی دوست تھی۔
واقعے سے ایک دن پہلے ارمغان نے انجلینا کو کسی بات پر بہت مارا اور وہ زخمی ہوگئی ، اس کے بعد وہ ڈیفنس کے ایک اسپتال جاتی ہے اور مصطفیٰ کو فون کرکے بتاتی ہے کہ ارمغان نے مارا ہے اور یہی سے سارا جھگڑا شروع ہوتا ہے۔
نمائندے کا کہنا تھا کہ جس کارپٹ سے پولیس نے مصطفیٰ کے ڈی این اے کے لیے خون کا سیمپل لیا ، وہاں سے ایک الگ خون کا سیمپل ملا ہے، اندازہ یہی ہے کہ یہ سیمپل انجلینا کا ہے ، کیونکہ اسے مصطفیٰ کے قتل سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ارمغان کے کال سینٹر میں لڑکیاں کام کرتی تھیں جن پر کام کے ساتھ ساتھ ارمغان کا دباؤ بھی ہوتا تھا۔ وہ ان میں سے کچھ لڑکیوں کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوچکا تھا۔
ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل انیل حیدر نے بتایا کہ تفتیش کے دوران ملزم ارمغان کے گھر سے ایک لڑکی کا ڈی این اے سیمپل ملا، کیس میں کئی لڑکیوں کے نام سامنے آئے، جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
ارمغان کے پاس پیسہ بھی تھا اور منشیات بھی جس کی وجہ سے لوگ اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے۔
جب مصطفیٰ اے این ایف کے ہاتھوں پکڑا گیا تھا تو اس کی گرفتاری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فون سم استعمال نہیں کرتا تھا بلکہ ایک ڈیوائس کی مدد سے ورچوول نمبر کا استعمال کرتا تھا جبکہ اس کی والدہ نے اس کی گاڑی میں ایک موبائل چھپایا ہوا تھا جس میں سم لگی ہوئی تھی۔ تلاشی کے دوران وہ موبائل فون بھی ارمغان کے گھر سے برآمد ہوا تھا جس کو پولیس کی تحقیق میں بہت بڑی پیش رفت قرار دینا غلط نہ ہوگا۔
ارمغان سے تفتیش اس لیے نہیں ہو پائی کیوں کہ پہلی ہی پیشی پر عدالت نے پولیس ریمانڈ میں دینے کے بجائے اس کی جیل کسٹڈی کردی تاہم بعد میں جب پولیس کو کسٹڈی مل گئی تو ارمغان نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ شیراز کے بیان کے مطابق اس نے ساری باتیں مان لیں۔ جہاں تک ارمغان کے لیپ ٹاپس کی بات ہے تو وہ عرصہ دراز سے بند تھے اور یہ اپنا ڈیجیٹل مائننگ کا سیٹ اپ ہنزہ منتقل کرنے والا تھا جہاں تمام کام مکمل ہو چکا تھا۔
ارمغان ہر ماہ 3 چکر ہنزہ کے لگاتا تھا۔ لیپ ٹاپس سے ڈیٹا نکالنے کے لیے سائبر کرائم کی مدد لی جارہی ہے۔ ارمغان کے گھر پر 32 سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور گھر کے ہر کمرے کی مانیٹرنگ کی جاتی تھی لیکن ان کے ڈی وی آر ارمغان نے سب سے پہلے توڑے جبکہ گھر کے باہر کے کیمروں کا ڈی وی آر ٹھیک ہے جو اس وقت پولیس کے پاس ہے۔
ارمغان سے 2 موبائل فون ملے ہیں جن میں ایک آئی فون جبکہ دوسرا اینڈرائیڈ ہے۔ اینڈرائیڈ فون کا ڈیٹا ارمغان اڑا چکا ہے لیکن پولیس کوشش کر رہی ہے کہ ڈیٹا بازیاب کرایا جاسکے لیکن آئی فون کا ڈیٹا نہیں نکل پا رہا۔
ارمغان کے گھر سے 2 تجوریاں ملی ہیں جن کو ڈیجیٹل لاک لگے ہوئے ہیں جن کا لاک کوڈ اب تک ارمغان نے نہیں بتایا جس کی وجہ سے وہ کھل نہیں سکے لیکن ایک تجوری کو پولیس نے کیس پراپرٹی بنا دیا ہے۔ پولیس کی کوشش ہے کہ وہ ارمغان سے کھلوائی جائے۔ ارمغان نے ثاقب ولد سلمان کے نام سے ایک جعلی شناختی کارڈ بھی بنایا ہوا تھا جس پر تصویر تو ارمغان کی تھی لیکن باقی معلومات جعلی ہیں۔ یہ شناختی ایک بار گرفتار ہونے کے بعد بنایا گیا تھا۔
شیراز کی جانب سے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق وہ ڈی ایچ اے کراچی میں پیدا ہوا اور اس کے والد کے ای ایس سی میں افسر تھے۔ اس نے بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی کا کام کیا اور چند روز سے فلک ناز اپارٹمنٹ میں رہائش اختیار کی۔ اس بیان میں شیراز نے ارمغان کے بارے میں بتایا کہ ارمغان عرف آرمی بچہ میرا بچپن کا دوست اور اسکول فیلو ہے اور اسکول کے بہت عرصے بعد قریب ڈیڑھ سال قبل وہ میرے گھر آیا۔ اس کے پاس نئی نئی گاڑیاں ہوتی تھیں اور بہت پیسہ تھا اس لیے میں نے اس سے دوبارہ دوستی کرلی۔
شیراز کے بیان کے مطابق وہ ارمغان کے پاس جایا کرتا تھے۔ اس کے پاس 3 شیر کے بچے بھی تھے اور وہ کال سینٹر چلاتا تھا جس میں 30،35 افراد کام کرتے تھے۔ اس کے بنگلے پر 30،35 گارڈ تھے۔ ارمغان کے خلاف متعدد مقدمات تھے اس کے پاس لڑکیوں کا آنا جانا تھا اور جدید اسلحہ بھی تھا۔ ارمغان روز لڑائی جھگڑا کرتا تھا اور چرس کے نشے کا عادی تھا۔ شیراز نے بتایا کہ وہ بھی ڈیڑھ سال سے چرس پی رہا ہے۔
مصطفیٰ عامر سے متعلق شیراز نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ وہ چرس کی سپلائی کرتا تھا اور ارمغان مصطفیٰ سے چرس لیتا تھا۔ میری بھی مصطفیٰ سے دوستی ہوگئی تھی۔
نئے سال کی رات ارمغان نے اپنے بنگلے پر پارٹی رکھی تھی لیکن اس پارٹی میں مصطفیٰ نہیں تھا۔ 5 فروری کو مجھے ارمغان نے رات 10 بجے اپنے بنگلے میں بلایا۔ میں جب گیا تو وہاں انجلی کھڑی تھی جس کی ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا۔ ارمغان نے آن لائن کیب بک کروائی اور انجلی سے کہا کہ اس کو اسپتال لے جاؤ اور ساتھ ہی اسے اسنائپر گن کی گولی دکھاتے ہوئے کہا کہ کسی کو کچھ بتایا تو یہ گولی بھیجے میں اتار دوں گا۔
شیراز کے بیان کے مطابق ارمغان نے مارپیٹ کی وجہ یہ بتائی کہ نیو ایئر نائٹ پر انجلی نے ارمغان کے جسم کے نازک حصے پر کاٹا تھا اور اس کے دوسرے روز مصطفیٰ عامر نے ارمغان کو چھلے ہوئے کیلے کی تصویر بھیجی تھی جس کی وجہ سے انجلی پر تشدد کیا گیا۔
شیراز نے بتایا کہ 6 جنوری کو مصطفیٰ نے اسے کال کی اور رات 9 بجے وہ ارمغان کے بنگلے پر چرس کے ساتھ آگیا جس کے بعد اس نے ارمغان کو چرس دی۔ وہ ڈیڑھ لاکھ روپے لینے کے بعد ہمارے ساتھ چرس پی رہا تھا کہ ارمغان نے اسے مارنا شروع کردیا۔
کراچی میں مصطفیٰ اغوا اور قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز نے انکشاف کیا ہے کہ نیو ایئرنائٹ پر ارمغان نے مقتول کے ساتھ مل کر منشیات کا استعمال کیا اور پھر اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
ڈان نیوز کے مطابق مصطفیٰ قتل کے ملزم شیراز نے کہا ہے کہ نیو ایئر نائٹ کو ارمغان مصطفیٰ سے ناراض ہوگیا تھا جب کہ مصطفیٰ اور ارمغان دوست نہیں ہیں، مصطفیٰ ارمغان کو منشیات سپلائی کرتا تھا۔
ملزم نے بتایا کہ مصطفیٰ پر کئی گھنٹے گھر میں تشدد کیا گیا اور مقتول کو جب گھر سے گاڑی میں ڈالا تو وہ زندہ تھا، مصطفیٰ کو تشدد کے بعد بلوچستان لے جا کر گاڑی سمیت جلا دیا گیا، ارمغان نے بلوچستان پہنچ کر مجھے چلنے کو کہا اور گاڑی کو آگ لگا دی۔
ملزم کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کی گاڑی کو آگ لگانے کے بعد ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چلے اور پھر ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا، ہوٹل والے نے ارمغان کے پاس اسلحہ دیکھ لیا تھا۔
شیراز نے مصطفیٰ سے لڑائی اور اس کے قتل سے متعلق مزید بتایا کہ لڑکی سے ناراضگی نے ارمغان کو پاگل کردیا تھا، مصطفیٰ اور ارمغان نے پہلے منشیات کا استعمال کیا اور پھر مصطفیٰ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
ملزم شیراز کا کہنا تھا کہ منشیات کے استعمال کے بعد ارمغان نے ڈنڈا نکالا اور تشدد کرنا شروع کردیا اور پھر مصظفیٰ کو زخمی حالت میں گاڑی میں ڈالا، مصطفیٰ کو جب گھر سے گاڑی میں ڈالا تو وہ زندہ تھا، اسے کپڑے سے باندھ کر حب لے جایا گیا۔
شیراز نے انکشاف کیا کہ ارمغان نے گھر سے پیٹرول کا ڈرم لے کر مصطفیٰ کی گاڑی میں رکھا، مصطفی کے ہاتھ اور پاؤں سے خون نکل رہا تھا۔
مرکزی ملزم ارمغان کے قریبی دوست نے کہا کہ میں ڈر کے مارے ارمغان کے ساتھ تھا، مجھے ڈر تھا کہ اس کے پاس اسلحہ ہے، یہ مجھے بھی قتل نہ کر دے۔
ملزم کا کہنا تھا کہ ارمغان میرے بچپن کا دوست ہے ، تعلیم بھی ساتھ حاصل کی، کچھ عرصے پہلے ارمغان اور میری دوستی ختم ہوگئی تھی، ارمغان گھر آیا تو پھر دوبارہ دوستی ہوگئی۔
شیراز نے کہا کہ ارمغان کا لائف اسٹائل دیکھ کر متاثر ہوگیا تھا، مڈل کلاس کے پاس پیسوں کی ریل پیل نے حیران کردیا تھا، ارمغان اپنی والدہ اور والد سے بہت کم ملتا تھا وہ ذہنی طور پر مضبوط انسان ہے۔
مزید کہا کہ میں نے اور ارمغان نے کئی پارٹیاں ساتھ کی ہیں، لالچ اور لگژری لائف نے مجھے متاثر کیا ، نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ وہ لگژری لائف سے متاثر نہ ہوں۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق گرفتار ملزم شیراز کے بیان کی تصدیق ارمغان کے دو ملازمین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔
اس کیس میں اب بھی بہت کچھ آنا باقی ہے خاص طور پر وہ لاپتا لڑکیاں جو مصطفیٰ اور ارمغان کی مشترکہ دوست تھیں۔ ان تک پولیس کی رسائی، موبائل فونز ڈیٹا، سی سی ٹی وی کیمرا ریکارڈنگز اور تجوریوں کے اندر کا ’خزانہ‘ اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر باہر آئے گا۔
تبصرہ کریں