محمود الحسن
پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں آمنے سامنے ہوں تو مقابلہ کھلاڑیوں کے درمیان ہی نہیں ہوتا بلکہ مسابقت کی یہ فضا شائقینِ کرکٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ تماشائی مخاصمانہ فضا کا براہ راست حصہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کے دل میں مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے نرم گوشہ کم ہی ہوتا ہے۔
تماشائیوں کی اس گرم مزاجی نے بعض مرتبہ بڑی نازک صورت حال بھی پیدا کی ہے۔ تناؤ کی اس تیز لہر میں جس کھلاڑی نے دیارِ غیر میں عوام کے دل میں گھر کیا، ان میں بشن سنگھ بیدی کا نام سر فہرست ہے۔ ان کی پاکستانیوں سے دل وابستگی کی چند حکایات اس کھیل کے تذکروں میں محفوظ ہیں۔
معروف براڈ کاسٹر اور پی ٹی وی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر اختر وقارعظیم کی کتاب ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ میں کرکٹرز کے بارے میں بڑے مزے مزے کے قصے شامل ہیں۔ ایک واقعہ بشن سنگھ بیدی کے باب میں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تماشائیوں کی دل جوئی کے ہنر سے اچھی طرح واقف تھے۔
اختر وقار عظیم نے لکھا کہ’ حیدر آباد میں ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ لالہ امرناتھ اور بیدی اپنے حصے کا تبصرہ کرنے کے بعد عموماً کمنٹری باکس سے اٹھ کر پویلین یا پریس باکس چلے جاتے تھے جو کچھ فاصلے پر تھے۔ وہاں پہنچنے کے لیے میچ دیکھنے والے لوگوں کے سامنے سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا، ان میں زیادہ تر تعداد لڑکوں کی تھی، انہیں شرارت سوجھی تو وہ بہت سے پانی بھرے غبارے لے آئے، جو بھی ان کے سامنے سے گزرتا وہ تاک کر اس کا نشانہ لیتے۔
نشانہ صحیح لگے یا غبارہ زمین پر پھٹ جائے، دونوں صورتوں میں کپڑے بھیگ جاتے تھے۔ لالہ امرناتھ نشانہ بنتے تو وہ لڑکوں کو گھور کر دیکھتے اور غصے کا اظہار کرتے تو لڑکوں کو کھیل مل جاتا اور لالہ پر پانی بھرے غباروں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی۔ بیدی کے ساتھ ایسا ہوا تو انہوں نے لڑکوں کی طرف دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا اور ہنستے ہنستے کہا ’تم پر ضیا الحق اور مارشل لا ہمیشہ مسلط رہنا چاہیے‘۔ لڑکے بھی ہنس دیے، کچھ نے کھڑے ہو کر تالیاں بھی بجائیں اور یوں بیدی کے ایک جملے کی وجہ سے پانی اور غباروں کا یہ کھیل ختم ہو گیا‘۔
بیدی کے ایک فقرے نے شرارتی نوجوانوں کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ یہ مبصر کے طور پر تماشائیوں کو رام کرنے کی بات تھی اب حسنِ عمل سے داد وصول کرنے کی بھی ذرا سن لیجیے۔
اس کے راوی نامور براڈ کاسٹر اور لکھاری شاہد ملک ہیں جو 1978 میں اپنے دوست عمر فاروق کے ساتھ سیالکوٹ میں پاکستان اور انڈیا کا ون ڈے میچ دیکھنے گئے تھے۔ تماشائی کی حیثیت سے بیدی کی کچھ خاص باتیں ان کی یادداشت کا مستقل حصہ بن گئیں۔ 45 سال بعد بیدی کے انتقال پر انہوں نے ذہن کے نہاں خانے سے یہ باتیں نکال کر ان الفاظ میں پیش کیں:
’بشن سنگھ بیدی نے لنچ، ٹی اور میچ کے خاتمے تک ہر الگ الگ سیشن میں یکے بعد دیگرے 3 رنگوں کی پگڑیاں پہنیں۔ پیلی، سرخ اور سبز، ایک موقع پر گراؤنڈ کے اوپر سے گزرتی ایک کٹی ہوئی پتنگ کی ڈور بھاگ کر پکڑ لی۔ 2، 3 ’تنکے‘ مارے، پھر ایک ’جھوک‘، چند سیکنڈ بعد پتنگ کو ہوا کے دوش پر چھوڑ دیا۔ میدان تالیوں سے گونج اٹھا‘۔
بیدی کی بذلہ سنجی کا جواب نہیں تھا۔ اس کا ایک نمونہ گزشتہ دنوں معروف شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد کے کرکٹ کے بارے میں ایک کالم سے دستیاب ہوا ۔ یہ کالم 1979 میں سرور سکھیرا کے پرچے ’دھنک‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس سے لطف اٹھانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ظہیر عباس نے 1978 کی ٹیسٹ سیریز میں انڈین بولروں کی کیا درگت بنائی تھی۔
فیصل آباد میں پہلے ٹیسٹ میں انہوں نے پہلی اننگز میں 176 اور دوسری اننگز میں 96 رنز بنائے۔ لاہور میں دوسرے ٹیسٹ میں ظہیر عباس نے ‘ظلم’ کا یہ سلسلہ مزید دراز کیا۔ پہلی اننگز میں 235 اور دوسری میں 34 رنز بنائے۔ دونوں اننگز میں انڈین بولر انہیں آؤٹ کرنے میں ناکام رہے۔ انہی دنوں بیدی کے منہ سے وہ جملہ نکلا جس سے ہندوستانی بولروں کی ظہیر عباس کے سامنے بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔
امجد اسلام امجد کے بقول، ’ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز مصلح الدین سے روایت ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے گزشتہ دورے کے دوران ایک پارٹی میں بھارتی کپتان بشن سنگھ بیدی بے تحاشا شراب پی رہے تھے۔ کسی نے اسے ٹوکا تو کہنے لگا، ’پی لین دے یار سویرے فیر ظہیر عباس دے اگے پیشی اے‘۔
( پی لینے دو یار صبح پھر ظہیر عباس کے سامنے حاضری دینی ہے)
ظہیر عباس کی بیٹنگ کو ایسا عمدہ خراج ایک سکھ ہی پیش کر سکتا تھا‘۔
مائیک بریرلی کی کتابوں نے کرکٹ کے بارے میں میری سوجھ بوجھ بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت سے کھلاڑیوں کے فن اور شخصیت سے آگاہی کا باعث بھی بنی ہیں۔
سامنے کی مثال ان کی کتاب ‘آن کرکٹ’ میں بیدی کے بارے میں ان کا مضمون ہے جس میں سے ایک بات مجھے خاص طور پر اچھی لگی تھی۔ اس کا میں نے اپنے ایک مضمون میں حوالہ بھی دیا تھا۔ اس بات کا تعلق انسان دوستی سے ہے اور وہ آج کے ہمارے موضوع سے بھی جڑتی ہے سو اسے دہرانے کو جی چاہتا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ 1982 میں بیدی پی ٹی وی کی دعوت پر کمنٹری کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ اس وقت وہ سلیکٹر بھی تھے۔ اسی دورے میں کراچی ٹیسٹ کے دوران انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں خون کی ضرورت کا اشتہار بیدی کی نظر سے گزرا۔
نوجوان مریض کو جس گروپ کا خون چاہیے تھا وہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ بیدی کا بلڈ گروپ مطلوبہ بلڈ گروپ سے میچ کرتا تھا۔ انہوں نے متعلقہ جگہ رابطہ کرکے آفر دی کہ اگر کسی انڈین کا خون لینے میں مضائقہ نہ ہو تو انہیں اپنا لہو دے کر خوشی ہو گی۔ یہ کہانی پریس تک پہنچ گئی۔
اس ارفع جذبے سے متاثر ہو کر پاکستانی قوم نے بیدی کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیا۔ وہ جس دکان کا رخ کرتے دکاندار ان سے خریدی ہوئی چیز کی قیمت نہ لیتے، اس پر مستزاد تحفے تحائف پیش کرتے۔بیدی کی سوچ سے محترمہ بینظیر بھٹو بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ انہوں نے تحفتاً انڈین کرکٹر کو 2 قالین اور ایک ٹی سیٹ بھیجا۔
اب بیدی کے پاکستانی کرکٹروں سے ربط ضبط پر کچھ بات کر لیتے ہیں جس میں مشتاق محمد اور انتخاب عالم سے دوستی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ دوستی بھی نصف صدی کا قصہ ہے۔
مشتاق محمد اور بیدی کی دوستی انگلینڈ میں نارتھمپٹن شائر کاؤنٹی کے لیے 6 سال اکٹھے کرکٹ کھیلتے وقت مستحکم ہوئی تھی۔ اس تعلق کی کہانی مشتاق محمد نے اپنی کتاب ‘ انسائیڈ آؤٹ’ میں رقم کی ہے۔ اس کا پیش لفظ بیدی کے قلم سے ہے جس میں انہوں نے مؤثر پیرائے میں مشتاق محمد کے خانوادے سے اپنی قربت کا احوال بتایا ہے۔
بیدی نے مشتاق محمد کو اپنے بچپن کا ہیرو قرار دیا ہے۔ بیدی نے انہیں 1961 میں امرتسر میں نارتھ زون کے خلاف میچ میں پہلی دفعہ ایکشن میں دیکھا تھا جس کے بعد دہلی ٹیسٹ میں انہوں نے سینچری بنائی تھی۔ اس وقت بیدی کے سان گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ اس ٹیسٹ سیریز کے سترہ سال بعد پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں مدمقابل ہوں گی تو وہ اور مشتاق محمد اپنے اپنے ملک کی قیادت کر رہے ہوں گے۔
بیدی نے لکھا ہے کہ مشتاق محمد کی والدہ اپنے حقیقی بیٹوں کے برابر ہی ان سے پیار کرتی تھیں اور انہیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتی تھیں۔ اس بنیاد پر وہ تاریخ کی ان کتابوں میں تصحیح کرنا چاہتے ہیں جن میں یہ درج ہے کہ مشتاق محمد کی والدہ امیر بی کے 5 بیٹے کرکٹ کے کھیل سے وابستہ رہے ۔ بیدی کی دانست میں یہ بات درست نہیں کیوں کہ ان کے جس چھٹے بیٹے نے کرکٹ کھیلی وہ بشن سنگھ بیدی ہیں۔ اس سے آپ اس محبت کا اندازہ کر سکتے ہیں جو بیدی کے دل میں سراپا شفقت امیر بی کے لیے تھی۔
بیدی نے لکھا ہے کہ نارتھمپٹن شائر چھوڑنے کا مرحلہ آیا تو ان کو الوداع کہتے وقت مشتاق محمد بچوں کی طرح زار و قطار روتے رہے جب کہ اس سے پہلے کھلے بندوں انہوں نے کبھی اپنے جذبات کا اس طرح اظہار نہیں کیا تھا۔ بیدی کے بقول ‘یہ وہ لمحہ تھا جب ساری سیاسی سرحدیں منہدم ہو جاتی ہیں‘۔
اب کچھ تذکرہ انتخاب عالم سے بیدی کے یارانے کا۔ یہ دوستی بھی انگلینڈ کی آزاد فضاؤں میں استوار ہوئی اور عمر بھر کے رشتے میں بدل گئی۔ 2013 میں انڈیا میں ملاقات کے بعد ان کی آخری ملاقات 4 اکتوبر 2022 کو کرتار پور میں بڑی جذباتی فضا میں ہوئی۔ ہمدم دیرینہ ایک دوسرے کو دیکھ کر کھل اٹھے۔ اشک بار آنکھوں سے بغل گیر ہوئے۔ علالت کی وجہ سے بیدی نے کم بات کی لیکن انتخاب عالم کی پرلطف گفتگو سے وہ محظوظ ہوتے رہے۔ انتخاب نے گزرے دنوں کی یاد میں امریکی گلوکار لوئی آرمسٹرانگ کی پیروڈی بھی کی جسے سن کر بیدی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ایسے موقعوں پر ملنے کی بے پناہ خوشی ہوتی ہے لیکن جدائی کا لمحہ بھی قیامت ہوتا ہے اور اس میں دوبارہ نہ ملنے کا دھڑکا بھی لگا ہو تو تڑپ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس ملاقات کی یادیں بیدی 23 اکتوبر 2023 کو جہان رنگ وبو سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے اور عمر گزشتہ کی کتاب انتخاب عالم کے پڑھنے کے لیے چھوڑ گئے۔
تبصرہ کریں