بادبان-،-عبید-اللہ-عابد

بہت آہستہ سیکھنے والے لوگ

·

دنیا میں بعض لوگ سلو لرنر ہوتے ہیں یعنی آہستہ رفتار سے سیکھنے والے۔ ان میں سے کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو سیکھنے کی رفتار کو آہستہ آہستہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ وہ دنیا کے کروڑوں، اربوں لوگوں سے زیادہ تیز رفتار ہوجاتے ہیں۔ شرط مگر یہ ہے کہ وہ اپنی اس صلاحیت کو بہتر بناتے رہیں۔

ایسے ہی متعدد کامیاب لوگوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ سلو لرنر ضرور ہیں لیکن وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں، مسلسل سیکھتے رہیں۔ اپنی اس صلاحیت کو بہتر بناتے رہیں چاہے کچھوے کی رفتار ہی سے سہی۔

جناب عمران خان کی اچھی عادت یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف نہایت آسانی سے کرلیتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کا برا پہلو یہ ہے کہ وہ غلطیوں سے سیکھتے ہیں لیکن تب سیکھتے ہیں جب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دانا لوگ کہتے ہیں کہ غلطیاں اچھی ہوتی ہیں بشرطیکہ ان سے سبق سیکھا جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ وہ غلطیاں دوہرائی نہ جائیں۔

خان صاحب سن دو ہزار چودہ میں اپنے ساتھیوں سمیت اسمبلیوں سے استعفے دے کر باہر آگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی چپکے چپکے تنخواہیں برابر وصول کرتے رہے۔ خان صاحب کا موقف تھا کہ وہ چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے، بہرحال یہ غلطی ان کے گلے پڑ گئی۔ خیر! اس غلطی سے انھوں نے کئی سال بعد سبق سیکھا۔  اب ان کے ساتھی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ تاہم بہت سی دیگر غلطیاں کر رہے ہیں جس سے وہ اپنی منزل کھوٹی کیے جا رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ غلطیوں سے سبق جلدی سیکھ لیتے ہیں۔ مثلاً وہ بھی عمران خان کی طرح میدان سیاست میں ’کسی‘ کی انگلی پکڑ کر آئے تھے۔ 1990 میں وزیراعظم بنے تو اگلے تین برسوں میں انھیں اندازہ ہوا کہ میدان سیاست میں ’کسی‘ کی انگلی پکڑ کر داخل ہونا غلطی ہے کیونکہ اس کے بعد ’کسی‘ کی ضد ہوتی ہے کہ سیاست دان ’ان‘ کی انگلی نہ چھوڑے۔ وہ ’ان‘ کا ’بندہ‘ بن کر ہی رہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے ان تین برسوں میں جو سبق سیکھا، اگلی سیاست اسی سبق کی روشنی میں کی۔ اگرچہ انھیں ایسی سیاست کرنے سے بار بار روکا بھی گیا، سزا بھی ملی تاہم انھیں آج بھی اپنا سبق خوب اچھی طرح سے یاد ہے۔  اور وہ اپنے بھائی اور بیٹی کو اپنے سیکھے ہوئے سبق کی روشنی میں کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

’عمران خان پراجیکٹ‘ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو محض ساڑھے تین برسوں میں اس قدر زیادہ نقصان ہوا کہ خود اس پراجیکٹ کے خالقوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نتیجتاً انھیں اپنا یہ پراجیکٹ لپیٹنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ پراجیکٹ ایک ایسا کمبل بن چکا ہے کہ وہ اس سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں لیکن کمبل ان کی جان نہیں چھوڑ رہا۔

بلاشبہ میاں شہباز شریف شبانہ روز محنت کرکے ملک کو اس دلدل سے نکالنے میں قدرے کامیاب ہوچکے ہیں۔ یہ میری رائے نہیں، انہی اداروں کی رپورٹس ہیں جن اداروں کے حوالے تحریک انصاف کے رہنما بھی کسی نہ کسی تناظر میں دیا کرتے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی میں کسی قدر کمی واقع ہوئی ہے، اگرچہ اس کے اثرات عام آدمی تک پوری طرح نہیں پہنچ سکے۔ حکومت اور معاشی تجزیہ کار پرامید ہیں کہ اگلے مرحلے میں یہ نیچے تک پہنچیں گے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ  ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا ہے حالانکہ عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ملک میں کوئی پیسہ نہ بھیجیں تاکہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو۔ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا، اس کے بھی ریکارڈز آئے روز میڈیا کے ذریعے لوگوں  کے زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ شرح سود جس رفتار سے کم ہورہی ہے، وہ بھی غیر معمولی کامیابی ہے۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج کے قد کاٹھ کا معاملہ ہے۔ زمین میں پڑی ہوئی تھی، اب فلک بوس ہے۔

شہباز شریف کے دور اقتدار میں غیرملکی سربراہان اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے وفود جس رفتار سے آ رہے ہیں، ایسا منظر بہت عرصے بعد دیکھنے کو ملا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ’ایک صفحہ‘ کی برکات ہیں۔ یقیناً یہ فیکٹر بھی ہے۔ تاہم ’ایک صفحہ‘ تو جناب عمران خان کے دور میں بھی تھا۔ تب برکات کیوں نہ پھوٹیں؟ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔

جناب عمران خان وزیراعظم بن کر بھی اپوزیشن لیڈر ہی رہے۔ حالانکہ محترمہ بشریٰ بی بی انھیں بار بار بتاتی تھیں کہ آپ وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن وہ اسلام آباد سے واشنگٹن تک اپوزیشن لیڈر ہی بنے رہے۔ اگر وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر حکمرانی کرتے، عام آدمی کو زیادہ ریلیف  دیتے، معیشت کے تمام اشاریوں کو بہتر بنانے کی حکمت عملی ترتیب دیتے اور اس پر رات دن کام کرتے تو ان کے دور میں بھی ’ ایک صفحہ‘ سے برکات کے سوتے پھوٹتے۔

مکرر عرض ہے کہ جناب عمران خان غلطیوں سے سبق سیکھتے نہیں یا پھر ان کی سیکھنے کی رفتار اس قدر آہستہ ہوتی ہے کہ جب وہ کچھ سبق سیکھتے ہیں تو اس سبق سیکھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ حالانکہ جیل میں بیٹھ کر غور و فکر اور اس کے نتیجے میں سبق تک پہنچنے کے مواقع ہی مواقع ہوتے ہیں۔

اس وقت ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ سبق سیکھا ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے۔ وہ جس منظم اور تیررفتار انداز میں کام کر رہی ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ اپنے چچا سے زیادہ برق رفتاری سے بطور وزیراعلیٰ کام کر رہی ہیں۔ اگلے روز کراچی کے تاجروں نے ان کی تعریف کی تو پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری’ جیلسی‘ محسوس کرتے پائے گئے۔ پھرانھوں نے کراچی کے تاجروں پر خوب ناراضی کا اظہار کیا۔

رہی بات سردار علی امین گنڈاپور، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی۔ انھیں مریم نواز کے کام اور اس کام پر ملنے والی داد و تحسین سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ڈنڈے سوٹے لے کر احتجاج پر اترے رہتے ہیں۔ حالانکہ انھیں پنجاب کی مریم نواز حکومت اور سندھ کی مراد علی شاہ حکومت سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ تب پنجاب اور سندھ کے لوگ بھی پی ٹی آئی کو اپنی ترجیح بنانے کا سوچتے لیکن شاید تحریک انصاف کی قسمت میں حزب مخالف بن کر ہی رہنا ہے۔

یہی وہ غلطی ہے، جس سے وہ سبق نہیں سیکھ رہے۔ یا پھر وہ اس قدر سست رفتاری سے سبق سیکھتے ہیں کہ اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “بہت آہستہ سیکھنے والے لوگ”

  1. عبدالمالک ہاشمی Avatar
    عبدالمالک ہاشمی

    جناب عمران خان وزیراعظم بن کر بھی اپوزیشن لیڈر ہی رہے۔ حالانکہ محترمہ بشریٰ بی بی انھیں بار بار بتاتی تھیں کہ آپ وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن وہ اسلام آباد سے واشنگٹن تک اپوزیشن لیڈر ہی بنے رہے۔ اگر وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر حکمرانی کرتے، عام آدمی کو زیادہ ریلیف دیتے، معیشت کے تمام اشاریوں کو بہتر بنانے کی حکمت عملی ترتیب دیتے اور اس پر رات دن کام کرتے تو ان کے دور میں بھی ’ ایک صفحہ‘ سے برکات کے سوتے پھوٹتے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے