گردش، سید عنایت اللہ جان

ویلنٹائن ڈے سے انکار، حیا ڈے کا اہتمام

انسان نے جن جن محاذوں پر دین و فطرت کے خلاف جنگ چھیڑنے کی جسارت کی ہے ان میں سے ایک بڑا محاذ بے حیائی کا بھی ہے یعنی لوگ اگر دین و اقدار اور حیاء و شرافت کا صاف اور سیدھا راستہ چھوڑ کر بے باک اور غلیظ طریقے اختیار کر بیٹھے تو لامحالہ خدا اور فطرت سے جنگ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی جنگوں میں ہمیشہ، ہمہ گیر تباہی ایسی ناپاک جسارت کرنے والوں کی حصے میں آتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ایمان، سکون، عزت، وقار، برکت، طمانیت، صحت، شرافت، تحفظ اور تہذیب و شائستگی کی دولت سے محروم کر کے رسوائی، بیماری، بے توقیری اور ناآسودگی کے ایسے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں جس سے وہ زندگی بھر نہیں نکل سکتے۔

آج تک اس ڈیٹا کو مرتب کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی کہ جس میں بے حیائی کے سبب معاشرے میں کتنے خاندان برباد ہوئے؟ کتنے گھر اجڑے؟ کتنے رشتے ٹوٹے؟کتنی زندگیاں موت سے ہمکنار ہوئی؟ کتنے دل اطمینان، روح قرار اور لوگ اعتماد سے محروم ہوئے؟ اور اس ڈیٹا کے بارے میں بھی کوئی مربوط اندازہ نہیں کہ انسان نے بے حیائی کی وجہ سے کتنے دکھوں، بیماریوں اور صدموں کا سامنا کیا ہے؟۔ یہ حقائق اگر کہیں مرتب صورت میں سامنے آجائیں تو انسانی عقل، جو بے ہنگم شہوت پرستی کے ہاتھوں شکست کھا چکی ہے، کو دوبارا سنبھلنے میں دیر نہیں لگی گی۔

بے حیائی کے متلاشی افراد نے گزشتہ کچھ عرصے سے 14 فروری کی تاریخ کو اپنے غلیظ جذبات اور توقعات کو تسکین پہنچانے کے لیے زور و شور سے منانا شروع کیا ہے اس دن دنیا بھر میں وہ تمام کام، باتیں، سرگرمیاں اور تقریبات روا رکھے جاتے ہیں جن کا آخری نتیجہ بے حیائی کے سوا کچھ نہیں نکلتا لیکن اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت رہی ہے کہ ہر خرابی کو توڑنے کے لیے ہر دور اور مقام پر کچھ لوگوں کو ایسے لازماً اٹھاتے ہیں جو اچھائی اور خیر کے عالمبردار بن کر شر اور تخریب کے راستے بند کرنے کے عزم سے سرشار ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے میں 14 فروری کو "یوم حیاء” کے طور پر منانے کا اہتمام بھی شامل ہے۔

"یومِ حیاء” 14 فروری کو پاکستان میں "ویلنٹائن ڈے” کی مخالفت میں باقاعدہ منایا جاتا ہے۔ اس کو سب سے پہلے ملک گیر طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ نے منایا تھا۔ گزشتہ 16 برس سے یہ دن پورے ملک میں منظم طریقے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو ملک کے طول و عرض میں مختلف ایسے پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں جن میں پاکیزہ اور باوقار طرزِ زندگی سے متعلق اہمیت اور شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس بہترین روایت کے آغاز کا سہرا، اسلامی جمعیت طلبہ کے سر ہے۔

پاکستان میں پہلی بار ’’یوم حیا‘‘ منانے کا فیصلہ 9 فروری 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی میں کیا گیا تھا۔ "ویلنٹائن ڈے” کے مقابلے میں اس روز کو ’’یوم حیا ‘‘ کا نام اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم پنجاب یونیورسٹی برادر قیصر شریف نے دیا۔ انہوں نے 9 فروری کو باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14 فروری 2009 کو "ویلنٹائن ڈے” کی بجائے ’’یوم حیا‘‘ منایا جائے گا اور یوں ایک پاکیزہ روایت کا آغاز ہو گیا۔

اگلے سال جب قیصر شریف اسلامی جمعیت  طلبہ صوبہ پنجاب کے ناظم بنے تو انہوں نے ’’یوم حیا ‘‘ کو 14 فروری 2010 کے روز پورے صوبے میں پورے جوش و جذبے سے منانے کا فیصلہ کیا اور  پھر 2011ء میں پورے پاکستان میں "یوم حیا” منایا گیا۔ پاکستان میں "یوم حیا” کے بانی برادرم قیصر شریف ہیں جو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں۔

"ویلنٹائن ڈے” ایسی بے شرمی کے دن کی ابتداء کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں۔ جو روایت اس حوالے سے زیادہ مشہور ہے وہ کچھ یوں ہے کہ تیسری صدی عیسوی کے اواخر یعنی آج سے کوئی سترہ صدیاں قبل سینٹ ویلنٹائن نامی ایک شخص جو کسی وجہ سے جیل میں قید کی سزا کاٹ رہا تھا، دوران قید جیلر کی بیٹی سے روابط قائم ہوئے، کو 14 فروری کے دن پھانسی لگائی گئی۔ پھانسی سے قبل اس شخص نے اپنا آخری پیغام جیلر کی بیٹی کے نام ارسال کیا تھا جس میں اظہار محبت کے بعد درج تھا "تمہارا ویلنٹائن”۔ ایک عادی مجرم ویلنٹائن کی یاد میں اوباش قسم کے لوگوں نے اس دن کو منانا شروع کر دیا اور اس کا نام رکھ دیا ویلنٹائن ڈے۔

حال اور ماضی دونوں کے تجربات سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ قوموں کو اپنے بنیادی مقاصد، اقدار اور نظریات سے ہٹانے میں بے حیائی کو خاص عمل دخل حاصل ہے۔ کسی بھی کردار، سماج اور شخصیت میں جب بے حیائی کے جراثیم سرایت کر جاتے ہیں تو بہت جلد وہ اپنے اندر موجود خیر اور بھلائی کے تمام جواہر کھو بیٹھتے ہیں اور یوں وہ اپنا معنوی وجود کہیں گم کر دیتے ہیں۔ ایسے عالم میں پھر زندگی ایک پاکیزہ، سنجیدہ، بامعنی اور مقدس امانت کے بجائے بے ہنگم شغل میلے کا ایک ایسا عنوان بن جاتا ہے جس میں ہر غلاظت روا رکھی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس بے حیائی یعنی "ویلنٹائن ڈے” کے منانے اور میڈیا پر دکھانے کے اوپر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ عدالتی اقدام قوم کے اقدار اور نظریات سے مکمل طور ہم آہنگ اور بروقت تھا۔ کوئی مانیں یا نہ مانیں کوئی قبول کریں یا نہ کریں یہی اس ملک کا قانون ہے، یہ ملک بنا ہی اس لیے تھا کہ اسلامی اقدار اور نظام کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کیے جائے۔

حجاب کا مقصد عورت کو کام، تعلیم اور ترقی سے روکنا ہرگز نہیں بلکہ اسے ایک محفوظ اور اطمینان بخش ماحول دلانا ہے جس میں اس کی عزت، آزادی اور تحفظ کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ جب بھی مرد و عورت اپنے مناسب حدود و قیود سے باہر ہوں گے دفعتاً عورت کی تحفظ کے لیے نوع بہ نوع خطرات جنم لیں گے۔ دنیا کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک باحجاب دنیا اور دوم بے حجاب دنیا تو یقین کریں بے حجاب دنیا، باحجاب دنیا کی نسبت زیادہ پرخطر اور غیر محفوظ ہوگی جبکہ حقیقی سکون، وقار، تحفظ اور اطمینان باحجاب دنیا کے حصے میں آئے گا۔

ہر معاشرے کی ایک فطرت ہوتی ہے اور ہمارے معاشرے کی فطرت حیاء ہے۔ ہمارا کلچر "حیا ڈے” کے ساتھ ہی چل سکتا ہے ویلنٹائن ڈے کے ساتھ نہیں۔ تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ” ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین (اسلام) کی پہچان شرم و حیا ہے”۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سرکاری، سماجی، تعلیمی اور اخلاقی سطح پر ارادی کوششوں اور اقدامات سے بے حیائی کے تمام راستے بند کر کے حیاء کے ماحول کو فروغ دیں تاکہ ایک باوقار، پاکیزہ اور محفوظ و پُرسکون زندگی سب کو نصیب ہو۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے