بس-کے-ذریعے-ایران-کی-طرف-سفر،-فوٹو-آرٹیفیشل-انٹیلی-جنس

خاکِ فارس کا مسافر(4)

·

یہ صرف ایک ریلوے لائن نہیں، وقت کے سینے پر کھنچی ہوئی ایک لکیر ہے۔ ایک ایسی لکیر جس پر تاریخ کے کئی قافلے گزرے، کئی خواب بکھرے، کئی منزلیں جڑتی اور ٹوٹتی رہیں۔

سن 1905 کی دھندلی سی صبح تھی جب برطانوی ہند کے نقشے پر کوئٹہ سے نوشکی تک ریل کے پہیے گڑگڑائے۔ آگے کا سفر مگر آسان نہ تھا۔ ریلوے پٹڑیاں ختم، آگے وہی پرانا کارواں، وہی اونٹوں کے گلے میں بجتی گھنٹیاں، وہی تپتے ریگزار۔

نوشکی سے آگے کا فاصلہ اونٹوں کے قدموں میں ناپا جاتا تھا، مگر 1915 کا سال آتے ہی صحرا کی تپتی ہوئی ہواؤں میں ایک بےرحم وبا نے ہزاروں اونٹوں کو مٹی میں سلا دیا۔ قافلے تھم گئے، کاروان رک گئے، اور برطانوی حکومت سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ راستہ بنے گا تو صرف لوہے کی پٹڑی پر۔

کوئٹہ سے نوشکی اور زاہدان تک ریلوے لائن کی تعمیر مختلف مراحل میں مکمل ہوئی۔ کوئٹہ سے نوشکی تک ریلوے لائن 15 نومبر 1905ء کو فعال ہوئی۔ بعد ازاں، نوشکی سے دالبندین تک کا سیکشن یکم فروری 1917ء کو مکمل ہوا۔ دالبندین سے میر جاوا (ایرانی سرحد) تک اکتوبر 1920ء میں اور میر جاوا سے زاہدان تک کا سیکشن یکم اکتوبر 1922ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یوں، کوئٹہ سے زاہدان تک ریلوے لائن کی تعمیر 1905ء میں شروع ہو کر 1922ء میں مکمل ہوئی ۔

اس منصوبے کو ’نوشکی ایکسٹینشن ریلوے‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پٹڑی صرف لوہے اور لکڑی سے نہیں بنی تھی، بلکہ ہندوستان بھر سے آئے مزدوروں کے خون، پسینے اور سانسوں سے بنی تھی۔ بمبئی کے ساحلوں سے، پنجاب کے سرسبز میدانوں سے، راجستھان کے ریگزاروں سے، مدراس کی بندرگاہوں سے ہندو، سکھ، مسلمان، سبھی اس صحرا میں ایک مقصد کے تحت آئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں کدالیں تھیں، پیٹھ پر ریت اور کنکر کے گٹھے لدے تھے، مگر آنکھوں میں خواب روشن تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پتھریلی زمین کو کاٹا، بھاپ کے انجنوں کے راستے ہموار کیے، اور تپتے ہوئے دنوں میں جلتی دھوپ میں اپنی ہڈیاں گلا دیں۔

سورج سوا نیزے پر تھا۔ نوشکی کے صحرائی میدان جیسے آگ برسا رہے تھے۔ زمین اتنی گرم تھی کہ ننگے ہاتھ لگاتے ہی چھالے پڑ جاتے۔ لیکن ریلوے لائن بچھانے والے مزدوروں کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا، انہیں ہر حال میں اس بنجر زمین پر یہ پٹڑی بچھانا تھی۔ دن بھر کدال اور ہتھوڑے کی آوازیں سنائی دیتیں، پسینے میں شرابور جسم، مٹی میں اٹے ہوئے چہرے، اور تھکن سے چور بدن، لیکن ہاتھ پھر بھی نہ رکتے۔

بوڑھا سکھ مزدور، بچن سنگھ، اپنے جوان بیٹے گورپریت کے ساتھ دن بھر کام کرتا۔ بیٹا اکثر کہتا، ’بابا، یہ کیسی زمین ہے، یہ ہمیں تھکنے بھی نہیں دیتی؟‘

بچن سنگھ مسکرا کر کہتا، ’پتر، یہ زمین ہماری محنت دیکھ رہی ہے، ایک دن یہی زمین ہمیں یاد کرے گی۔ جب یہاں ریل گزرے گی، تو ہماری سانسیں بھی ان پٹڑیوں میں دھڑکیں گی۔‘

رات کو جب مزدور اپنے خیموں میں واپس آتے، تو بدن کا ایک ایک انگ درد سے کراہ رہا ہوتا۔ چولہوں پر دال اور سوکھی روٹی بنتی، اور پیڑوں کے سائے میں بیٹھ کر کھانے کے دوران ہر مزدور اپنے خوابوں کی بات کرتا۔ کوئی کہتا، ’جب یہ لائن مکمل ہو جائے گی، تو میں اپنے گاؤں واپس جاؤں گا۔‘کوئی کہتا، ’ہماری اولادیں ان ریلوں میں سفر کریں گی اور ہمیں یاد کریں گی۔‘

مگر سب سے زیادہ پرجوش گورپریت تھا۔ ’بابا، جب یہ لائن مکمل ہو جائے گی، ہم بھی پہلی ٹرین میں سفر کریں گے، نا؟‘

بچن سنگھ ہنس کر اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر دیتا، ’ہاں پتر، لیکن پہلے اسے مکمل کرنا ہوگا۔‘

کئی مہینوں بعد جب ایک دن، جب مزدور اپنی پوری طاقت سے زمین کو ہموار کر رہے تھے، اچانک بچن سنگھ کو گرمی کی شدت نے آ لیا۔ تپتی ہوئی زمین اور جھلسا دینے والی دھوپ میں کام کرتے ہوئے وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ سب نے اسے گھیر لیا، پانی کے چھینٹے مارے، لیکن اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔

گورپریت دیوانہ وار اپنے باپ کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، لیکن وہ چیخ چیخ کر کہتا، ’بابا! میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا!‘

آخر کار جب بچن سنگھ نے آنکھیں کھولیں، وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اس نے کپکپاتے لبوں سے کہا،

پتر، اس لائن کو مکمل دیکھنا، یہ خواب ادھورا نہ رہ جائے۔‘ پھر اس کی’ آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔

گورپریت نے اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھے اور کدال اٹھائی۔ مزدوروں نے دیکھا کہ ایک نوجوان نے اپنے باپ کی آخری خواہش کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ اگلے دن سے وہ پہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے کام میں جُت گیا۔

کئی مہینوں بعد جب پہلی ٹرین اس پٹڑی پر دوڑی، تو گورپریت کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر اس بار وہ غم کے نہیں، فخر کے آنسو تھے۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’بابا، خواب پورا ہوگیا!‘

انگریز افسر جو اس تعمیر کی نگرانی کر رہے تھے، وہ صرف حکم چلانے والے نہیں تھے، بلکہ کئی ایسے بھی تھے جو مزدوروں کے دکھ درد کے ساتھی بن گئے۔

کیپٹن ہینری ولسن، جو اس منصوبے کے نگران تھے، مزدوروں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے، ان کے ساتھ پسینہ بہاتے، اور جب کبھی کسی مزدور کو بخار ہو جاتا تو وہ خود اپنے ہاتھوں سے اسے دوا دیتے۔ ایک دن جب ایک مسلمان مزدور کے ہاتھ پر شدید زخم آ گیا اور اس کا خون بہنے لگا، تو کیپٹن ولسن نے فوراً اپنی قمیص کا ایک حصہ پھاڑ کر اس کے زخم پر باندھا۔ مزدور حیران رہ گئے کہ ایک انگریز، جو حکم دینے کے لیے آیا تھا، وہ اس بےنام مزدور کی زندگی بچانے کے لیے اپنی قمیص قربان کر چکا تھا۔

پھر 1922 آیا، اور آخرکار زاہدان کا قصبہ دزداپ ریلوے لائن کے ساتھ جڑ گیا۔ وہ دن تاریخی تھا، جب پہلی ریل گاڑی نوشکی سے زاہدان پہنچی۔ مزدوروں نے خوشی میں نعرے لگائے، آنکھوں میں آنسو تھے، مگر یہ آنسو تھکن یا غم کے نہیں، ایک خواب کے پورا ہونے کے تھے۔ لیکن قسمت کو یہ سفر شاید زیادہ راس نہ آیا۔ جنگ عظیم اوّل ختم ہوئی، برطانوی سامراج نے اپنے قدم پیچھے کھینچے، اور اس لائن کو بےدردی سے اکھاڑ دیا،کہیں اور بچھانے کے لیے، کسی اور خواب کو جنم دینے کے لیے

لیکن داستان ختم نہیں ہوئی تھی۔ تاریخ نے ایک اور کروٹ لی، 1940 آیا، جنگ عظیم دوم کی گھنٹیاں بجیں، اور برطانوی حکومت کو احساس ہوا کہ جرمن نازیوں کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے انہیں یہ پٹڑی دوبارہ بچھانا ہوگی۔ مزدوروں کی ہمت ایک بار پھر آزمائی گئی، اور وہی ہاتھ جو ایک بار ان پٹڑیوں کو جوڑ چکے تھے، وہی دوبارہ ان پر پسینہ بہانے لگے۔ اور تب جا کر نوشکی سے زاہدان تک کی ریلوے لائن ایک بار پھر مکمل ہوئی، جیسے ریت میں دبی ہوئی کوئی یاد پھر سے سانس لینے لگی ہو۔آج، اس لائن پر سفر کرنے والوں کے لیے یہ محض ایک راستہ ہو سکتا ہے، مگر جو اس کی ریت میں چھپے ماضی کو پڑھ سکے، ان کے لیے یہ ایک داستان ہے۔ ریت، لوہے اور وقت کے دھندلکوں میں گم ایک لازوال داستان۔

یہ کوئی معمولی سفر نہ تھا، بلکہ ایک داستان تھی۔ ریت میں لکھی ہوئی، دھوپ میں تپتی ہوئی، راستوں میں بکھری ہوئی۔

میرا پہلا انتخاب ریل گاڑی تھا، مگر جولائی 2001 میں امن و امان کی نازک صورت حال کے سبب کوئٹہ سے زاہدان جانے والی ریل کا پہیہ تھم چکا تھا۔ تب مجھے دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ بس کا سفر، جو ایک عام ذریعہ آمد و رفت نہیں، بلکہ ایک آزمائش تھی، ایک مہم جوئی، ایک مسلسل جھٹکوں بھری روداد۔

کوئٹہ کے نوا اڈے سے روانگی کی شام، میں نے سیم سنگ کمپنی کا ایک چھوٹا مگر پائیدار سوٹ کیس سنبھالا۔ ریاض سے خریدا ہوا، اپنے ساتھ کئی یادیں سمیٹے ہوئے۔ بس کا ٹکٹ میری جیب میں تھا، اور راستہ میری نظروں کے سامنے۔ سورج ڈھل چکا تھا جب بس کوئٹہ کے گردوغبار میں لپٹی ہوئی، نوکنڈی کی طرف روانہ ہوئی۔

یہ کوئی سیدھا، ہموار سفر نہ تھا، بلکہ ایک ایسا سلسلہ تھا جس میں ہر جھٹکا ایک نیا تجربہ تھا، ہر موڑ ایک نئی آزمائش۔ سڑک کا کچھ حصہ نیا بنا تھا، مگر بیشتر راستہ ایسا کہ اگر نظر ہٹ جائے، تو یوں لگے جیسے صدیوں پرانا کارواں ابھی کسی اونٹ کی گھنٹی بجا کر گزر گیا ہو۔ بس ہچکولے کھاتی، لڑکھڑاتی، جیسے کسی مدہوش رقاصہ کی طرح زمین پر جھوم رہی ہو۔ ایرانی اور بلوچی موسیقی کے شور میں ڈرائیور یوں مگن تھا جیسے یہ کوئی عام سواری نہیں، بلکہ رقص کرتی ہوئی کوئی مخلوق ہو، جو اپنی مرضی سے چل رہی ہو، کبھی دائیں، کبھی بائیں۔

لیکن بس میں صرف مسافر نہ تھے، بلکہ تجارت کا پورا ایک بازار سوار تھا۔ باسمتی چاول کی بوریاں چھت پر باندھی گئی تھیں،اور اس کے کچھ ڈھیر سیٹوں کے درمیان راستے میں لگے تھے، اور انہی بوریوں پر اضافی مسافروں کو بٹھایا گیا تھا۔بس سے باہر اترنے کے لیے ان بوریوں کو اپنے قدموں تلے روندنا پڑتا تھا۔ اس بس کی کھڑکیاں کھسکنے والی تھیں جو خال ہی بند رہتی تھیں ، سارے راستے ان کھڑکیوں سے لو اندر آکر چہروں کو جھلسا رہی تھی۔ باہر سے داخل ہونے والی گرم ہوا، تندور کے دہانے سے اٹھنے والی لُو جیسی تھی۔ رات پڑی، تو ہوا میں ہلکی سی خنکی آئی، مگر راستہ وہی کٹھن، ویسا ہی بے رحم۔

ہوائی جہاز بھی ایک راستہ تھا، مگر بے رنگ، بے مزہ۔ ایک ایسی سہولت، جس میں راحت تو ہے، مگر سیاحت غائب۔ وہی بند کھڑکی، وہی بند دنیا، وہی ایک جست، اور تہران کی سرزمین۔ مگر اس راہ میں وہ کچھ نہیں تھا جو زمین سے جڑے سفر میں تھا۔ زاہدان کی دھول، بم کے کھجوروں کے جھنڈ، کرمان کی گلیاں، یزد کی خاموشی، اصفہان کا جادو۔

اور سمندری سفر؟ وہ بھی ایک خواب ہی رہا۔ گوادر سے بندرعباس تک سمندر ضرور پھیلا تھا، مگر اس پر مسافروں کے لیے کوئی جہاز نہ چلتا تھا۔ بس تجارتی جہاز، مال سے لدے ہوئے، اپنی بے روح منزل کی طرف سرکتے رہتے۔ دبئی کی طرف اڑان بھرنا ممکن تھا، مگر وہاں سے ایرانی بندرگاہ تک پہنچنا ایک اور کہانی تھی۔

یہ سفر صرف فاصلوں کا طے ہونا نہ تھا، بلکہ ایک جہان کا دریافت ہونا تھا۔ کہیں گرد کا طوفان تھا، کہیں کھڑکیوں سے جھانکتی سائے جیسی بستیاں، کہیں کھجوروں کے جھنڈ، کہیں مسجدوں کے مینار، کہیں بے خواب صحرا، کہیں خوابوں میں لپٹی ہوئی تاریخ۔ اور یہی وہ داستان تھی جو میں نے طے کی۔ ریت میں لکھی ہوئی، دھوپ میں تپتی ہوئی، راستوں میں بکھری ہوئی۔

یہ داستان ان ذرائع کی ہے جو ایران کی سرزمین تک لے جاتے ہیں۔ ہر ذریعۂ سفر اپنی الگ کہانی رکھتا ہے، اپنی الگ پہچان۔ کہیں ہواؤں کا سنگ ساتھ ہے، تو کہیں زمین کا لمس۔ کہیں ریل کی پٹڑیاں داستانیں سناتی ہیں، تو کہیں سڑکیں مسافروں کی آہٹوں سے گونجتی ہیں۔ ان اسفار کی کیفیات، ان راستوں کے نشیب و فراز، اور مسافروں کے تجربات، سبھی کچھ اس تفصیل میں سمو دیا گیا ہے۔

اگلی قسط سے ایران کے سفر کی روداد شروع ہوگی۔ انشاء اللہ۔ میں کیسے بس اڈے پہنچا، اور وہاں میری ملاقات نیکٹر اور لینا سے کیسے ہوئی؟

ان اجنبیوں کی کہانی، جو اس سفر میں میرے ہمسفر بنے، کیسی رہی؟ وہ کون تھے، کہاں جا رہے تھے، اور ہمارے درمیان کیا مکالمے ہوئے؟ اس سب کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے