اسرائیلی-فوجی

کاش! یہ ایسے بد صورت نہ ہوتے !!

·

بلاشبہ حسین چہرے، دلربا شخصیت، جاذبِ نظر حلیہ اللہ تعالی کی حیرت انگیز تخلیق ہے۔۔۔۔۔ لیکن حُسن کی تکمیل ہوتی ہے کشش سے جبکہ بذات خود حُسن اپنے عکس اور اپنی تاثیر اور اپنے اثرات کے بغیر کشش سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔

آپ کہیں گے حُسن کے اس فلسفے کی آج کیا ضرورت پڑ گئی۔۔۔

تو آپ کو آپ کے سوال کا جواب ملے گا۔  آئیے! آپ کو ایک منظر دکھائیں۔۔۔

  ایک کھلی جگہ پر سٹیج سجایا گیا ہے، تقریب کا سماں ہے، لوگ تقریب کی  کارروائی دیکھنے اُمڈے چلے آ رہے ہیں۔

کیا ہوا چلی ہے جو ہوا کا رخ بدل گیا

 تیرگی کے روبرو یہ کیا چراغ جل گیا  جس کا سر نہ جھک سکا

 شہر ہے کہ معجزہ

  دیکھ لو سُوئے غزہ۔۔۔۔۔

 یہ لوگ کون ہیں، جانتے ہیں آپ؟ جن کے اوپر 15 ماہ تک مسلسل بارود ٹنوں کے حساب سے برسایا گیا، ان کے حسین چہروں پر آگ کے گولے پھینکے گئے، نوخیز پھول ان کے سامنے مسلے گئے۔ معصوم کلیاں تک نوچ ڈالیں ظالموں نے۔ ان کی پلکوں پہ سجے حسین خواب چھین لینے کی کوششیں ہوئیں۔ ان کے گلاب لہجوں کو نفرت کی زبان دینے کی کوشش کی گئی، ہمت کے کوہِ گراں کو ریزہ ریزہ کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ مگر آج۔۔۔۔۔ جی ہاں! آج کا حسین منظر دیکھیے خود اپنی آنکھوں سے۔

یہ لوگ زندہ ہیں اپنے محافظوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔۔۔ اور ہاں! یہ محافظ ہی تو حُسن کا استعارہ ہیں۔  دیکھیے ذرا ان کی ادا اور تاثیر۔۔۔۔۔ 15 ماہ تک ایک ظالم جابر دشمن کی فوج سے تعلق رکھنے والی خواتین ان کی قید میں تھیں، آج وہ رہا ہو رہی ہیں۔ یہ تقریب اس سلسلے کی ہے۔ ذرا قیدی خواتین کے چہرے پہ مسکراہٹ اور حلیے کی تازگی  ملاحظہ کیجیے۔ ارے۔۔۔۔آپ تو سراپا حیرت بن گئے۔

 کچھ سمجھے آپ؟؟؟

  کہ کس قدر خوبصورت تہذیب کے علمبردار ہیں وہ جن کی قید میں یہ تھی اور ہاں ان خواتین میں سے ایک نے رہا ہونے سے انکار کر دیا۔ کہتی ہیں مجھے، قید ہی میں رکھو۔ اجی دل تو ہر قیدی کا یہیں رہ گیا ہوگا اظہار ایک نے کر دیا۔۔۔۔  ہاں نا۔۔۔۔۔!!

 زمین کے اس بے مثال شہر کے حسین لوگوں کی ایک جھلک سمیہ علی کی اس پوسٹ میں ملاحظہ کیجیے

‘ آج جب میں ہسپتال جا رہی تھی، اسی دوران شہداء کے جنازے اٹھائے جا رہے تھے، چھوٹے بچے ہمارے آگے دوڑتے ہوئے قافلے کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ جلوس کے آگے القسّام بریگیڈ کی ایک گاڑی چل رہی تھی جس پر سبز پرچم لہرا رہے تھے۔ بچے اس گاڑی اور مجاہدین کو قریب سے دیکھنے سے قاصر تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:

آؤ ! جلدی سے چھت پر چڑھیں وہاں سے ہمیں القسّام اور گاڑی واضح نظر آئے گی انہیں نہ سڑک پر بھگدڑ کی پرواہ تھی نہ تنگ راستوں میں دوڑتی گاڑیوں کا خوف، نہ ہی آس پاس کھڑے لوگوں کی موجودگی کا احساس۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا القسام کو دیکھنا۔ یہی ہے وہ نسل جو ہر مزاحمتی نشان سے عشق کرتی ہے۔ یہی ہیں وہ بچے جو کل کے مجاہد بنیں گے۔

 اے ناپاک دشمن! سن لو انقلاب کبھی مٹایا نہیں جا سکتا، سمیّہ علی غزہ۔۔۔

حُسن کا تذکرہ تو دلکُش ہے، جانفزا ہے ۔۔۔

مگر ۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔

کیا کیجیے کہ اس قدر حسین لوگوں کے مقابلے پہ جو ہیں۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ پرلے درجے کے بدصورت ہیں۔۔۔

اِس طرف شہادتیں ہیں، حوصلے ہیں، صبر ہے

اُس طرف عداوتیں ہیں، ظلمتیں ہیں، جبر ہے۔۔۔۔

۔۔۔ظلم سے مقابلہ، صبر سے معاہدہ

دیکھ لو سُوئے غزہ

دیکھ لو سُوئے غزہ۔۔

یہ دیکھیے معروف امریکی صحافی جیکسن ہیلیکون کی شائع کردہ 27جنوری کی تصویر۔۔۔۔

ایک طرف حسین لوگوں کی سجائی گئی تقریب کی تصویر ہے۔ وہی  تقریب جس کا اوپر ہم نے تذکرہ کیا۔۔۔

دوسری طرف کی تصویر۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے نا۔۔۔یہ بھی ہم جیسے  انسان ہیں  مگر دیکھیے ان کی حالتِ زار۔۔۔ پِچکے گال۔۔۔۔ نقّاہٹ زدہ بدن اور بدن پہ جابجا تشدد کے نشانات۔۔۔۔ کس قدر بدصورت ہیں وہ جنھوں نے ان کو  اس حالت تک پہنچایا۔۔۔

ان بد صورت قابضین کو اپنی بدصورتی کا احساس تک نہیں۔۔۔۔  ڈھیٹ اور بے شرم اس قدر کہ نہتّے عوام اور معصوم بچوں کو قتل کر کے، ہسپتالوں، سکولوں، شاہراہوں کو تباہ و برباد کر کے اب تعمیر نو  کا ایک گھٹیا منصوبہ لے کے آگئے  ہیں۔۔۔ کیا نام دیں گے آپ اس ذہنیت کو کہ جہاں جہاں معدنیات ہیں، آبی ذخائر ہیں، سونا ہے، تیل ہے۔ وہاں بس اِن کا حق ہے ۔یہ وہاں کے باشندوں کو چاہیں تو قتل کر دیں، چاہیں تو بے دخل کر دیں۔

ان بد صورتوں کے

  لہجے پھول نہیں کھلاتے، آگ اگلتے ہیں۔ ان کے ہونٹوں پہ خوشبو کا تذکرہ نہیں آتا، کانٹے اُگتے ہیں۔

 ان کی ہستی کی لغت ’محبت‘ کے لفظ سے ناآشنا ہے، یہ نفرت کے تاجر ہیں۔۔۔۔  سپر پاور۔۔۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔ سپر پاور۔۔

کتنے ہی خِطے گواہ ہیں کہ جہاں یہ بد صورت طاقت کے نشے سے چُور۔۔۔۔ پلید عزائم لے کے گئے مگر ذلیل ہو کے پلٹے۔۔۔

کاش ! اب ہی ہوش کے ناخن لیں یہ بدتہذیب۔۔۔ بدشکل۔۔۔ بدصورت۔

ہاں! ویسے ہماری یہ باتیں شاید اُن کو پسند نہیں آئیں گی جو اِن کے ’نمک خوار‘ ہیں۔۔

ان کی منظور نظر۔۔۔۔ اپنے دیس کی ایک دختر۔۔۔۔ چند دن پہلے بین الاقوامی تعلیمی کانفرنس میں ہمسایہ ملک میں، خواتین کی تعلیم کے دگرگوں حالات پہ خاصی پریشان تھیں ۔۔۔۔۔اس دختر  کو کوئی کہے  جا کے کہہ اپنے تعلیم یافتہ، مہذب، انسانی حقوق کے علمبردار آقاؤں کی  صورت بھی کبھی دیکھ لیا کرو۔  تنی ہوئی بھنویں ۔۔۔۔ شکن آلود ماتھا۔۔۔  رالیں ٹپکاتے ان کے بھدّے دہن۔۔ یہ ’تعلیم یافتہ‘ ۔۔۔۔

ہونہہ۔۔۔۔ تُف ہے اس تہذیب پر۔۔۔ ایسی تعلیم پر۔۔۔

کاش! یہ اس قدر بد صورت نہ ہوتے۔۔

ہمیں تو کراہت آنے لگتی ہے ان کے تذکرے سے۔۔۔

چلیں مزاج کو خوشگوار کرنے کے لیے خوبصورت لوگوں کا دوبارہ تذکرہ کرتے ہیں ان کی ’قید‘ سے رہائی پانے والا ایک قیدی بیان کرتا ہے

‘میرا نام کیت سیجال ہے اور میں کفارِ غزہ سے ہوں۔ میں سات اکتوبر 2023 سے جنوری 2025 تک غزہ میں قید رہا۔ اس دوران جن محافظوں نے مجھے حراست میں رکھا، انہوں نے میری تمام ضروریات پوری کرنے کا خیال رکھا، چاہے وہ کھانے پینے کی اشیاء ہوں۔۔ دوا، وٹامنز، نظر کا علاج، بلڈ پریشر چیک کرنے کا آلہ یا دیگر ضروریات جب میں مسلسل خراب صحت کا شکار رہا تو انہوں نے میرے لیے ڈاکٹر کا بندوبست بھی کیا۔ محافظین نے میری خوراک اور کھانے سے متعلق مسائل کے حوالے سے درخواستوں کو قبول کیا۔ انہوں نے خاص طور پر میری صحت کے مطابق کھانے کا انتظام کیا۔ سبزی بھی اور بغیر تیل کے کھانے بھی۔ محافظین نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ میرا ماننا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے وہ اقدامات نہیں کیے جو قیدیوں کی رہائی کے لیے ضروری تھے اور نہ ہی جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی موثر قدم اٹھایا جس کی وجہ سے دونوں طرف بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔ میری خواہش ہے کہ جلد از جلد امن قائم ہو۔ آخر میں میں ان محافظین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس دوران میرا خیال رکھا۔۔۔‘

اب تو آپ بھی اقرار کر رہے ہیں کہ واقعی کس قدر حسین ہیں یہ محافظ اور ان کی قوم  کہ ان کا تذکرہ کرتے اور سنتے ہوئے کبھی زبان تھکے نہ سماعت اکتائے ۔۔۔ ہزاروں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، خود یہ لوگ ملبے تلے دب گئے۔۔۔

خوف، بھوک، پیاس، بیماری، زخم، موت ۔۔۔۔ کون سی آزمائش ہے جس سے دوچار نہیں ہوئے یہ لوگ۔۔۔۔

لیکن ان کی زبان پہ کوئی گندا لفظ۔۔۔۔ ناشکری کا کلمہ۔۔۔ گالی گلوچ۔۔۔ لہجے کی اکتاہٹ۔۔۔۔ کچھ بھی تم نے دیکھا سنا۔۔۔۔؟؟؟

نہیں نا۔۔۔۔

بس کائنات کے خوبصورت ترین الفاظ ہیں ان کی زبان پہ۔۔

اللہ اکبر ،اللہ اکبر  ۔

سبحان اللہ۔۔

الحمدللہ۔۔۔اور

اب جبکہ بد صورتوں کا بڑا گُرُو۔۔۔۔ کولمبس کا گدی نشیں۔۔۔۔۔ انسانی خون اور ہڈیوں کے مکسچر سے تعمیر ہونے والے ملک کا ’بادشاہِ عظیم‘ ایک مرتبہ پھر غُرّا رہا ہے ۔۔۔۔۔تو دیکھیے جواب میں یہاں کے خوبصورت لوگوں کی زبان پہ کائنات کے خوبصورت ترین الفاظ ہیں

’حسبنا اللہ و نعم الوکیل ۔نعم المولی و نعم النصیر‘

خوبصورتی اور بدصورتی کا مقابلہ تو صورِ اسرافیل پھونکے جانے تک جاری رہے گا۔۔

لیکن دوست آؤ۔۔۔۔ بیٹھو! میرے پاس آج ہم  ۔۔۔۔۔میں اور تم بھی آئینے میں اپنی صورت دیکھ لیں۔۔۔۔

چلو  آج انھی کو آئینہ کرتے ہیں۔۔۔

غزہ کے خوبصورت لوگوں کے آئینے میں اپنا سراپا دیکھتے ہیں۔۔۔۔

کیا فنا ہے، کیا بقا

ہار کیا ہے، جیت کیا

جان لو اب ذرا

دیکھ لو سُوئے غزہ۔۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

2 پر “کاش! یہ ایسے بد صورت نہ ہوتے !!” جوابات

  1. سعدیہ بتول Avatar
    سعدیہ بتول

    چلو آج انہی کو آئینہ کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔

    تحریر کا بہت خوبصرت اختتام

  2. عبدالمالک ہاشمی Avatar
    عبدالمالک ہاشمی

    بہت ہی خوبصورت اور دل نشیں اسلوب تحریر کیا گیا کالم۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے