گردش، سید عنایت اللہ جان

ٹرانس جینڈر گل چاہت: تضادات اور مشکلات سے بھری کہانی

جبر اور جہالت کے ماحول کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں تضادات جنم لے کر انہیں اصل حقائق سے بہت دور لے جاتے ہیں۔ لوگ سوچتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں، اندر سے ہوتے کچھ ہیں، باہر سے دکھاتے کچھ ہیں، پسند کچھ کرتے ہیں اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں، وہ ہنسنے میں روتے ہیں اور روتے روتے اچانک ہنسنے لگ جاتے ہیں اور سامنے کے لوگ ہق دق رہ جاتے ہیں کہ آخر رویا کیوں اور ہنسا کیسے؟

یہی تضادات نہ صرف انسان سے زندگی کا اصل مقصد کہیں گم کر دیتے ہیں بلکہ اس سے، اس کی اصل شناخت اور شخصیت بھی چھن جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایسی مثالیں لاکھوں کی تعداد میں ہر طرف پھیلی ہوئی نظر آ رہی ہیں لیکن کچھ بوجوہ زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں، انہیں نمایاں مثالوں میں سے ایک صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مشہور ٹک ٹاکر گل چاہت کی بھی ہے جس کے رنگ اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ اتنی تیزی سے نگاہوں کے سامنے چلتے نظاروں کے رنگ بھی نہیں بدلتے۔

نام سے لے کر کام تک، نفسیات سے لے کر خیالات تک، جنس سے لے کر شناخت تک، جذبات سے لے کر نظریات تک اور رجحانات سے لے کر ترجیحات تک اس فرد کی زندگی میں ہزاروں تضادات جمع ہو کر اس کی سوچ اور شخصیت کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہیں۔

تضادات کے اس چکر میں کوئی نہیں جانتا کہ گل چاہت کی اصل حقیقت کیا ہے؟ جس کا پیدائشی نام عنایت، فنکارانہ نام گل چاہت اور تبلیغ میں لگنے کے بعد معاویہ پڑا تھا۔ یہ صرف ایک فرد کا قصہ نہیں پوری قوم کی کہانی ہے۔

زندگی میں صداقت سب سے زیادہ ریلکس حقیقت کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ منافقت سے اس کی بالکل نہیں بنتی۔ اس لیے خدا اور رسولوں نے اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ روک تھام اور سدباب کی کوششیں جس خرابی کے لیے کی ہیں وہ ہے منافقت، کیونکہ منافقت حقائق کو بگاڑتی ہے اور لوگوں سے، لوگوں کی حقیقت اور اصلیت چھپا دیتی ہے۔

گل چاہت نہ جانے لوگوں کے نزدیک کیا ہے لیکن میرے خیال میں تو وہ ایک بدترین مظلوم فرد ہے۔ ہزاروں تکلیف دہ طعنے، اذیت ناک نعرے، روح کو زخمی کرنے والے توہین آمیز جملے اور ننگی گالیوں پر مشتمل کمنٹس جس سے روز "غیرت مند” پختون اور "باشعور” پاکستانی اس کی تواضع کر رہے ہیں۔ کیا ایمان، عقل، سنجیدگی، غیرت اور اخلاق ہمیں ان رویوں کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا ذرا بھی ہمیں خوف خدا اور فکر آخرت کا لحاظ نہیں؟ کیا اشرف المخلوقات کو یہ سلوک زیب دیتا ہے؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں مخصوص طبقات کے ساتھ اپنائے جانے والے رویوں میں ہم عقل، احساس، شرافت، تہذیب اور اخلاقی قدروں سے محروم تو نہیں ہوئیں؟

گل چاہت کو آٹھ سال کی عمر میں "زنانہ احساسات” ہونے لگے تو بجائے اس کے کہ کوئی طبی یا نفسیاتی علاج کا اہتمام ہوتا اس کو سب سے پہلے اپنے باپ اور بھائیوں سے سختی کا سامنا کرنا پڑا ایسا کہ اس کا اپنے گھر میں رہنا محال ہوگیا اور یوں وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر ہری پور میں خواجہ سراؤں کے ایک گروپ کے ساتھ منسلک ہوا۔ گروپ کے گرو نے اسے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا اور وقتی طور پر وہ تمام ضروری وسائل فراہم کیے جن کی اسے ضرورت اور خواہش تھی اور یوں ایک ابنارمل فرد خاندان سے نکل کر ایک ایسے طبقے کا حصہ بنا جو کئی گنا زیادہ ابنارمل تھا۔ جس کے معاشرے میں کوئی حقوق ہیں نہ ہی شناخت، کوئی عزت ہے نہ ہی تحفظ، کوئی کردار ہے نہ ہی مقام، کوئی زندگی ہے نہ ہی مقصد زندگی۔

گل چاہت نے جب اپنے سامنے صرف توہین اور محرومی ہی دیکھی اور لوگوں نے اصلاح کی بجائے اس سے لطف اندوز ہونا شروع کیا تو اس نے ردعمل میں نہ صرف سماج کے بنیادی اقدار سے کھلم کھلا بغاوت کر دی بلکہ سماج میں چھپے بے شمار تضادات کو آشکار کرنے کے لیے مختلف رنگ و روپ اختیار کر لیے۔ سوشل میڈیا کو سہارا بنا کر اس نے سماج کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑنے کا آغاز کیا جس میں ایک طرف اس کی اصل شناخت بالکل ختم ہو کر رہ گئی تو دوسری طرف معاشرے کے اجتماعی کردار میں چھپی غلاظتوں کو بھی طشت از بام کر دیا۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ اسی معاشرے سے اسے لاکھوں فالورز اور ویورز میسر آئیں جو اس کی قابل اعتراض ویڈیوز کو جواز بنا کر ننگی گالیاں اور ناقابل برداشت سلوک روا رکھتے تھے۔ وہ رات کے اندھیرے میں گل چاہت کی ویڈیوز بڑی "چاہت” سے دیکھتے اور دن کی روشنی میں اس کو گالیوں اور توہین سے نشانہ بناتے۔

گل چاہت نے بہت سارے روپ دھار کر اپنی بے چین روح کو سکون پہنچانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ کئی بڑے قدم اٹھائے مثلاً سوشل میڈیا کے "شغل مشغلے” چھوڑ کر عمرے کے لیے سعودی عرب کا سفر اختیار کیا، پھر تبلیغ میں چار ماہ لگائے، اپنے دوست و احباب کو ترغیب دے کر سمجھایا کہ موجودہ "شغل مشغلے” والی زندگی میں اگر موت آئی تو خدا کو کیا منہ دکھائیں گے؟ میری بات مانیں اور ایمان و عمل صالح والی زندگی کی طرف واپس آئیں۔ اس کی یہ محنت رنگ لائی اور کئی ٹک ٹاکرز نے واہیات مشاغل چھوڑ کر تبلیغ کا راستہ اختیار کیا لیکن بدقسمتی سے کچھ اپنے مزاج اور بہت کچھ لوگوں کے غیر صحت مندانہ رویوں سے تنگ آکر دوبارا اپنے سابقہ "ٹریک” پر چھڑ گیا جس سے کچھ ہی عرصہ قبل اتر گیا تھا۔

گل چاہت نے کچھ عرصہ قبل لوگوں کے طعنوں، حملوں، جملوں، گالیوں، رویوں، آوازوں اور کمنٹس سے تنگ آکر جرمنی نقل مکانی کر لی اور یوں اب وہاں بقول اس کے پوری آزادی، خوشی، تحفظ اور اطمینان سے زندگی بسر کر رہا ہے۔ ایک اسلامی ملک میں اصلاح اور تحفظ کے امکانات نہ پا کر ایک یورپی ملک منتقل ہو کر وہاں پر سکون زندگی بسر کرنے کا اعتراف ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کیا اس کی اصلاح کے لیے امکان، زندگی کے لیے قانونی اسباب اور تحفظ کے لیے معقول انتظام ایک اسلامی ملک میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ کیا یہ واقعہ اس ملک کے کھوکھلے پن کا کھلا ثبوت نہیں کہ کسی کو بھی عزت، تحفظ اور ضروری اسباب میسر نہیں؟ ایک فرد (حقیقت میں لاکھوں کروڑوں افراد) اندرونی احساس سے بے چین ہو کر اصلاح احوال کے لیے آمادہ تو ہوتا ہے لیکن ہم اسے یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی اصلاح کر لیں۔

ٹک ٹاکر خواجہ سرا گل چاہت کو تبدیلی کا سفر کیوں راس نہیں آیا؟

گل چاہت’ بنا ‘معاویہ’ ، کیا وہ پھر گل چاہت بن جائے گا؟’

گل چاہت اور اس جیسے لاکھوں لوگ مزید ہمارے نظام اور مزاج میں موجود ایک بہت بڑے دیرینہ ظلم کا خاص نشانہ بنے ہیں۔ تاریخ، طب، فقہ اور قانون سب گواہ ہیں کہ تیسرے جنس کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ اس جنس کے لوگ تاریخ کے ہر دور میں اور دنیا کے ہر خطے میں موجود رہے ہیں۔ فقہ میں ان کے لیے خصوصی احکام درج ہیں اور ان کے حقوق باقاعدہ تسلیم شدہ ہیں۔ ہم ان کے جنس کو ایشو بنا کر ان کی انسانیت بھول گئے ہیں۔ جنس ان کی جو بھی ہے، سب سے پہلے وہ انسان ہیں اور بحیثیت انسان حقوق، عزت اور تحفظ کے مستحق ہیں۔ کیا سرکاری اور سماجی دونوں سطح پر ان کے حقوق اور تحفظ کے لیے اقدامات نہیں ہونے چاہیے؟ بخدا سرکار اور سماج دونوں اس طبقے کے حوالے سے ایک بہت بڑے ظلم اور جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم کب تک مختلف حیلوں بہانوں کا سہارا لے کر انسانوں کے حقوق سے انکار کرتے رہیں گے؟ یہاں سب کو اپنے حقوق کی تلاش ہے لیکن کسی کو اپنے حقوق حاصل نہیں۔ عوام کو اس ملک میں اپنے حقوق کی تلاش ہے، قبائلیوں کو اپنے حقوق کی تلاش ہے، بلوچوں کو اپنے حقوق کی تلاش ہے، مزدوروں کو اپنے حقوق کی تلاش ہے، تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو اس ملک میں اپنے حقوق کی تلاش ہے لیکن افسوس صد افسوس کسی کو بھی اپنے حقوق نہیں مل رہے ہیں ہاں ایک چھوٹی سی اقلیت کو ہر طرح کی عیاشی، اختیار، طاقت اور دولت کی فراوانی ضرور حاصل ہے۔

گل چاہت سے چند دن قبل ڈی ڈبلیو (جرمن میڈیا) کے نمائندے نے پاکستان چھوڑ کر جرمنی نقل مکانی کے بارے میں، اس کے خیالات جاننے کے لیے انٹرویو کیا، آئیے کچھ تفصیلات جانتے ہیں

سوال! "پاکستان سے جرمنی تک کا سفر آپ نے کیسے طے کیا؟

جواب! "جو جمع پونجی میرے پاس تھی، وہ سب لگا کر اور بہت ساری مشکلات برداشت کر کے یہاں پہنچا ہوں۔

سوال! "جرمنی آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟”

جواب: "لوگوں کے طعنوں، گالیوں اور حملوں سے تنگ آکر جرمنی شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا، لوگوں نے مجھے اتنا تنگ کیا، انتا بے زار کیا، میرے لیے اتنے مسائل پیدا ہو گئیں تھیں کہ میں نے اپنا ملک چھوڑنے کا مشکل فیصلہ کیا”۔

سوال! "یہاں پر آپ کا سٹیٹس کیا ہے؟ یعنی آپ نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے رکھا ہے؟

جواب: "جی ہاں سیاسی پناہ کے لیے میں نے درخواست دے رکھا ہے، مزید کہا "مجھے ایک دیہاتی علاقے میں رہنے کے لیے مفت گھر دیا گیا ہے، کھانے پینے کی چیزیں بھی فری مل رہی ہیں اور اس کے علاؤہ دوسری ضروریات کے لیے حکومت کی جانب سے پیسہ بھی مل رہا ہے، یہاں تعلیم بھی فری ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اپنی ازاد مرضی سے زندگی بسر کر رہا ہو”۔

سوال! پاکستان اور جرمنی میں سب سے بڑا فرق کیا محسوس کیا؟”

جواب: سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ یہاں آزادی ہے، تحفظ ہے، سب کے لیے برابر کے حقوق ہیں، یہاں مجھے کسی سے کوئی بھی خطرہ نہیں، مزید کہا "پاکستان میں کھاتا پیتا اپنا تھا لیکن رہتا دوسروں کے مرضی سے تھا جبکہ یہاں کھاتا پیتا ان کا ہوں اور رہتا اپنی مرضی سے ہوں”۔

سوال! دن بھر کے مصروفیات کیا ہوتی ہیں؟

جواب: صبح سویرے اٹھتا ہوں، ناشتہ کرتا ہوں، پھر یوٹیوب کی مدد سے جرمن زبان سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ یہاں زندگی گزارنے کے لیے جرمن زبان بہت ضروری ہے، اس کے علاؤہ دو تین ویڈیوز بنا کر ٹک ٹاک پر آپ لوڈ کرتا ہوں”۔

سوال! پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ آپ نے کیا محسوس کیا؟

جواب: پاکستان میں اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتا تھا، لوگ ہر بات میں اور ہر کام میں نکتے نکال دیتے ہیں، اعتراضات کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں، کمزور اور لاچار لوگوں کو ستائے جاتے ہیں، لوگ اگر چہ میرے ویڈیوز مزے لے لے کر دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اعتراضات کرتے ہیں، گالیاں بھی دیتے ہیں اور غلیظ کمنٹس بھی”۔

سوال! "کیا پاکستان میں تحفظ کو خطرات لاحق تھے؟”

جواب: "جی ہاں بہت زیادہ، میرے پیچھے بہت سارے لوگ پڑے ہوئے تھے، کئی مرتبہ مجھ پر قاتلانہ حملے ہوئے، یہاں لوگ آپ کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ جن میں جی سکتے ہیں نہ ہی مر سکتے ہیں۔ مجھے اپنی زندگی عزیز تھی کیونکہ زندگی ہے تو سب کچھ ہیں زندگی نہیں تو کچھ بھی نہیں”۔

سوال! "کیا آپ مستقل جرمنی میں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟”۔

جواب: "جی ہاں یہاں آزادی ہے، تحفظ ہے، سہولت ہے اور اپنی آزاد مرضی سے جینے کا حق حاصل ہے۔ تعلیم فری ہے، میں یہاں تعلیم حاصل کر کے سب انسانوں کے لیے ایک مفید انسان بن کر، سب کے کام آنا چاہتا ہوں۔ منشیات بیچتا ہوں نہ ہی واہیات کرتا ہوں بس سکون اور اطمینان سے جینا چاہتا ہوں اور یہ موقع مجھے پاکستان میں نہیں بلکہ جرمنی میں حاصل ہے۔ اس لیے مستقل یہاں رہنے کا پروگرام ہے”۔

کوئی مانیں یا نہ مانیں، کوئی قبول کریں یا نہ کریں مختلف وجوہ نے مل کر رہنے کے لیے اس ملک کی موزونیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کو دوبارا قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے تشدد، ظلم، عمومی توہین آمیز سلوک، جھوٹ اور منافقت سے اس ملک کا ماحول اور اقدار دونوں تباہ کر کے رکھ دئیے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ خود اچھے بننے کی کوشش نہیں کرتے لیکن دوسروں سے یہ توقع پوری شدت سے رکھتے ہیں، ہم خود بے شمار علتوں میں دن رات ملوث رہتے ہیں لیکن دوسروں کی کوئی علت برداشت نہیں ہوتی، صبح و شام یہاں گالیوں کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن دوسری کی گالی قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں، ہم خود بااصول نہیں لیکن دوسروں سے پل پل بااصول رہنے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ہم اگر چاہتے ہیں یہ ملک اور معاشرہ درست انداز میں بدلے تو ہمیں اپنے رویے بہتر کرنا ہوں گے۔ ہمیں اخلاق، مہربانی، خلوص، انصاف اور اصولوں کے تقاضے ہر دو انفرادی اور اجتماعی طور پر پورے کرنے ہوں گے بصورت دیگر ہماری تباہی اور منافقت میں ہی اضافہ ہوگا اور بس۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے