پاکستان-ٹرین

خاکِ فارس کا مسافر(3)

·

ایران کے سفر کا ارادہ کرتے ہی خدشات کی ایک یلغار ہونے لگی۔ سب سے بڑا وسوسہ یہ تھا  کہ اگر پاسپورٹ پر ایران کا ویزا ثبت ہو گیا تو امریکا کی دہلیز پر پہنچنے کے سب خواب کرچی کرچی ہو جائیں گے۔

یہ اندیشہ بالکل بے بنیاد نہیں تھا۔ 2015ء میں اس کی اس وقت جڑیں پڑیں جب امریکی حکومت نے ایک فرمان جاری کیا کہ وہ یورپی مسافروں کو، جن کے پاسپورٹ پر ایران، عراق، شام، یمن، سوڈان، لیبیا یا صومالیہ کا کوئی نشان ہوگا، اپنی زمین پر قدم رکھنے نہیں دے گی۔ ایران نے بھی کمال مہارت سے اس کا حل نکالا۔ یورپی مسافروں کے پاسپورٹ پر ویزا کا کوئی نام و نشان باقی نہ چھوڑا جائے۔ ویزا ایک علیحدہ کاغذ پر مہیا کیا جانے لگا، تاکہ دنیا بھر کے سیاح ڈالر لیے بلا جھجک تہران، اصفہان اور شیراز کی گلیوں میں آوارہ گردی کرتے پھریں اور ایرانی معیشت کا پہیہ گھومتا رہے۔اسے آج کل ’ای ویزا‘  کہا جاتا ہے۔

یہ 2001ء کا جولائی تھا، جب میں نے ایران کی راہ لی۔ سفر کی چاشنی اپنی جگہ، لیکن دل کے نہاں خانے میں ایک عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ان دنوں کچھ ایسے تھے جیسے دو ضدی بچے آمنے سامنے کھڑے ہوں، نہ ہاتھ ملانے پر راضی اور نہ ہی کوئی درمیانی راہ نکالنے پر۔ میرا دل ہر لمحہ یہی گمان کرتا کہ کہیں واپسی پر سعودی ایئرپورٹ کے کسٹم آفیسر کی آنکھوں میں وہی شعلہ نہ لپک اٹھے جو سیاسی محاذ آرائی کے دنوں میں اکثر دیکھا جاتا ہے۔

ستمبر 2001 میں جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر قیامت برپا ہوئی، میں ایران کی خاک سے واپس آ چکا تھا۔ سعودی ایئر پورٹ پر جب افسر نے میرے پاسپورٹ پر نگاہ ڈالی تو میں نے بے اختیار دل میں دعائیں پڑھنا شروع کر دیں۔ وہ لمحہ، جب اس کے ہاتھ کی مہر میرے پاسپورٹ پر لگی، ایسا محسوس ہوا جیسے کسی اندھیرے جنگل میں اچانک روشنی کا دروازہ کھل گیا ہو۔ میں نے پُرسکون سانس لی اور سعودی سرزمین پر ایک بار پھر قدم رکھ دیا۔

اب وہ زمانہ لد چکا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی تلواریں نیام میں جا چکی ہیں۔ تعلقات کی تلخی رفتہ رفتہ شیرینی میں ڈھل گئی ہے۔ اب ایران کے ویزے کا خوف بھی ویسا ہی قصہ پارینہ بن چکا ہے جیسا مسافروں کے لیے لکھی گئی کوئی پرانی، گرد آلود دستاویز۔

ایران پہنچنے کے لیے تین راستے ہیں: ریل گاڑی، بس اور ہوائی جہاز۔

سفر بذریعہ ریل گاڑی

 مگر ریل کا سفر، وہ کچھ اور ہی ہے! جیسے پرانے زمانے کی کوئی کہانی، جیسے گرد سے اٹی ہوئی کوئی یاد، جیسے کسی اجنبی سرزمین کی طرف بڑھتے کسی پراسرار مسافر کی خاموشی۔ ریل گاڑی کے سفر میں ایک عجیب سا سحر چھپا ہوتا ہے۔ ایک ایسا سحر جو نہ بس میں ملتا ہے اور نہ ہی ہوائی جہاز میں۔ یہ سفر ایک پورے جہان کا آغاز ہوتا ہے، جہاں آپ صرف جسم نہیں بلکہ روح بھی سفر کرتی ہے۔

جب ریل کی آواز سنائی دیتی ہے تو جیسے وقت کا دھارا کسی دریا کی طرح آپ کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ گاڑی کی کھڑکیاں کھلتی ہیں، اور سرد ہوا کی ایک لہر آپ کے جسم کو چھو کر گزر جاتی ہے۔ ہر اسٹیشن کے قریب آتے ہی دل کی دھڑکن بےاختیار تیز ہونے لگتی ہے، جیسے کوئی نیا باب کھلنے کو ہو۔ پٹڑیوں پر گونجتی دھکن دھکن کی آواز دل کی تال سے ہم آہنگ ہو کر ایک انوکھی مسرت میں ڈھل جاتی ہے، جیسے ہر لمحہ ایک نئی کہانی سنانے والا ہو۔ کبھی کبھار ٹریک پر گزرتے ہوئے، آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ریل گاڑی نہیں بلکہ ایک قدیم داستان ہے جو آپ کو اپنے ساتھ جکڑ رہی ہو۔

ریل کی کھڑکیاں، باہر کا منظر اور اندر کی مدھم روشنی آپ کو کسی پراسرار دنیا میں لے جاتی ہیں۔ یہ کوئی معمولی سفر نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسی مہم  ہوتی ہے جو آپ کو اپنے اندر تک لے جاتی ہے۔ ان کھڑکیوں کے پار، وہ زمین جو گزرتی ہے، اور وہ سائے جو رات کی خاموشی میں آپ کے ساتھ چلتے ہیں، گویا یہ سب آپ کے ساتھ ہیں، آپ کی ذات کا حصہ ہیں۔ اور جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں، ریل کے پہیے ان کھچاکوں کی آواز کے ساتھ گزر جاتے ہیں، ہر لمحہ ایک نیا تجربہ، ایک نئی جستجو پیدا ہوتی ہے۔

یہ سفر کوئی صرف فاصلہ طے کرنے کی بات نہیں، بلکہ ایک جستجو ہے، جہاں آپ نہ صرف دنیا کے مختلف رنگ دیکھتے ہیں، بلکہ اپنی ذات کے ایک نئے پہلو کو بھی دریافت کرتے ہیں۔ ریل کی پٹڑی  پر سفر کرنے کا یہ سحر، یہ داستان، وہ لمحے، وہ خاموشیاں، ہمیشہ آپ کے ساتھ رہ جاتی ہیں۔

کوئٹہ سے زاہدان تک پھیلی ہوئی ریلوے لائن— سات سو تیس کلومیٹر طویل— ایک ایسا راستہ ہے جو پہاڑوں، ویرانوں اور وقت کی پرانی گواہیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس پر اٹھارہ اسٹیشن آتے ہیں، چودہ پاکستان میں اور چار ایران میں۔ انہی میں سے ایک اسٹیشن، احمد وال بھی ہے جو کوئٹہ سے تقریباً ایک سو اناسی کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔

احمد وال میرے لیے محض ایک اسٹیشن نہیں، بلکہ ایک قصہ ہے، ایک یاد ہے، ایک ان دیکھی دنیا ہے۔ جیسے کسی پرانے خواب کی بازگشت، جیسے کسی بوسیدہ یادداشت کے بکسے سے جھانکتی ہوئی زرد پڑتی ہوئی تصویریں۔ وہاں، 1940 کی دہائی میں، میرے ماموں اسٹیشن ماسٹر کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ایک اونچی چھت والا دفتر، لکڑی کی میز، اسٹیشن کی دیوار پر لٹکی ہوئی ایک بڑی گھڑی، جو ہر پل کے گزرنے کی گواہی دیتی تھی۔ اسٹیشن کے احاطے میں کھڑے سگنل کے بازو جیسے وقت کی کروٹوں کو دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے، کبھی اوپر، کبھی نیچے، جیسے کسی صدیوں پرانے مسافر کی اٹکی ہوئی کہانی۔

میری والدہ اکثر اس دور کے احمد وال کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ وہ کہانیاں جو ریل کی پٹڑیوں کے درمیان سے اٹھنے والی گرم بھاپ میں تحلیل ہو کر رہ گئیں، وہ قصے جو اسٹیشن پر آنے جانے والے مسافروں کے بیگ میں رکھے گئے، لیکن کبھی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ جلتی دوپہریں تھیں، اور ان دوپہروں میں ننگے پاؤں بھاگتے بچے، جن کے پاؤں تپتی زمین پر ناچ اٹھتے۔ ان کے لیے یہ لوہے کی پٹڑیاں کسی اور ہی دنیا کا دروازہ تھیں، جہاں سے گزرنے والی ہر گاڑی کے اندر وہ دور دراز کے شہروں کی جھلک دیکھتے۔

جب کہیں سے دھواں اگلتی ریل گاڑی کا ہارن گونجتا، تو اسٹیشن پر ایک ہلچل مچ جاتی۔ تانگے والے تیزی سے گھوڑوں کی باگیں کھینچ کر مسافروں کے قریب پہنچ جاتے، پلیٹ فارم پر بیٹھے چائے والے کے سموسے اچانک زیادہ گرم لگنے لگتے، اور وہ بوڑھا مسافر جو دیر سے اپنے سر پر گٹھڑی رکھے اونگھ رہا ہوتا، اچانک ہڑبڑا کر سیدھا بیٹھ جاتا۔ گاڑی جیسے ہی رکتی، دروازے دھڑ دھڑ کھلتے، گٹھڑیاں اور صندوق اتارے جاتے، اور پلیٹ فارم پر بکھرتی آوازیں ایک عارضی بازار کا سماں باندھ دیتیں۔ کچھ مسافر تیزی سے اتر کر پانی کے نلکے کی طرف دوڑتے، اور کچھ آنکھوں میں امید لیے کھڑکی سے جھانکتے کہ شاید کوئی بچھڑا ہوا اپنا نظر آجائے۔

وہ سائیں سائیں کرتی ہوا، جو پہاڑوں کے دامن سے بہتی ہوئی آتی تھی، ایک عجیب سی ویرانی لیے ہوئے تھی۔ جیسے کوئی بھولا ہوا راگ، جیسے کسی پردیسی کی خاموش آہ۔ رات کے وقت جب اسٹیشن کی مدھم لائٹوں میں گرد اڑتی، تو ایسا لگتا کہ جیسے کوئی گمنام مسافر اپنے دل کی بات ہوا کے کانوں میں کہہ کر چلا گیا ہو۔

کہتے ہیں کہ اسٹیشن وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں راستے بچھڑتے اور جڑتے ہیں، جہاں کوئی کسی کو آخری بار دیکھتا ہے، تو کوئی کسی کی منتظر آنکھوں میں ایک نیا خواب لیے آتا ہے۔ احمد وال کا اسٹیشن بھی ایسا ہی تھا۔ ایک لمحے کے لیے خاموش، اور اگلے لمحے ایک گہری ہلچل میں ڈوبا ہوا۔ شاید اسی لیے یہ محض ایک اسٹیشن نہیں، ایک قصہ ہے، ایک یاد ہے، ایک زندہ کہانی ہے، جو ہر آتی جاتی ریل گاڑی کے ساتھ دوبارہ لکھی جاتی ہے۔

یہ وہی لائن ہے جس پر مشہور مصنف سلمان راشد نے دالبندین تک کے سفر کو اپنی ادبی انگریزی میں محفوظ کیا۔ اُس کے والد 1943ء میں دالبندین کے اسٹیشن پر بطور اسسٹنٹ انجینئر تعینات تھے۔ اس سفر کی روداد کو اس نے "Pilgrimage to Dalbandin” کا نام دیا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہر مسافر کے دل میں دالبندین پہنچ کر ایک زیارت جیسا احساس جاگ اٹھتا ہے؟

2007ء تک، یہ ٹرین، جس کا نمبر 403 Up/ 404 Down تھا، مہینے کی پہلی اور پندرہ تاریخ کو کوئٹہ سے زاہدان جایا کرتی تھی۔ مگر پھر وہ وقت آیا جب حالات نے کروٹ لی، امن و امان کی چادر تار تار ہونے لگی، اور پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں یہ سروس بند کر دی گئی۔ ایسا لگا جیسے اس راستے کی کہانی ادھوری رہ گئی ہو، جیسے پہاڑوں نے کسی گزرے ہوئے مسافر کے قدموں کی آہٹ کو ترسنا شروع کر دیا ہو۔

لیکن کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ کچھ وقت بعد یہ لائن پھر سے کھول دی گئی، اور اس کا نام "Zahedan Mixed Passenger” رکھ دیا گیا۔ یہ ٹرین اب بھی چلتی ہے، اپنے ساتھ گزرے وقتوں کی خوشبو اور نئے مسافروں کے خواب لیے، 730 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے، 33 گھنٹے اور 10 منٹ میں۔ اس کے 22 اسٹاپ ہیں، اور ایک اکانومی کلاس ٹکٹ کی قیمت 3800 روپے ہے۔

پر جو قیمت سب سے زیادہ ہے، وہ اس سفر کی یاد ہے، وہ راستہ ہے جو سرحد کے دونوں طرف کی زمین کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے، وہ لمحہ ہے جب ریل گاڑی کا ایک جھٹکا، مسافر کے دل میں ایک خواب جگا دیتا ہے۔(جاری ہے)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے