محترم ومکرم ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب ’’کتاب چہرہ‘‘ پر ایک پوسٹ میں لکھتے ہیں:
’ کاش دینی تعلیم کے منہج پر نظر ثانی کی جائے،
مجھے نہیں معلوم کہ اس سال پورے ملک کے وفاقوں سے کتنے طلبہ دورۂ حدیث کر کے فارغ ہوئے اور کیا منہج تدریس میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔البتہ مجھے اپنا تجربہ یاد ہے کہ مشکوٰۃ المصابیح میں تفصیل سے اختلافی مسائل ودلائل پڑھنے کے باوجود دورہ حدیث میں فاتحہ خلف الإمام، رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ مسائل میں سے ہر ایک پر مسلسل دو، دو ہفتے لیکچرز ہوتے رہے اور ہمیشہ آخری جملہ یہ ہوتا کہ ’یہ جائز، نا جائز کا اختلاف نہیں بلکہ افضل و مفضول کا اختلاف ہے‘۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر فضل رہا کہ میں ان مناظرانہ مباحث سے ہمیشہ متنفر رہا۔البتہ یہ سوچتا ہوں کہ صرف ’افضل مفضول‘ کے خود ساختہ پیمانوں کو درست ثابت کرنے کے لیے اپنے اور قوم کے بچوں کے لاکھوں گھنٹے، جو کسی بھی معاصر نفع بخش کام میں لگائے جا سکتے ہیں، غیر پیداواری مباحث کی نذر کر دیے جاتے ہیں، کیا منہج تدریس پر نظر ثانی نہیں کی جا سکتی‘۔
ڈاکٹر صاحب نے اس پوسٹ میں دینی مدارس میں طریق تدریس کے اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس کا ایک اور پہلو بھی ہے، عصری جامعات کی طرح دینی مدارس میں بھی ایک سی ذہنی استعداد کے حامل طلبہ نہیں ہوتے۔ان میں ذہین وفطین بھی ہوتے ہیں اور درمیانے درجے کے بھی،ان کی صلاحیتیں اذکارِ رفتہ مباحث اور غیر ضروری مسائل پر لمبے تدریسی گھنٹوں کی نذر کردی جاتی ہیں۔کوئی بھی شعبہ علم ہو، اس میں ہمیشہ ارتقأ ہوتا رہتا ہے۔
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
علوم میں جمود سے معاشرے میں ترقی کا عمل بھی رک جاتا ہے جبکہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق نئے نئے علوم میں مہارت اور شرعی ضروریات سے آگہی ناگزیر ہے۔ نیز وہی قومیں ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتی ہیں جو تغیّر وتبدل اور ان کے تقاضوں کا بروقت ادراک کرلیتی ہیں۔اس لیے موجودہ حالات میں درس نظامی کے نظام تعلیم وتدریس میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔
حالیہ برسوں میں جس طرح عصری جامعات میں طریق تدریس کو تبدیل کیا گیا ہے، انڈر گریجوایٹ اور گریجوایٹ کی سطح پر سیمسٹر سسٹم مروج ہونے سے طریق تدریس میں بہتر آئی ہے اور رٹا سسٹم کی بیخ کنی کے علاوہ طلبہ پر ذہنی بوجھ کم ہوا ہے، اسی طرح کی اصلاحات دینی مدارس میں بھی بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔ دینی مدارس کے ارباب بست وکشاد کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، جامعہ پنجاب، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یونیورسٹی پاکستان کے اسلامیات اور متعلقہ علوم کے نصاب، تدریس کے دورانیے، کوئز، مشقوں، تحقیقی مقالوں اور امتحانی پرچوں کے نمبروں کی بانٹ کا ضرور جائزہ لینا چاہیے اور اس ’المیے‘ پر سنجیدگی سے ضرور غور کرنا چاہیے کہ طلبہ سات، آٹھ سال صرف و نحو منطق اور بلاغت وغیرہ پڑھتے ہیں لیکن انھیں اردو یا عربی میں ڈھنگ کی عبارت لکھنا نہیں آتی۔
بعض اساتذہ کرام تو سادہ سی بات کو ایسے، گنجلک، مغلق اور بے ڈھنگے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ طلبہ کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ وہ سیرت نبوی ﷺ اور تاریخ اسلام سے بالخصوص کماحقہ آشنا نہیں ہوتے۔ اس کی ایک نمایاں مثال عام مبلغین، ذاکروں، خطباء اور تبلیغی جماعت کے بھائیوں کے بیان کردہ بے سروپا قصے ہیں حالانکہ ان جملہ صاحبان میں دینی مدارس کے فارغ التحصیل بھی ہوتے ہیں مگر وہ بے سروپا قصوں کو بیان کرنے سے ہچکچاتے نہیں اور ان ہی سے پھر معاشرے میں فتنہ وفساد پھیلتے ہیں اور معمولی فروعی اور افضل و تفضیل سے متعلق مسائل پر لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ وجہ وہی ہے۔ ان مبلغوں کو خود اپنی معلومات پر کامل یقین نہیں ہوتا اور وہ انٹ شنٹ معلومات کا ابلاغ کرتے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ ان تمام پہلووں سے دینی مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
اہم نوٹ: راقم تعلیم کے کسی بھی شعبے حتیٰ کہ کسی بھی ملک ومعاشرے میں اس کے اندر سے تبدیلی کا حامی ہے۔ دینی مدارس کے نصاب اور طریق تدریس میں کوئی بھی تبدیلی خود اہل مدارس کو کرنی چاہیے، صائب الرائے علماء اور اسکالروں کو آگے آناچاہیے، جملہ نصابی کتب اور طریق تدریس کا جائزہ لینا چاہیے۔ شعبہ تعلیم میں تبدیلی کسی بیرونی جبر یا حکومت کے کسی دباؤ اور اقدام پر مبنی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایسی تبدیلیاں اور انقلابات دیرپا ہوتے ہیں اور نہ ان سے کوئی دیرپا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ درس نظامی میں خود وفاقوں اور مدارس کے اندرون ہی سے اصلاحات ہونی چاہییں اور تدریجاً ا ن اصلاحات سے برآمد ہونے والے نتائج کی روشنی میں مزید تبدیلیاں روبہ عمل لائی جانی چاہیے۔
اس ضمن میں دینی مدارس میں دو تین تدریسی تجربات کو ضرور پیش نظر رکھا جائے۔ ان میں ایک جامعہ بیت السلام کراچی، تلہ گنگ اور دوسرا، ادارہ علوم اسلامی، اسلام آباد اور تیسرا جامعۃ الرشید کراچی کا نظام ہے۔ یہ مدارس عصری علوم کی تدریس کے تجربات کی نمایاں مثالیں ہیں۔ جہاں درس نظامی کے ساتھ عصری نصاب، او اور اے لیول اور ایم اے کی سطح تک پڑھایا جا رہا ہے۔ دیگر مدارس میں بھی میٹرک یا انٹر تک عصری علوم پڑھائے جارہے ہیں لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج معاشرتی سطح پر مرتب ہوتے نظر نہیں آئے۔
پس تحریر :احباب اس تحریر پر غور فرمائیں۔اپنے تجربات کی روشنی میں آراء وتجاویز سے نوازیں۔
تبصرہ کریں