ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع جموں و کشمیر وہ خطہ ہے جس پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں اور ڈھونڈنے والے اب تک ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اس سوال کا جواب کہ جسے قائد اعظم نے ملک کی شہ رگ قرار دیا وہ آج تک دشمن کے قبضے میں ہے، اس کا قضیہ پراپیگنڈے کی زد میں ہے، اس خطے کی نوجوان نسل بھارت کے ثقافتی حملوں کے نشانے پہ ہے۔۔ کیوں؟؟ کیوں؟؟ آخر کیوں؟؟
ہر ذی شعور کا فرض ہے کہ ڈھونڈنے والوں کو، سوال پوچھنے والوں کو بتا دے کہ اپنی آزادی، اپنے جغرافیے اور نظریے کی حفاظت کے لیے قوم جب سیسہ پلائی دیوار بنے ۔۔۔۔ جہاد کو اپنے ماتھے کاجھومر بنائے تب کہیں جا کے دشمن ہزیمت اٹھاتا ہے، پسپائی اختیار کرتا ہے۔ غزہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
صحیح معنوں میں فتح۔۔۔ مکمل فتح۔۔۔۔ مکمل کامیابی تو اس دن ملے گی جب پوری امت بیدار ہو جائے گی اور امت کی قیادت ہوش کے ناخن لے گی۔
تب تک اپنے اپنے خطے کے طاغوت سے خود ہی لڑنا ہے، اپناحق آگے بڑھ کے لینا ہے، چھین کے لینا ہے۔
پلیٹ میں سجا کے کوئی ہمیں کشمیر پیش نہیں کرے گا۔۔۔
بحیثیت ملت ہم سے ایک اور جرم سرزد ہوا وہ یہ کہ آزادی ملی، لاکھوں قربانیاں دی گئیں، شہداء کی روحیں شاہراہ فردوس پہ رواں دواں ہوگئیں۔۔۔۔ اور ہم جو منزل مراد تک پہنچے، پہلا سبق ہی بھلا بیٹھے۔
جو سبق ہمیں یاد رکھنا تھا وہ منزل پر پہنچتے ہی ہم بھلا بیٹھے۔ وہ یہ سبق تھا کہ مسلمان ملت کے جغرافیائی اور روحانی وجود کے دشمن ہزار ہیں۔ ان دشمنوں کا واحد علاج ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے جہاد۔ اسے امت کے ماتھے کا جھومر کہا گیا تو آخر اس کی کچھ وجہ ہے۔ ہم نے ماتھے کے اس جھومر کو اتار پھینکا تو جو نقصان ہمیں اٹھانا تھا آج تک ہم اٹھا رہے ہیں۔
آج ملت پاکستان یوم یکجہتی کشمیر منا رہی ہے تو ہمیں یہ بھولا ہوا سبق یاد کرنا ہوگا۔ یہ ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ہمارا ہمسایہ ملک ہمارے خلاف ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ ہمیں زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ سو اس کا علاج جو ہے اس کی تیاری ہمیں کرنی ہے۔ بات کی جائے 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر آئینی اقدام کی، حکومت پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ عالمی عدالت انصاف میں جاتی اور بھارت کے اس اقدام کو چیلنج کرتی۔
لیکن۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو نیند پیاری ہے۔
اور۔۔۔۔۔اب
ہمیں اس حقیقت کو بخوبی تسلیم کر لینا چاہیے کہ ذی اقتدار طبقہ، حکمران، ارباب اختیار کا فرض شناس اور ہمہ وقتی بیدار رہنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔
1962کی ایک رات کسی نے 2بجے جنرل ایوب خان کو جگا کے چین کا پیغام دیا کہ موقع اچھا ہے بھارت پہ حملہ کر دو۔۔۔’
ایوب خان نے جمائی لی ،جگانے والے کو ڈانٹا اور دوبارہ گہری نیند سوگئے۔
دشمن تو جاگ رہا تھا۔
ہمیں نیند پیاری ہوگئی۔
کاش! ملی شعور ہی اس درجے کا بیدار ہوتا کہ اس سنہری موقعے کو ضائع نہ کیا جاتا۔
اب بھی وقت ہے۔
کیا کریں بھلا؟؟؟
جہاد کو اپنے ماتھے کا جھومر بنالیں۔
کیا کہا؟؟ ‘ مشکل ہے۔۔۔۔ یہ راستہ تو مشکلات سے اٹا پڑا ہے، اس کے ہر موڑ پہ بھوک، پیاس، زخم، تنگی اور جانے کیا کیا آلام کھڑے ہیں۔
اچھا جی! آپ غلط نہیں کہہ رہے۔۔۔لیکن۔۔۔۔مجھے بتایے کہ جہاد کے بغیر جو زندگی ہے وہ بھوک، افلاس، محرومی، زخم، تنگی سے پاک ہے کیا؟؟؟؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم ہر روز مرتے، ہر روز جیتے ہیں۔۔؟
کیا ہمارے اوپر قوانین مسلط نہیں کیے جاتے۔۔۔؟
کیا ہمارے گرد ناانصافی، ظلم، کرپشن کا شکنجہ تنگ سے تنگ نہیں ہو رہا کیا۔۔؟
میری گفتگو کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی خود ہی اٹھے اور جہاد کے لیے کمر کس لے۔۔۔۔
نہیں۔۔۔
کشمیر ہمارا ہے۔۔۔
آئینی ،تہذیبی، معاشرتی، جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا ہے۔۔۔
تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔۔۔
اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں۔۔۔۔۔ اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں قرارداد موجود ہے۔۔۔۔ خود بھارت یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کے گیا تھا۔
قارئین! مدعا یہ ہے کہ درج بالا سب حقائق کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کو متوجہ کریں۔
احساس دلائیں۔۔۔
آزادی کے قاعدے کا وہ پہلا سبق جو آزادی ملتے ہی حکمران بھلا بیٹھے تھے، انھیں ہم یاد دلائیں۔
قائد کی پالیسی قائد کا نظریہ یاد دلائیں کہ بازو نہیں ۔۔۔ ہاتھ نہیں۔۔۔ سر نہیں۔۔۔۔ شہ رگ ہے ۔۔۔۔ جی ہاں! کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
اگر آپ یہ بھی نہیں کر سکتے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔مست مست رہیے۔۔۔ اور بس ہر سال فروری کی 5 تاریخ کو کشمیر کے بارے میں جنرل نالج میں اضافہ کر لیا کیجیے۔۔۔۔کشمیری کلچہ کھا لیا کیجیے۔۔۔۔کشمیری چائے نوش فرما لیا کیجیے۔۔۔۔ کشمیری شال اوڑھ لیا کیجیے۔۔۔۔
کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے کشمیری چادریں تان کے سو جایا کیجیے۔
ہے نا آسان کام!!
تبصرہ کریں