سفر ایران کی ایک دلچسپ داستان
ایران کے سفر کے لیے دیگر ضروری اشیاء کے ساتھ ایرانی کرنسی کا انتظام بھی لازم تھا۔ جولائی 2001 میں ایک پاکستانی روپیہ 27 ایرانی ریال کے برابر تھا، جبکہ موجودہ نرخ کے مطابق یہ 147 ایرانی ریال کے برابر ہو چکا ہے۔
میں نے کوئٹہ کے قندھاری بازار میں ہنڈی کے کاروباریوں سے کچھ ایرانی ریال خریدے۔ مگر ان کی قدر اتنی کم تھی کہ چند ہی نوٹوں میں میری جیبیں بھر گئیں۔ اس مشکل کے پیشِ نظر، میں نے اپنے ساتھ 100 امریکی ڈالر اور 500 سعودی ریال بھی رکھ لیے تاکہ حسبِ ضرورت ایران میں انہیں تبدیل کروا سکوں۔
ایران پہنچ کر جب میں نے پچاس امریکی ڈالر تڑوائے تو یکایک میری شلوار اور کھیسے کی جیبیں نوٹوں سے لبالب بھر گئیں۔ جب میں چلتا تو ہر قدم پر میری جیبیں پینڈولم کی طرح جھولتیں، اور ان میں بھرے نوٹ لہراتے ہوئے عجب مضحکہ خیز منظر پیش کرتے۔ جوں جوں میں تیز قدم اٹھاتا، یہ تماشا اور بھی دلچسپ ہو جاتا۔
راہ چلتے ایرانی حیرت سے مجھے دیکھتے، گویا کوئی تماشا جاری ہو! لیکن یہ صورتحال میرے لیے کچھ پریشانی کا باعث بھی بنی، چنانچہ میں نے جلدی سے نوٹوں کی کچھ گڈیاں اپنے بریف کیس میں رکھ لیں۔
تاہم، دل میں ایک خدشہ بدستور موجود تھا۔کہیں کوئی میرا بریف کیس چھین نہ لے! اگر ایسا ہوتا تو میری تمام دولت لُٹ جاتی اور ایران کی سیر ایک خواب ہی رہ جاتی۔ مگر ایرانی لوگ نہایت مہذب اور ایماندار نکلے؛ کسی نے میری طرف میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھا۔
یہ میری پہلی بین الاقوامی سیاحت تھی، اس لیے ناتجربہ کاری کے کئی مراحل سے گزرنا پڑا۔ لیکن انسان انہی تجربات سے سیکھتا ہے۔ میں بس جو سمجھ میں آیا، وہی کرتا رہا، اور یہ سفر میرے لیے سیکھنے کا ایک دلچسپ موقع بن گیا۔
کرمان اور تہران میں کرنسی تبدیل کرانے کا تجربہ
ایران میں قیام کے دوران، پہلی مرتبہ میں نے کرمان میں اپنے 50 امریکی ڈالر تبدیل کروائے، جس کے عوض مجھے 3 لاکھ 97 ہزار 900 ایرانی ریال ملے۔ دوسری مرتبہ جب میں نے یہی رقم تہران میں تڑوائی تو مجھے 3 لاکھ 96 ہزار 700 ریال دیے گئے۔ یوں دونوں شہروں میں ریال کی قدر میں معمولی سا فرق تھا، مگر میرے لیے اس وقت یہ فرق زیادہ معنی نہیں رکھتا تھا، کیونکہ اصل مسئلہ کچھ اور تھا۔کرنسی کے حجم کا!
ایران کی کرنسی میں سب سے چھوٹا نوٹ 100 ریال کا تھا، جبکہ سب سے بڑا نوٹ 1 لاکھ ریال کا۔ ان کے درمیان 200، 500، 1,000، 2,000، 5,000، 10,000، 20,000 اور 50,000 ریال کے نوٹ بھی موجود تھے، اور آج بھی یہی ترتیب برقرار ہے۔ جب میں نے بینک سے اپنے ڈالر کے عوض ریال وصول کیے، تو بینک افسر نے میرے سامنے بڑی بڑی نوٹوں کی گڈیاں میز پر رکھ دیں۔ وہ غالباً مجھے 10 ہزار اور 5 ہزار ریال کے نوٹ دے رہا تھا، جو اپنے حجم کی وجہ سے خاصے وزنی معلوم ہو رہے تھے۔ شاید وہ جانتا تھا کہ چھوٹے نوٹ دینے سے مجھے خریداری کے دوران زیادہ مشکل پیش آئے گی، کیونکہ بڑے نوٹوں کی ریزگاری حاصل کرنا خاصا کٹھن ہوتا۔
میری پریشانی صرف نوٹوں کے حجم کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ان کے سنبھالنے کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ میرے پاس ایک بریف کیس ضرور تھا، لیکن اس کے علاوہ کوئی اور بیگ نہیں تھا۔ بین الاقوامی سیاحت کے اصول و ضوابط سے میں ناواقف تھا، مگر سیاحت کا شوق ضرور تھا۔
اگر میں کرنسی رکھنے کے لیے کوئی کمر پر لٹکانے والا تھیلا (backpack) ساتھ لے آتا، تو نہ میری شلوار کی جیبیں پھولتی اور نہ ہی میں راہ چلتے تماشا بنتا۔ مگر اُس وقت مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ ایرانی کرنسی کے سنبھالنے کے مسائل سے یوں دوچار ہونا پڑے گا، اور نہ ہی کسی نے اس حوالے سے مجھے پہلے سے کوئی رہنمائی فراہم کی تھی۔
اگر مجھے اس مشکل کا پہلے سے ادراک ہوتا، تو میں پیشگی کوئی انتظام کر لیتا یا کم از کم بینک افسر سے درخواست کرتا کہ، ’آقا، دستہ پولھای بزرگ را بہ من بده تا بتوانم آن را بہ راحتی حمل کنم‘ یعنی، بھائی، مجھے بڑے نوٹ دیجیے تاکہ انہیں سنبھالنا آسان ہو”۔ مگر خیر، جو نوٹ مجھے دیے گئے، میں نے انہیں بخوشی قبول کر لیا اور اپنی قسمت پر مسکرا دیا۔
ایرانی ریال کی تاریخ: قاجار خاندان سے جدید دور تک
ایران میں ریال کی تاریخ کئی نشیب و فراز سے گزری ہے، اور اس کی بنیاد قاجار خاندان کے دور میں رکھی گئی۔ فتح علی شاہ قاجار (1797-1834)، جو قاجار سلطنت کا دوسرا بادشاہ تھا، نے 1798 میں پہلی بار ریال کو بطور کرنسی متعارف کرایا۔ یاد رہے کہ قاجاری دور (1789-1925) میں آغا محمد خان قاجار کی حکمرانی رہی، جبکہ پہلوی دور (1925-1979) میں رضا شاہ اور محمد رضا شاہ حکومت کرتے رہے، جو 1979 کے اسلامی انقلاب پر ختم ہوا۔معروف مورخ جوزف ایم اپٹن (Joseph M. Upton) لکھتے ہیں کہ فتح علی شاہ قاجار تین چیزوں کی وجہ سے ایرانیوں میں مشہور تھا:
غیرمعمولی لمبی داڑھی
بھنورے جیسی پتلی کمر
بےشمار اولاد
فتح علی شاہ کے عہد میں، ایک ریال کو 1,250 دینار میں تقسیم کیا گیا اور اسے تومان کے آٹھویں حصے کے سکے کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ تاہم، 1825 میں ریال کا اجراء بند کر دیا گیا اور اس کی جگہ قیران (Qiran) نے لے لی، جو اس وقت کی عالمی معیشت میں زیادہ مستحکم اور معیاری کرنسی سمجھی جاتی تھی۔
قیران کی قدر و قیمت
قاجار دور میں "قیران” ایران کی کرنسی کا ایک یونٹ تھا۔ اس سکے پر عموماً فارسی خطاطی میں عبارت اور مختلف نقش و نگار کندہ ہوتے تھے۔ ایک قیران کو 20 شاہی یا 1,000 دینار میں تقسیم کیا جاتا تھااور اسے تومان کے دسویں حصے کی مالیت کا حامل بنایا گیا۔ یہ قیمت اعشاری نظام کے اصولوں کے مطابق تھی، جو اس وقت دنیا بھر میں کرنسی کے انتظامات کے لیے ایک جدید رجحان بن چکا تھا۔
پہلوی دور شہنشاہیت میں ریال کی واپسی
تقریباً ایک صدی بعد، 1932 میں ریال نے دوبارہ قیران کی جگہ لے لی اور اس بار ایک ریال کو 100 دینار میں تقسیم کیا گیا۔ اس تبدیلی کا مقصد کرنسی کو مزید مستحکم اور بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ بنانا تھا۔
انقلاب ایران کے دور میں ریال
ایرانی ریال، جو ابتدا میں قاجار بادشاہوں کے سکے کے طور پر جاری ہوا تھا، آج جدید ایران کی معیشت کا بنیادی ستون ہے۔ اس تاریخی سفر میں، ریال نے کئی ادوار میں تبدیلیاں دیکھی ہیں، مگر آج بھی یہ ایران کی مالیاتی شناخت کا اہم حصہ ہے۔
تومان کا مخمصہ: ایران کی زبانی کرنسی کا حیرت انگیز سفر
ایران کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی مجھے ایک دلچسپ اور حیران کن معاشی حقیقت سے واسطہ پڑا۔ میں جب خریداری کے لیے دکانوں پر گیا تو دکاندارنے مجھ سے ریال میں نہیں بلکہ تومان میں قیمت طلب کرتے۔ میں حیران ہو کر پوچھتا، ’آقا، حسابم کم شود؟‘ (یعنی میرا حساب کتنا بنا؟)۔ جواب ملتا، ’اتنے تومان‘۔اب مسئلہ یہ تھا کہ میرے ہاتھ میں تو صرف ریال کے نوٹ تھے، جن پر کہیں بھی تومان لکھا نظر نہیں آتا تھا۔ میں الجھن میں پڑ گیا۔یہ تومان آخر ہے کیا؟ یہ کس مخلوق کا نام ہے؟ بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ جتنی رقم دکاندار تومان میں طلب کریں، میں اسے دس سے ضرب دے دوں تو حساب کرنا آسان ہوجائے گا۔ اگر وہ 20 تومان مانگے ، مجھے 200 ریال کا سکہ انہیں دے دینا چاہیے۔
عرف عام میں تومان یا رسمی ریال
ایران میں زبانی لین دین تومان میں ہوتا ہے، جبکہ تحریری حساب کتاب ریال میں کیا جاتا ہے۔ عام بول چال میں لوگ تومان (جسے ’تومن‘ بھی کہا جاتا ہے) استعمال کرتے ہیں، جبکہ سرکاری سطح پر ریال ہی مستند کرنسی ہے۔مثلاً، 100 ریال کو 10 تومان کہا جاتا تھا۔ لوگ ریال میں حساب لکھتے، مگر بولتے وقت تومان میں زبانی حساب کرتے ۔ اس طریقہ حساب نے نہ صرف عام ایرانیوں بلکہ بیرونی زائرین کے لیے بھی ذہنی الجھن پیدا کر دی۔ سرکاری کرنسی ریال پر مبنی تھی، مگر روزمرہ زندگی میں تومان حاوی تھا، جس کی وجہ سے لوگ ہر بار قیمت کو ریال سے تومان میں ذہنی طور پر تبدیل کرنے کی مشقت میں مبتلا رہتے تھے۔ اس پیچیدگی کے باعث حساب کتاب میں اکثر غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں۔
ریال اور تومان کا مخمصہ، حل کیسے نکالا گیا؟
بالآخر موجودہ ایرانی حکومت نے اس مسئلے کا ایک منفرد حل نکالا۔2023ء نئے کرنسی نوٹ جاری کیے گئے، مگر ان پر تومان لکھنے کے بجائے ریال کو تومان کے حساب سے ڈیزائن کر دیا گیا۔ حکومت نے ایرانی ریال کی بین الاقوامی مارکیٹ میں گرتی ہوئی قیمت کے باعث سے دس ہزار ریال کے نوٹ کو ایک تومان کے برابر قرار دے دیا ہے۔ مگر چار صفر ہلکی روشنائی سے چھاپے گئے۔ اسی طرح، نوٹ کے نچلے دائیں کونے میں انگریزی میں 1 لکھ دیا گیا، تاکہ لوگ اسے 1 تومان ہی سمجھیں۔ 20 ہزار ریال، 2 تومان، 50 ہزار ریال، 5 تومان، اور 1 لاکھ ریال، 10 تومان کے برابر قرار دے دیے گئے ہیں۔ اور جب میں 2001 میں ایران گیا تھا ، اُس وقت 100 ریال 10 تومان کے برابر تھے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ایرانی کرنسی کتنی زیادہ گر چکی ہے۔
ایرانی ریال: ایک مستحکم کرنسی سے بحران تک
ایرانی کرنسی کی قدر ہمیشہ اتنی کم نہیں تھی جتنی میرے سفر ایران کے دوران تھی۔ انقلابِ ایران (1979)سے پہلے ریال کی شرح مبادلہ نسبتاً مستحکم تھی۔ 1 امریکی ڈالر کے مقابلے میں 70 ایرانی ریال کی شرح مقرر کی گئی تھی۔ انقلاب ایران کے بعد ملک سے سرمائے کی پرواز (capital flight)کی وجہ سے ریال کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ اندازہ ہے کہ انقلابِ ایران کے دوران میں اور اس کے بعد تقریباً 30 سے 40 ارب ڈالر بیرونِ ملک منتقل کر دیے گئے۔ اس مالیاتی انخلا نے ریال کی قدر کو زوال کی راہ پر ڈال دیا، جو آج تک جاری ہے۔
ایران میں تومان، جو کبھی محض زبانی کرنسی تھی، اب ایک حقیقی مالیاتی حقیقت بن چکی ہے۔ اگرچہ سرکاری سطح پر ریال ہی برقرار ہے، مگر عوامی زندگی میں تومان نے حکمرانی قائم کر لی ہے۔ حکومت نے نئے نوٹوں کے ذریعے تومان کو نیم سرکاری حیثیت دے کر اس مخمصے کو کسی حد تک ختم کر دیا ہے۔ مگر ایرانی کرنسی کی مسلسل گرتی ہوئی قدر اس کہانی میں ایک اور پیچیدگی کا اضافہ کرتی جا رہی ہے۔
الغرض ، ایران میں کرنسی کا نظام دو متوازی حقیقتوں پر مشتمل ہے: ریال، جو سرکاری اور تحریری لین دین میں رائج ہے، اور تومان، جو عوام کی زبان اور روزمرہ معاملات پر حکمرانی کرتا ہے۔(جاری ہے)
تبصرہ کریں